عید آئی تھی گزر گئی
یہ کونسی نئی بات ہے ، ہر سال عید آتی ہے جانے کیلئے، دنیا میں ایسی اقوام بھی ہیں کہ وہاں عید 12مہینے جاری و ساری رہتی ہے، البتہ ہمارے ہاں عید کا اہتمام بالخصوص رویت ہلال کمیٹی کی حد تک عوام الناس کیلئے کیا جاتا ہے اور عوام بھی بھرپور انداز میں عید کو مناتے ہیں اور آخر وہ مان جاتی ہے، ایک خواص کا طبقہ اگر فارغ ہو تو اپنی ٹوپیاں نکال لیتے ہیں اور عید کے روز صف اول میں جگہ جگہ نظر آتے ہیں، کیمرے ان کی خاطر عوام کی جھلکیاں بھی دکھاتے ہیں تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ مڑ کر دیکھا تو پیچھے ساری صفیں خالی تھیں، 25کروڑ میں سے ہزاروں کی عید ویسے بھی ہر روز روزِ عید اور ہر شب شبِ برات کیٹیگری میں آتی ہے، عید کی استطاعت نہ رکھنے والے اسے حج سمجھ کر ادا کرتے ہیں، بازاروں کو عوام بھرتے ہیں، ٹریفک پولیس کا گزارہ بھی انہی عوام پر ہے ایک رات میں اپنی عید چاند سمیت گھر لوٹ جاتے ہیں، دنیا بھر کے حکمران اداروں کو ٹیکنیکل انداز سے لوٹ کر اپنوں کیلئے سمیٹ کر لے جاتے ہیں اور کئی ممالک کے جمہوری بادشاہ اپنوں سے مال چھین کر اپنے گھر لے جاتے ہیں، یہ ہیں ہر رات کو دن بنا کر اپنے دفاتر کھلے رکھنے والے، یہ بھی اسی لئے وطن عزیز میں عید مناتے ہیں، آج روز افزوں مہنگائی کی جکڑ میں آئے ہوئے پاکستانی عوام نے نہ جانے کیسے بیٹی کی کلائی پر کانچ کی چوڑیاں سجائی ہوں گی، ہم نے تو یہ اشارۃً کہہ دیا ورنہ یہ موضوع تو بہت وسیع ہے۔ عوام بھی اپنے حکمرانوں پر گئے ہیں جہاں کسی ہم مصیبت ہم وطن کو موقع ملے کند چھری تلے لے آتے ہیں، پورا رمضان المبارک لوٹا اور انتہا عید کی خریداری پر کردی۔ عبادات آن ،لائوڈ سپیکر نے بھی 30روزوں کی رونق میں خوب اضافہ کیا، حالانکہ عبادت تو بندے اور اس کے رب کے درمیان ایک راز کی گھڑی ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے جمعہ کے خطبہ میں فرمایا ’’عید اس کیلئےنہیں جس نے نیا جوڑا پہنا، عید اس کی ہے جو اللہ تعالیٰ کی وعید سے ڈرا‘‘۔
٭٭٭٭
کچے پکے ڈاکو
کراچی میں تو صرف دو علاقے ہیں جہاں کچے پکے ڈاکوئوں کا ایک طویل زمانے سے بسیرا ہے مگر اب ان کے فیوضات پورے ملک میں پھیل گئے ہیں پورا زور لگا کر کچے کے پکے کے ڈاکوئوں کا خاتمہ نہیں کیا جاسکتا، ڈاکو درحقیقت سب پکے ہوتے ہیں، جو کچے ہوتے وہ لٹتے ہیں اور اپنے ساتھیوں کو بھی معاف نہیں کرتے، جرائم کی شرح نمو میں یکدم تیزی آنے سے پورا وطن پاک کچے پکے افراد سے بھر گیا ہے، حتمی طور پر کسی کے پاکیزہ ہونے کا یقین نہیں کیا جاسکتا، ہمارا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ کچے اور پکے ڈاکوئوں کا کوئی جواز ہے بلکہ ہماری مراد یہ ہے کہ کسی ملک کا کوئی ایک حصہ پلید نہیں ہوتا بلکہ ہر جگہ ابلیس اور اس کے پیروکار موجود ہوتے ہیں، ہر طرح کا گناہ ہر جگہ ہوتا ہے اور نہیں بھی ہوتا،پھوڑے کا ایک منہ نہیں ہوتا اور بالخصوص جڑوں والا پھوڑا تو ہماری پولیس برقرار رکھتی