• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قدیم یونانی عقیدے کے مطابق قسمت کی دیوی رات کے اندھیرے میں نکلتی ہے اور یہ جس شخص کے دروازے پر دستک دینے کے لئے رُک جائے،اس کی زندگی سنور جاتی ہے بشرطیکہ وہ شخص جاگ رہا ہو۔ اسی مناسبت سے چرچل نے کہا تھا کہ ہر شخص کی زندگی میں ایک ایسا خاص لمحہ ضرور آتا ہے جب اس کا کندھا تھپتھپایا جاتا ہے اور کوئی ایسا خاص کام کرنے کا موقع ودیعت ہوتا ہے جو اس کی صلاحیتوں کے عین مطابق ہوتا ہے۔ اگر وہ لمحہ میسر آئے اور آپ اس کے لئے تیار نہ ہوں تو اس سے بڑا المیہ کوئی نہیں۔دنیا کے ہر مذہب میں مقدر کا عمل دخل ہے ،جس طرح ہندوئوں کے ہاں خوش بختی اور بدبختی کا تصور ہے،اسی طرح مسلمانوں میں بھی قبولیت کی گھڑی اور مصیبت کی لڑی کو مشیت ایزدی سے منسوب کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر جب کوئی شخص فوت ہوتا ہے تو ہم کہتے ہیں،اس کا وقت آ گیا تھا اور جب کوئی فرد موت کے منہ سے بچ نکلتا ہے تو ہم کہتے ہیں،اس کا وقت ابھی نہیں آیا تھا۔جس طرح موت کا وقت مقرر ہے،اسی طرح کامیابی کا وقت بھی متعین ہے۔ایک کالج میں ایک ہی کلاس کے طلبہ ایک ہی معلم کی نگرانی میں امتحان کی تیاری کرتے ہیں،بعض اوقات وہ طالبعلم زیادہ نمبر لے جاتا ہے جس نے کم محنت کی ہوتی ہے اور زیادہ محنت کرنے والا پیچھے رہ جاتا ہے۔اسی طرح ایک ہی بازار میں دو دکاندار ایک طرح کا بزنس شروع کرتے ہیں،ایک دیکھتے ہی دیکھتے مالامال ہو جاتا ہے اور دوسرا کنگال رہ جاتا ہے مگر ایسی صورت میں ہم یہ نہیں کہتے کہ یہ اس کا وقت ہے، میرا وقت ابھی شروع نہیں ہوا۔ بعض اوقات ہم چند کلیوں کی بھیک مانگتے پھرتے ہیں اور کاتب تقدیر نے پورا چمن ہی دینے کا فیصلہ کر رکھا ہوتا ہے۔ جب وقت سے پہلے،غلط مقام پر اپنی توانائیاں صرف کرنے کے سبب کامیابی نہیں ملتی تو ہم مایوس ہو کر بیٹھ جاتے ہیں،اسی لمحے قسمت کی دیوی آتی ہے اور منادی دینے کے باوجود غافل پا کر آگے نکل جاتی ہے۔ دل شکستہ اور ہارے ہوئے لوگوں کی ایک اور منطق یہ ہوتی ہے کہ اب بہت دیر ہو چکی ،کچھ کر گزرنے کا وقت گزر چکا۔ہمارے ہاں تو بھلے چنگے نوجوان خود کو بوڑھا سمجھ کر کولہو کے بیل کی طرح دائروں میں گھومتے رہتے ہیں،وہ جو واقعتاً ادھیڑ عمر ہیں،ان کی کیا بات کی جائے مگر میں جب کامیاب افراد کی کتاب زیست کے ورق الٹتا ہوں تو ایک جملہ نہایت جلی حروف میں لکھا ملتا ہے:
It is never too late
ہالی ووڈ میں Murray Abraham کا نام بہت معروف اور جانا پہچانا ہے۔اس نے 1984ء کی فلم Amadeus میں Antonio Salierriکا کردار اس خوبصورتی سے ادا کیا کہ اسے بہترین اداکار کی کیٹیگری میں اکیڈمی ایوارڈ دیا گیا۔ جب اسے مذکورہ فلم میں کام کرنے کا موقع ملا تو اس کی عمر 76برس تھی اور لوگوں کا خیال تھا کہ اس کا کیریئر ختم ہو چکا ہے کیونکہ اس نے ساری زندگی چھوٹے موٹے رول کئے تھے لیکن اسے یقین تھا کہ قسمت کی دیوی ایک بار ضرور اس کے دروازے پہ دستک دے گی اس لئے کامیابی اس کا مقدر بنی۔ میرے سامنے دوسری روشن مثال اطالوی شاعر اور مقبول ترین سنگر Andrea Bocelli کی ہے ۔پورے یورپ اور امریکہ میں اس سنگر کے کروڑوں پرستار ہیں۔اب تک اس نے پاپ اور کلاسیک میوزک کے 14البم بنائے ہیں اور ان البمز کے اب تک ایک ارب ریکارڈز فروخت ہو چکے ہیں۔1997ء میں Roznama کے نام سے سامنے آنے والے اس کے البم نے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دیئے جس کے 20ملین ریکارڈز فروخت ہوئے۔آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ یہ اطالوی گلوکار نابینا ہے۔ جب وہ پیدا ہوا تو اس کی بینائی کمزور تھی اور 12سال کی عمر میں ہونے والے ایک حادثے کے نتیجے میں بصارت سے مکمل طور پر محروم ہو گیا۔ سنگر بننا اس کا ارمان تھا اس لئے پے در پے ناکامیوں کے باوجود ہمت نہ ہاری۔ جب تھوڑی بہت کامیابی ملی تو دنیائے موسیقی کے ناخدائوں نے تنقید کے نشتر چلانا شروع کر دیئے۔ کسی نے کہا،آواز بہت بھدی ہے،کسی نے تلفظ پر اعتراض کیا،کسی کے خیال میں ساز و آواز کے تال میل کی کمی تھی،الغرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ قریب تھا کہ یہ شخص مایوس ہو کر بیٹھ جاتا کہ زندگی کے 39ویں برس اسے اپنی صلاحیتیں منوانے کا موقع ملا اور اس نے ایسی کھڑکی توڑ پرفارمنس دی کہ دنیا دیکھتی رہ گئی۔
Phyllis Diller اب اس دنیا میں نہیں لیکن اس کی کامیڈی اب بھی لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دیتی ہے۔یہ امریکن خاتون کامیڈین اپنے وقت کی منتظر رہی۔پیانو سیکھ کر موسیقی کی دنیا میں قدم رکھنے کی کوشش کی، فلموں میں طبع آزمائی کی مگر خاطر خواہ کامیابی نہ ملی۔37سال کی عمر میں کامیڈین بننے کا فیصلہ کیا تو سب نے کہا،بہت دیر ہو چکی،اب تم بوڑھی ہو گئی ہو لیکن اسے یقین تھا کہ قسمت کی دیوی ایک دن ضرور مہربان ہو گی۔ وہ کامیڈی کے شعبے میں آئی اور چھا گئی۔ اپنے وقت کا انتظار کرنے والے کامیاب افراد میں ایک نام Stan Lee کا بھی ہے جسے دنیا شہرہ آفاق کردار اسپائیڈر مین کے خالق کی حیثیت سے جانتی ہے۔ یہ امریکن رائٹر، پبلشر اور میڈیا پروڈیوسر 1950ء کے اوائل میں مایوس ہو چکا تھا اور اس کا خیال تھا کہ کوئی اور ڈھنگ کا کام کر لیا جائے۔ اسی اثناء میں اسے مارٹن گڈ مین کی جانب سے ایک نیا ہیرو تخلیق کرنے کا ٹاسک ملا۔اس کی بیوی نے حوصلہ دیا اور اس نے اس وقت کے رجحانات سے ہٹ کر ہیرو تخلیق کرنے کا سوچا۔ اس وقت ہیرو کا تصور یہ تھا کہ وہ پرفیکٹ ہوتا ہے، اس سے غلطی نہیں ہوتی۔اس نے جو ہیرو متعارف کرایا وہ انسانوں کی طرح غصے میں آ جاتا، بلوں کی ادائیگی کے لئے پریشان ہوتا ،بور بھی ہوتا اور یہاں تک کہ بیمار بھی ہو جاتا۔کامیابی نے قدم چومے اور وہ شخص امر ہو گیا۔آپ Julia child کی مثال لے لیں،یہ بھی فوت ہو چکی ہیں۔ امریکن شیف جولیا کا شمار دنیا کے چند بہترین ککنگ ایکسپرٹس میں ہوتا تھا۔ ان کی کتابیں آج بھی ہاتھوں ہاتھ بکتی ہیں مگر یہ کامیاب شیف40سال کی عمر تک آملیٹ بنانا بھی نہیں جانتی تھیں۔ ان کی زندگی امریکن نیوی اور سیکرٹ انٹیلی جنس ڈویژن میں کام کرتے گزری۔ ریٹائرمنٹ کے بعد 50سال کی عمر میں انہوں نے اپنا مشہور زمانہ ٹی وی شو شروع کیا اور مقبولیت کی بلندیوں کو چھو لیا۔اب میں آپ کو اپنے قبیلے کے کچھ ایسے کامیاب افراد سے ملواتا ہوں۔Elizabeth Jolley مشہور آسٹریلوی مصنفہ ہیں جنہوں نے 15ناول لکھے اور 9دیگر کتابیں تصنیف کیں۔ انہوں نے 53سال کی عمر میں اپنے ادبی سفر کا آغاز کیا اور ناکامی کا یہ عالم تھا کہ ایک سال میں 39پبلشرز نے ان کی کتاب چھاپنے سے انکار کیا۔Mary Wesley اپنی زندگی میں برطانیہ کی سب سے مشہور اور کامیاب ترین ناول نگار تھیں، ان کی کتابوں کے 30لاکھ نسخے فروخت ہوئے۔ زندگی کے آخری بیس سال کے دوران ان کے دس ناولز نے بیسٹ سیلر کا اعزاز حاصل کیا لیکن آپ یہ پڑھیں گے تو دنگ رہ جائیں گے کہ اس عظیم ناول نگار کا پہلا ناول 71سال کی عمر میں شائع ہوا۔ Laura Wilder امریکہ مصنفہ اور کالم نگار ہیں ،انہوں نے 40سال کی عمر میں اپنے قلمی سفر کا آغاز کیاکیونکہ انہیں یقین تھاکہ اِٹ اِزنیور ٹولیٹ۔ناکامی کی صورت میں صحیح جگہ اور صحیح وقت کا انتظار کریں کہ قسمت کی دیوی کسی پل بھی مہربان ہو سکتی ہے۔کبھی بھی یہ نہ سوچیں کہ اب بہت دیر ہو چکی کیونکہ کامیابی کا ایک ہی بنیادی اصول ہے کہ ـ’’اِٹ اِز نیور ٹولیٹ‘‘
تازہ ترین