• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے شاعر دوست اقتدار جاوید کو میرے گھر والوں نے میری ’’چھیڑ‘‘ بنا لیا ہے گھر جاتا ہوں تو پوچھتے ہیں کہ آج اقتدار جاوید صاحب سے کیا گپ شپ ہوئی ۔آج آپ ان کے ساتھ کس ریستوران میں گئے تھے آج کس موضوع پر ان سے ’’مناظرہ ‘‘ ہوا ۔میں جب گھر والوں کی یہ باتیں سنتا ہوں تو خوش ہوتا ہوں کہ میرے نزدیک کسی سے دوستی ہو تو اس کا ’’کھڑاک‘‘ بھی سنائی دینا چاہئے میرے گھر والوں کو چونکہ یہ علم ہے کہ جب میں کسی کو دوست بناتا ہوں تو پھر زیادہ وقت اس کے ساتھ گزرتا ہے یا اس کی باتیں دوسروں کے ساتھ شیئر کرنے میں لگا رہتا ہوں سو میرا بیٹا کہتا ہے کہ اقتدار انکل ابو کی نئی ’’انٹری‘‘ ہیں۔

میں آپ کو سچی بات بتائوں کہ برادرم سے ملاقات سے پہلے میں ان کے نام سے واقف نہیں تھا اس لئے کہ میں ارد گرد پائے جانے و الے ہزاروں شاعروں کو جاننے کا ’’ذمہ دار‘‘ تو نہیں سو مجھے کیا علم تھا کہ اقتدار جاوید ہزاروں میں ایک ہیں انہیں ایک صاحب طرز شاعر سمجھا جاتا ہے مگر جب ان سے پے درپے ملاقاتیں ہوئیں تو مجھے احساس ہوا کہ جتنا میں انہیں جانتا ہوں شاید کم ہی لوگ اتنا جانتے ہوں گے پہلی بات تو ان کے صاحب اسلوب ہونے کے حوالے سے ہے مجھے شاعر کا نام بتائے بغیرکوئی شعر سنائیں اگر وہ شعر اقتدار جاوید کا ہے تو میں فوراً ان کا نام لے لوں گا ۔دوسری بات یہ کہ برادرم کو صرف شاعر سمجھنا بہت بڑی زیادتی ہے ان ایسے صاحب مطالعہ میں نے بہت کم دیکھے ہیں تیسری بات یہ کہ وہ صاحب نظر نقاد بھی ہیں، مجھے علم نہیں کہ تنقیدی مضامین پر مشتمل ان کی کوئی کتاب شائع بھی ہوئی ہے کہ نہیں لہٰذا انہوں نے اپنے محبوب ترین شاعر ظفر اقبال کی شاعری پر ایک تفصیلی مضمون لکھا تو ظفر اقبال نے وہ پڑھ کر اقتدار جاوید کو ٹھیٹھ پنجابی زبان میں ان کی شان میں جو کچھ کہا اسے یہاں بیان کرنے کی تہذیب اور ایڈیٹر اجازت نہیں دیتے۔ اقتدار جاوید نے یہ مضمون مجھے بھی پڑھایا اور میں نے بھی ظفر اقبال کی رائے کو تہذیب کا جامہ پہنا کر اس کی تائید کردی وجہ یہ کہ اس طویل مضمون میں برادرم نے علم و عرفان کے سمندر بہا دیئے اردو شاعری کا ابتدائی دور اس کا آج اور کل کا موازنہ نیز پس منظر اردو شاعری کی نئی روایات آنے والے زمانوں کے ممکنہ رجحانات وغیرہ کے سمندر میں بہت غوطے دینے کے بعد ظفر اقبال کی شاعری پر رائے صرف آخری دو جملوں میں دی اور اس پر ظفر کا مُقَفّیٰ و مُسَجَّع’’داد‘‘ دینا بنتاتھا تاہم میرا مشوہ ہے کہ اقتدار جاوید ظفر اقبال کے حوالے سے یہ آخری دو جملے بھی نکال کر مبین مرزا کے ’’مکالمہ‘‘ کو برائے اشاعت روانہ کر دیں ان کے علم کی دھومیں ہند وسندھ میں پھیل جائیں گئی۔

تفنن بر طرف اقتدار جاوید صرف اردو کے اے کلاس شاعر نہیں پنجابی کے بھی صف اول کے شاعر ہیں اور ان دونوں زبانوں میں ان کے درجن سے زیادہ مجموعے شائع ہو چکے ہیں ۔برادرم کا ذکر کرتے ہوئے انہیں صرف شاعری تک محدود رکھنا یا محض ان کی کالم نگاری کا حوالہ دینا یا ان کی تنقیدی بصیرت کا ذکر کرنا ان کے ساتھ زیادتی ہے ۔فلسفہ اور مذہب بھی ان کے مطالعہ کا حصہ ہیں سیاست سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں۔گوگل پر دنیا بھر کے انگریزی اخبارات سے بھی معلومات کشید کرتے ہیں انہوں نے مختلف زبانوں کی شاعری کے تراجم بھی کئے ہیں اور اب اگر میں صرف ان کی شاعری پر قدرے تفصیلی رائے کا اظہار کروں تو میں یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں۔

اثر آفرینی کے لحاظ سے اقتدار جاوید کا شمار گنے چنے شعرا میں ہوتا ہے دوسرا تاثر یہ ہے کہ ان کی شاعری نئی شاعری سے بھی مختلف ہے کہ نئی شاعری اب بہت پرانی ہو چکی ہے۔اقتدار جاوید کے موضوعات بھی علیحدہ ہیں اور پیرا یہ اظہار بھی مختلف ہے اقتدار جاوید بنیادی طور پر نظم نگار ہیں کہ ان کی آزاد نظم کے تین مجموعے شائع ہو چکے ہیں اور چوتھا مجموعہ ’’آرام باغ ‘‘ زیر ترتیب ہے مگر ان کی تخلیقی سرگرمی کو محض نظم نگاری تک محدود کرنا قدرے زیادتی ہے کہ ان کی پنجابی شاعری کے تین مجموعے بھی اپنے قارئین کا ایک خاص حلقہ بنا چکے ہیں بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ رزمیہ شاعری پر ان کی کتاب ’’پٹوری وار‘‘ تو کلاسک میں شمار ہونی چاہئے چار چفیرے ان کی طویل پنجابی غزل کی کتاب ہے جو ایک ہزار مصرعوں پر مشتمل ہے اور ہر فعل پر شعر موجود ہے ،جدید عربی نظم ان کی خصوصی دلچسپی کا میدان ہے انہوں نے بدرشاکر السیات سے لیکر رواں عہد کے صدیق الرعدی تک اہم شعرا کے کلام کو اردو نظم میں ڈھالا ہے ’’ہیکل‘‘ ان کی غزلوں کا تیسرا مجموعہ ہے ہیکل کی شاعری عام اور دستیاب اردو غزل سے الگ ہے اور اہم تخلیقی تجربہ ہے ہیکل کی غزل ایسا اسلوب بنانے میں کامیاب ہوئی ہے جو اقتدار جاوید کو کسی خاص لمحے میں قدرت سے عطا ہوا ہے ایسی تخلیقی عطا پر شاعر حد درجہ شکر گزار ہے کہ یہی شکر گزاری تخلیقی سوتے خشک نہیں ہونے دیتی ’’ہیکل‘‘ ایک الگ جہان ہے، الگ جہانِ شاعری ہے۔

اور اب ایک مزے کی بات مضمون تو آپ نے پڑھ ہی لیا اب یہ بھی سن لیں کہ میرے اور اقتدار جاوید کے درمیان شعرو ادب اور بے لوث دوستی کے علاوہ کوئی ایک چیز بھی کامن نہیں ہے ہم دونوں کے سیاسی اور دینی افکار میں بعدالمشریقین ہے سو وٹ SO WHATمجھے تو مزا ہی ایسی دوستی میں آتا ہے جس میں اختلافات ہی اختلافات ہوں اتفاق کی بنیاد پر دوستی کو تو میں ’’اتفاقی ‘‘ دوستی قرار دیتا ہوں!

تازہ ترین