ہے تاکہ اس کی آنیاں جانیاں برقرار رہیں، ہمارے دیس میں تقریباً اکثریت نے کچے پکے مجرم برقرا ر رکھنے پر اجماع کرلیا ہے کچے پکے ڈاکو نہ سہی ہم اپنی اپنی بساط کے مطابق ایسی غلط حرکت کرجاتے ہیں جسے ہم خود بھی کچی پکی برائی محسوس ہی نہیں کرتے، سندھ میں کچے پکے ڈاکوئوں کو لگام اس لئے نہیں دے سکتے کہ ملک کے دوسرے حصوں میں غیر منظم کچے پکے ڈاکو بے شمار رنگ روپ رکھتے ہیں،قابو کرنے والے انہیں کیسے قابو کریں کہ وہ خود مقبوضہ ہیں، سندھ میں سندھ کے سیاستدانوں کے اقتدار کا لمبا چوڑا سلسلہ چلا آ رہا ہے، شاید اس سلسلے کی طوالت کے باعث ہی کچے کے پکے ڈاکو زیر حکومت نہیں آ رہے۔ کچے پکے کے ڈاکو تو ایک علامت ہے، کراچی میں کوئی اپنی دہلیز پر محفوظ نہیں، سندھ اپنی مکمل شکل میں کچے اور پکے کے ڈاکوئوں کے قبضے میں نہیںبلکہ یہ ڈاکو خود کسی کے قبضے میں ہیں۔ ایک طاقت ایسی ہے کہ جب بھی ہاتھ ڈالے گی کچے پکے ڈاکو ہوں یا علاقے، سندھ دارالامان بن جائے گا، انشا اللہ، پاک فوج کا آہنی ہاتھ اب زیادہ دور نہیں۔
٭٭٭٭
بے اثر اعلانات
نئی نویلی حکومت ہے ہر طرف اعلانات و بیانات کی جھنکار ہے، منصوبہ سازوں کے پاس ایساساز ہے کہ 76 سال سے عوام کونچا رہا ہے۔ حکومت ہے دکھائی نہیں دیتی، انتخابات نے ثابت کیا کہ عوام چاہتے ہیں ہم نے سب کو نواز دیا اب مل جل کر اس ملک کی خدمت کا قرضہ اتارو کہ ہمارے سارے قرضے اتر جائیں، ہر روز ہر مائیک میں مطلوبہ ترقی کی تکمیل کا اعلان پھونکا جاتا ہے، ملک میں نظم و ضبط کا فقدان نہ ہوتا تو ہم روٹی لینے ادھر ادھر کشکول بکف نہ پھرتے، حالانکہ اللہ نے ہمیں انواع واقسام کی نعمتوں سے مالا مال کیا، اس خدائی دولت کو ہر دور میں بندر بانٹ کی نذر کیا گیا۔ ورنہ آج یہ ملک اپنے ارد گرد کے ملکوں میں سب سے آگے ہوتا،کہ ہر صلاحیت یہاں موجود ہے جو دھڑا دھڑ یہاں سے باہر رخصت ہو رہی ہے۔ بے اثر بلند بانگ دعوے کیا ظاہر کرتے ہیں اس سے سب باخبر ہیں مگر ان کی آوازیں دبی ہوئی ہیں، ملک کا کوئی شعبہ تسلی بخش سمت میں آگے نہیں بڑھ رہا۔ زبانی کلامی بہت کچھ مگر عملاً ملک وہیں کھڑا ہے جہاں روز اول تھا۔ کیا دل پر ہاتھ رکھ کر کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ جو فلاں شے اس نے خریدی ہے وہ ایک نمبر ہے، یہ نہیں کہ ملک بھر میں اچھے لوگ نہیں مگر حالات ثابت کرتے ہیں کہ کسب زر کے ذرائع ایسے ہاتھوں میں ہیں جو کچھ دیتے وقت کانپ جاتے ہیں ، کابینہ کے ارکان جگہ جگہ بڑے دعوے کرتے ہیں مگربر سرزمین ان کا کیا کچھ نظر نہیں آتا۔ جہاں قول عمل پر غالب ہو وہاں افراد کے دو دو منہ اور زبانیں ہوتی ہیں، ہم اپنے ہم وطنوں کے ساتھ مخلص نہیں ورنہ یہ ذخیرہ اندوزی اور چور بازاری نہ ہوتی، حسن اخلاق، قوموں کو بہترین منزل تک پہنچا دیتا ہے،پختہ علمی صلاحیت پیدا کرنے کی طرف رخ کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی، ہمارے حکومتی نظام میں جس روز بہتری آئے گی رٹ آف گورنمنٹ جا بجا نظر آئے گی۔
٭٭٭٭