• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ نے ایران کے صدر ابراہیم رئیسی کے دورہ پاکستان پر جس ردعمل کا اظہار کیا وہ متقاضی ہے اس بات کا سفارتی سطح پر واشنگٹن سے رابطہ کرکے اسے خودمختار پاکستان کی ضرورتوں کے حوالے سے قائل کیا جائے جبکہ پاک ایران تعلقات کی گہرائی و گیرائی اور تاریخی منظر اجاگر کرتے ہوئے یہ واضح کرنا بھی ناگزیر ہے کہ اسلام آباد تہران تعلقات میں اضافہ خود واشنگٹن کی بھی ضرورت ہے۔ جب تہران کے ایٹمی پروگرام کے تناظر میں امریکہ اور عالمی اداروں کی جانب سے ایران پر مختلف پابندیاں عائد کی گئیں تو یہ پاکستان ہی تھا جو ان دونوں ممالک کے درمیان سفارتی پیغامات کے تبادلے کا ذریعہ بنا۔ خبر کے مطابق واشنگٹن نے پاک ایران تجارتی معاہدوں پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان کو پابندیوں کے ممکنہ خطرے سے آگاہ رہنے کا مشورہ دیا ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق واشنگٹن پاکستان کی سب سے بڑی برآمدی منڈیوں میں سے ایک ہے جبکہ 20برس سے پاکستان میں ایک بڑا سرمایہ کار بھی واشنگٹن ہے۔ یہ ردعمل واشنگٹن کے 20اپریل 2024ء کے ایک اقدام کے تین روز بعد ہی سامنے آیا ہے جس کے تحت پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کیلئے تعاون اور سامان فراہم کرنے کے الزام میں چار کمپنیوں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ ان میں تین چینی اور ایک بیلا روس کی کمپنی شامل ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے بموجب مذکورہ کمپنیوں نے پاکستان کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں سمیت بیلسٹک میزائل کی تیاری میں استعمال ہونے والے آلات اور مددگار اشیا فراہم کی ہیں۔ قبل ازیں اکتوبر 2023ء میں بھی پاکستان کو بیلسٹک میزائل پروگرام کے پرزہ جات اور سامان فراہم کرنے کے الزام میں چین کی تین کمپنیوں پر پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ پاکستان نے ایکسپورٹ کنٹرول پالیسی کے اس سیاسی استعمال کو مسترد کردیا ہے اور کہا ہے کہ ایسی پابندیاں ماضی میں بھی بغیر کسی ثبوت کے لگائی جاتی رہی ہیں جبکہ کئی پسندیدہ ممالک کو بڑی ٹیکنالوجی کی فراہمی سے استثنا دیا جاتا رہا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے اس موقف کا وزن تسلیم کیا جانا چاہئے کہ سماجی و اقتصادی ترقی کے حصول کیلئے ٹیکنالوجی تک رسائی یقینی بنانے کیلئے ایک معروضی میکانزم کی غرض سے متعلقہ فریقوں کے مابین تبادلہ خیال ضروری ہے۔ جہاں تک تاریخی ثقافتی و رشتوں کے حامل ہمسایہ ملک ایران سے تجارتی معاہدوں کا تعلق ہے، ہمسایہ ملکوں کے درمیان تجارت کے قانونی راستے نہ ہوں تو اسمگلنگ اور جرائم کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ اسلام آباد کو دہشت گردی سمیت کئی مسائل کا سامنا ہے اور اس کی کوشش یہی رہی ہے کہ ہمسایوں سے تجارت سمیت دوستانہ تعلقات استوار ہوں۔ ایسے ہمسایہ ملکوں میں بھارت اور افغانستان بھی شامل ہیں۔ پاکستان کو توانائی کے جس سنگین بحران کا سامنا ہے اس کے پیش نظر مارچ 2013ء میں پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کا آغاز ہوا۔ ایران نے اپنی طرف سے 900 کلو میٹر طویل لائن بچھانے کا کام مکمل کرلیا ہے لیکن پاکستان میں ابھی تک یہ پائپ لائن نواب شاہ تک ہی پہنچ سکی ہے۔ مقررہ مدت میں یہ پائپ لائن مکمل نہ ہوسکی تو معاہدے کے تحت پاکستان کو بڑے جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اصولی طور پر ایران سے تجارت یا توانائی کی ضرورت پوری کرنے پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ موجودہ حکومت کو اس باب میں نہ صرف اعلیٰ سیاسی و سفارتی سطح پر امریکہ سے رابطے کرنے چاہئیں بلکہ دوست ملکوں کے ذریعے وائٹ ہائوس کو یہ پیغام بار بار پہنچنا چاہئے کہ ایران سے گیس پائپ لائن منصوبے سمیت تجارت پاکستان کی معیشت کیلئے خاص اہمیت کی حامل ہے۔ امریکہ کو پاکستان کی مشکلات پیش نظر رکھنا چاہئیں اور علاقائی سطح پر تجارت بڑھانے سمیت توانائی کی ضروریات پوری کرنے کی ضمن میں پاکستان کی اعانت کرنی چاہئے۔

تازہ ترین