• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسرائیل مشرق وسطیٰ میں ایک بدمست ہاتھی کا کردار ادا کرتا چلا آیا ہے۔ مشرق وسطیٰ میں جو معدودے چند لوگ تھے مثلاً قذافی اور صدام حسین جیسے لوگوں کو امریکہ نے ٹھکانے لگا دیا۔ اب کسی عرب ملک میں جان نہیں کہ وہ زیادتی کے خلاف اف بھی کر سکے۔ کوئی قوت موجود نہیں جو اس بدمست ہاتھی کے ناک میں سوراخ کر کے اس میں لوہے کی زنجیر ڈال سکے۔ چنانچہ جب اور جہاں اس کا جی چاہتا ہے وہاں تباہی مچا دیتا ہے ۔ گزشتہ دنوں اس نے کسی قسم کی ایرانی چھیڑ خانی کے بغیر دمشق میں ایرانی سفارت خانے پر راکٹ سے حملہ کر دیا۔ اس حملے کا بدمستی کے علاوہ کوئی جواز نہیں تھا۔ ایران نے پچاس ڈرون بم اسرائیل پر چلا دیئے۔ ایران نے یہ بمباری صحیح صحیح ٹھکانوں پر کی۔ اسرائیل کی زمین پر بموں کے داغ نہیں تھے اب کے ایران نے پچاس ڈرون داغ بنا دیئے۔ دنیا میں زلزلہ آگیا کہ گنگا الٹی بہنا شروع ہوگئی۔ ایران نے بالواسطہ طور پر امریکہ پر یہ بم چلائے ہیں۔ ایران نے کچھ سوچے سمجھے بغیر اسرائیل کو بمباری کا نشانہ نہیں بنا یا ۔ ایران نے چن چن کر بعض اہم جگہوں پر بمباری کی لیکن اب اگر اسرائیل یہ کہتا ہے کہ اس کا کافی نقصان ہوا ہے تو یہ بات اس کے خلاف جاتی چنانچہ اس نے کہا ہمارا معمولی نقصان ہوا ہے۔

اسرائیل نے اکتوبر سے لے کر اب تک 33483افراد شہید کر دیئے ۔ جن میں زخمی افراد کی تعداد 77000 سے کچھ زائد ہے ۔ بیوہ خواتین کئی ہزار ہیں۔ یتیم بچوں کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے ،جو ظلم اسرائیل نے کیا وہ ظلم جرمنوں نے بھی یہودیوں پر نہیں کیا تھا۔ فلسطین کے عربوں نے یہودیوں کے ساتھ کوئی اسرائیل جیسی زیادتی نہیں کی۔ اس بات کا جواز سمجھ ہی نہیں آتا کہ اسرائیل عربوں پر بدترین تشدد بھی کرتا ہے اور پھر دہشت گردی کا الزام بھی ان مسکینوں پر لگا دیتا ہے۔ یہودیوں کی تاریخ کی یہ پہلی ایسی جنگ ہے جس میں یہودی عوام سڑکوں پر نکلے اور انہوں نے اپنی حکومت کے خلاف کھل کر نعرے لگائے اور اپنا احتجاج سرعام رجسٹر کرایا۔ یعنی بے بسوں پر اتنا ظلم کیا گیاکہ خود یہودی عوام بھی اسرائیل کی پالیسی کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ فلسطینیوں نے اسرائیلی قتال کے خلاف جنگ کے دوران جی بھر کر مالی اور جانی نقصان اٹھایا، ہم نے اپنے کانوں میں روئی ٹھونسے رکھی۔ باقی دنیا کو چھوڑیئے ایک طرف ہماری مسلم قیادتیں ایک ہی بیان دیتی ہیں خدا کے نام پر جنگ بند کیجئے۔ اب کوئی پوچھے اسرائیل کے پاس سب کچھ ہے ہر نوع کا جدید اسلحہ اس نے تھام رکھا ہے اور فلسطین کے پاس کیا تھا اور کیا ہے؟ یہ جنگ یک جانبہ قتل و غارت ہے جو فلسطین نے جس بے کسی اور بے بسی کے عالم میں جنگ لڑی اس کا جواب نہیں۔ یہ عام بہادری سے کچھ اوپر کا درجہ ہے کسی امداد اور اسرائیل کے جوابی اسلحے کے بغیر فلسطینیوں نے اپنے سینے پر گولیاں کھا کر جنگ لڑی ہے اور اب تک لڑ رہے ہیں۔ چاروں طرف سے کوئی امداد نہیں کسی جانب سے کوئی حمایت حاصل نہیں۔ ایرانی حملے کے بعد اسرائیل یہی کہے جارہا ہے۔ ایران کا حملہ ناکام ہوگیا۔ پہلی بار اسرائیل کا غرور ٹوٹ کر زمین بوس ہوگیا ہے۔ اب وہ تو یہی کہے گا کہ ہمارا کچھ نقصان نہیں ہوا۔

