• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ اس بات کو چھوڑیئے کہ میں کون ہوں، کس ملک کا باسی ہوں۔ میں کیا کرتاہوں اور آج تک کیا کرتا رہاہوں۔ آپ تحمل سے کہانی سنئے اور بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کیجئے۔ میں جانتا ہوں کہ ساس بہو جیسےموضوع پر ڈرامے دیکھنےوالے کھوجی دماغ کے مالک ہوتے ہیں۔ آپ اللہ سائیں کا نام لیجئے اور تحمل سے کہانی سنئے اور کھوج لگا ئیے۔ ہاں ، ایک اور بات کی وضاحت کرنا چاہتاہوں۔ اس کہانی میں بلانے والوں نے مجھے سابقہ سرکار کے نام سے بلایا ہے۔ سابقہ سرکار میری ذات ہے اور میری پہچان ہے۔ یہ پہچان مجھے اپنے باپ دادا سےملی ہے۔ یہی پہچان میرے باپ دادائوں کو ان کے باپ دادائوں سے ملی تھی۔ آپ جب تک سرکار نہ رہ چکے ہوں تب تک آپ سابقہ سرکار کہلوانے کا قانونی اور غیر قانونی حق نہیںرکھتے۔ اب آپ خود اندازہ لگا لیجئے کہ ہم پشت در پشت کسی ملک کی سرکار نامدار رہتے آئے ہیں۔ سابقہ سرکار کا لقب مفت میں نہیں ملتا۔ آپ کسی ایرے غیرے نتھو خیرے کو سابقہ سرکار نہیں کہہ سکتے۔ سابقہ سرکار کہلوانے کے لئے آپ کوکچھ غیر معمولی کرناپڑتا ہے۔ اس موضوع پر پھر کبھی بات ہوگی۔ فی الحال آپ کہانی سنئے۔ اگر آپ چاہیں تو اس کو افسانہ بھی کہہ سکتے ہیں۔

حال ہی کی بات ہے ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ میرے ہیلو ہائے کہنے سے پہلے کسی نے کچھ اچھی زبان یا اچھے لہجے کی بجائے کرخت لہجے میں کہا۔ ’’تم سابقہ سرکار بول رہے ہویا پھر سابقہ سرکار کے ہم زلف بنام زلف پریشاں بول رہےہو ؟‘‘

اس طرح میرے ساتھ پہلی مرتبہ ہورہا تھا۔ مجھے تعجب ہوا۔ میں جانتا تھا، اور جانتا ہوں کہ روایتاً ہمارےملک میں کوئی ایراغیرا نتھو خیرا ایسی کرخت آواز اور دبدبے والے لہجے میں بات نہیں کرتا۔ مجھے اس بات کا یقین اس لئے ہے کہ بغیر کسی کارکردگی اور ووٹ دینے والوں کی دلجمعی کے ہم سابقہ سرکار ہر بار الیکشن میں سرخرو ہوتے آئے ہیں۔ وہ تو اتفاق کی بات ہوتی ہے کہ ہم کسی منصوبہ بندی کے تحت سابقہ سرکار بنا دیئے جاتےہیں۔ اور ہماری جگہ کوئی دوسرا بازی گر بازی مارنے کے بعد سرکار نامدار بنا دیا جاتا ہے۔ لوگ سابقہ سرکار سے اس لئے بھی بدتمیزی نہیں کرتے کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ جانے والے جاتے نہیں، ہاتھ پیر مارتے ہیں اور کبھی بھی سابقہ سرکار سے سرکار نامدار بن سکتے ہیں۔

فون پر بات کرنے والے سے میں نے کہا۔ ’’میں سابقہ سرکار بول رہا ہوں۔‘‘

پھٹے ہوئے ڈھول جیسی آواز اور کرخت لہجہ میں اس نے کہا۔ ’’سرکار نامدار نے تمہیں بلایا ہے۔ ہم تمہیں لینے آرہےہیں۔‘‘

اس سے پہلے کہ میں اس سے کچھ پوچھتا، اس نے فون بند کردیا۔ اس کی پھٹے ہوئے ڈھول جیسی آواز اور کرخت لہجہ شناسا لگا۔ کچھ دیر کے بعد چند مشٹنڈے آئے۔ ان میں پھٹے ہوئے ڈھول جیسی آواز اور کرخت لہجے والا مشٹنڈا سب سے آگے تھا۔ اسے دیکھتے ہی میں نے پہچان لیا۔ ہم جب سرکار نامدار تھے تب و ہ مشٹنڈا ہمارے خاص کارندوں میں سے ایک ہوا کرتا تھا۔ تب و ہ جونیئر تھا، اس لئے آگے آگے نہیں رہتا تھا۔ لوگوں کو چھٹی کا دودھ یاد دلوانے میں وہ اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ پرتپاک لہجہ میں اس کا نام لیتے ہوئے میں نے کہا۔ ’’لگتا ہے صدیوں بعد تمہیں دیکھ رہاہوں۔ کیسے ہو؟‘‘

اس نے کرخت لہجے میں بات کرتےہوئے کہا۔’’تم بھول رہےہو۔ میں وہ نہیں ہوں، جسے تم سمجھ رہے ہو۔‘‘

تب مجھے یاد آیا کہ مشٹنڈوں کو تربیت دی جاتی ہے کہ وہ سرکار نامدار کے سوا کسی کو نہ جانیں اور نہ پہچانیں۔ کرخت مشٹنڈا، جب تک میں سرکار نامدار ہوا کرتا تھا، میرا نمک خوار ماتحت رہ چکا تھا۔ اب جب کہ میں سابقہ سرکار بن چکا ہوں، اس نے مجھے کرخت لہجہ میں کہا، ’’سب سابقہ سرکاریں مجھے پہچاننے میں غلطی کر بیٹھتی ہیں۔ تم بھی مجھے پہچاننے میں غلطی کررہے ہو۔‘‘

جواباً میں کچھ کہتا، کرخت لہجے والے مشٹنڈے نے کہا۔ ’’اٹھو....ہم تمہیں لینے آئے ہیں۔ سرکار نامدار نے تمہیں بلایا ہے۔‘‘

مشٹنڈوں نے مجھے اٹھالیا اور لاکر مجھے سرکار نامدار کے آگے پیش کر دیا۔ سرکار نامدار نے ایک پھٹیچر قسم کے شخص کی طرف اشارہ کرتےہوئے کہا۔ ’’اس کے جرائم کی فہرست لمبی ہے۔ اسے عمر قید یا موت کی سزا مل سکتی ہے۔ مگرمیں چاہتا ہوں کہ اس کی سزا تم کو دوں۔ عمر بھر سڑنے کے لئے میں تمہیں جیل میں ڈال دوں، یا پھانسی کے پھندے سے لٹکا دوں۔ خس کم جہاں پاک۔‘‘

میں نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔ ’’مگر اس کےجرائم کی سزا آپ مجھے کیوں دینا چاہتےہیں؟‘‘

’’غور سے اس کی طرف دیکھو۔ کیا تم اسے نہیں پہچانتے۔‘‘ سرکار نامدار نے کہا۔ ’’یہ ایک نہیں انیک ہیں۔‘‘

میں نے غور سے پھٹیچر کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’میں نے آج سے پہلے اس کو کبھی نہیں دیکھا ہے۔ یہ نہ جانے کون ہے۔‘‘

سرکار نامدار نے کہا۔ سابقہ سرکار تم جب سرکار نامدار تھے تب یہ مجرم چھوٹا سا، معصوم سا لاوارث بچہ تھا۔ کوڑے کرکٹ سےروزی روٹی تلاش کرتا تھا۔ تب یہ ایک نہیں انیک تھا۔ تم نے اس کے سرپر ہاتھ نہیں رکھا۔ اسکےرہن سہن، تعلیم و تربیت کے لئے کچھ نہیں کیا۔ اسے عزت کی زندگی گزارنےکے گر نہیں سکھائے۔ تم نے اسے نظرانداز کردیا۔ اسے جرائم پیشہ والوں کے ساتھ پرورش پانے کے لئے چھوڑ دیا۔‘‘

میں نے تعجب سے کہا۔ ’’سرکار نامدار، یہ سب پچھلے 75برس سے ہوتا چلا آرہاہے۔ آپ کےدورمیں بھی لاوارث بچے کوڑے کرکٹ سےروزی روٹی تلاش کرتےرہتے ہیں۔‘‘

سرکار نامدار نے کہا۔ ’’یہ سوال تم ہم سے نہیںکرسکتے۔ جب ہم سابقہ سرکار بن جائیں گے، تب کے دور کی سرکار نامدار ہم سے یہ سوال پوچھ سکتی ہے۔‘‘

’’تب تک؟‘‘

’’تب تک لاوارث بچے کوڑے کرکٹ سے روزی روٹی تلاش کرتےرہیں گے۔ اور ہر سرکارِ نامدار اپنے آپ کو بری الذمہ ثابت کرتی رہے گی۔‘‘

تازہ ترین