عرب اسرائیل جنگوں میں برطانیہ کا کردار بڑا ناجائز رہا ہے۔ آج لوگ برطانیہ میں سستی روٹی کو ترستے پھرتے ہیں اور ہمارا ہندی جوان جو سوئے اتفاق سے برطانیہ کے وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہے وہ مائیک پر اچھل اچھل کر بیان دے رہا ہے کہ ہم اسرائیل پر حملے کو برداشت نہیں کریں گے جو بات امریکہ خود کہنے سے اجتناب کرتا ہے وہ برطانیہ کے منہ سے کہلواتا ہے یہ پراکسی مقرر ہے اسے اچھلنے کودنے سے گریز کرنا چاہئے ۔

سوال پیدا ہوتا ہے اسرائیل جنگ سے کونسے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے؟ تیل تو فلسطین کے پاس ہے نہیں، نہ ہی دنیا کی کوئی اور دھات مثلاً سونا، تانبا اوردیگر دھاتیں جس کے لئے وہ یہ خونیں جنگ لڑ رہا ہے؟ وہ کونسی ایسی دھات ہے جس کا اسرائیل کو علم ہے لیکن دنیا کو علم نہیں ہے وہ راز کیا ہے جس پر یہ جنگ لڑی جا رہی ہے۔ دوسری جانب فلسطین ہے وہ بھی خاموشی سے ان گنت قربانیاں دے رہا ہے۔

قارئین کرام! اسرائیل کا جنگ کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ سرزمین فلسطین کو اسرائیل میں ضم کرنا چاہتا ہے۔ اسرائیل اس لئے یہ غیر انسانی جنگ لڑ رہا ہے کہ اس کا قومی اور مذہبی مقصد اس خطے میں ایک یہودی ریاست بنانا ہے۔ ادھر یہی حالت فلسطینیوں کی ہے وہ اسرائیل کے مقصد سے بخوبی آگاہ ہیں لہٰذا وہ اپنی سرزمین چھوڑنے پر موت کو ترجیح دیتے ہیں۔ جب تک ایک بھی فلسطینی زندہ ہے وہ فلسطینی مٹی پر یہودی ریاست کو نہیں بننے دے گا یہ جنگ سرزمین پر ہے اس لئے اس میں زیادہ شدت ہے۔ فلسطینیوں کا فیصلہ یہ ہے کہ ہجرت سے موت زیادہ بہتر ہے۔ لہٰذا وہ کسی صورت اسرائیل کی ریاست میں ضم نہیں ہوں گے۔ یہ انضمام کی جنگ ہے۔ اسرائیل اپنا زور اس لئے لگا رہا ہے۔ تمام جمہوریت پسندوں اور مسلم ممالک کو اس موقع پر اکٹھا ہونا پڑے گا تاکہ اسرائیل کسی صورت میں جبری طور پر فلسطین کو اسرائیل میں شامل نہ کر سکے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین