جس طرح عالمی سطح پر ہمیشہ پاکستان کو یہ کہاجاتا ہے کہ وہ اپنے ہمسایوں بالخصوص بھارت سے اپنے تعلقات بہتر کرے اسی طرح اندرونِ ملک بھی اس نوع کی خواہشات کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔ حال ہی میں تاجر برادری نے کراچی میں وزیراعظم سے ملاقات میں عرض کی کہ آپ ایک ہاتھ بھارت سے ملائیں اور دوسرا اڈیالہ جیل کے مکین سے، ان کا مدعا واضح تھا کہ اس وقت تضادستان جس معاشی بدحالی کا شکار ہے ایسے میں یہ نہ تو کسی بیرونی دشمنی کا متحمل ہوسکتا ہے اور نہ کسی اندرونی خلفشار کا۔ ہر دو صورتوں میں اس کی معیشت آئی سی یو میں پہنچ جائے گی۔ حال ہی میں ہمارے وزیرخزانہ آئی ایم ایف کی معاونت حاصل کرنے کیلئے امریکہ یاترا سے اس یقین دہانی کے ساتھ لوٹے ہیں کہ الحمدللہ وہ اگلی قسط کیلئے مان گئے ہیں۔ سعودی وزیر خارجہ کی قیادت میں کنگڈم کا اعلیٰ سطحی ذمہ داران اور سرمایہ کاران پر مشتمل وفد اسلام آباد سے ہوکرگیا ہے اس توقع کے ساتھ کہ کراؤن پرنس کی آمد سے قبل پاکستان کو بدترین صورتحال سے نکالنےکیلئے کیا کیا ٹھوس اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔ کسی بھی بڑی بیرونی شخصیت کا یہاں آنا محض وعظ و نصیحت اور فارسی بھرے الفاظ کے ساتھ تقاریر کرجانا آج کی عملیت پسند دنیا میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا،یہ وہ چیز تھی کہ جو کراؤن پرنس محمد بن سلمان نے پاکستانی قیادت کو اس کے سہ روزہ انڈین دورے کے بعد پاکستان آمد کے مطالبے پر سمجھائی تھی کہ ایسے دورے کی ٹھوس افادیت یا آؤٹ پٹ کا پوری پلاننگ کے ساتھ اہتمام ہونا چاہیے۔ اب ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے پاکستان کا سہ روزہ دورہ کیا ہے جسے بڑا کامیاب بتایاجارہا ہے جیسے کہ 8 مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوئے ہیں اور ایرانی صدر نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ باہمی تجارت کو دس ارب ڈالر تک لے جانا چاہتے ہیں فوری سوال ذہن میں آتا ہے کہ کس فیلڈ میں؟ سرمایہ کاری کیلئے ہر دو اطراف پلاننگ کیا ہے؟ گیس پائپ لائن کا منصوبہ 2013ء سے ادھورا پڑا ہے جس کی تکمیل کے حوالے سے طرح طرح کے وسوسے اور خدشات پائے جاتے ہیں۔ ایسا بڑا دعویٰ کرنے سے پہلے ذرا اپنے موجودہ تجارتی حجم پر ہی ایک نظر ڈال لی جائے۔ آج کی معاشی دنیا میں کسی بھی ملک کیلئے آئیڈیل اس کی برآمدات ہوتی ہیں نہ کہ درآمدات،پاکستان کی ایران کے ساتھ گزشتہ تین برسوں کی برآمدات ملاحظہ فرمائیں تو حیران کن حد تک مایوسی ملے گی زیرو جمع زیرو مساوی زیرو، ایسی دگرگوں صورتحال پر ماتم ہی کیاجاسکتا ہے۔ بھارت تو خیر اس وقت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے اور تیسری بڑی معیشت بننے جارہا ہے ہمارا تقابل اگر اپنے ہی سابق حصے بنگلہ دیش سے کیاجائے تو انہوں نے اپنے لوگوں کو جس طرح محنت، ہنر، ٹیکنالوجی اور انڈسٹری میں ترقی پر لگایا ہے مرد تو رہے ایک طرف ان کی عورتیں بھی چھوٹی چھوٹی صنعتوں میں جس انہماک اور لگن سے محنت کررہی ہوتی ہیں ہماری اتنی ہی خواتین بینظیر فنڈ سے بھیک لینےکیلئے لائنوں میں لگی دکھائی دیتی ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ حرمین شریفین میں چار ہزار سات سو بھکاری پکڑے گئے تو ان میں سے پورے چار ہزار پاکستانی تھے۔ (جاری ہے)
آواز دے کہاں ہے؟
ہمارے مہربان دوست سید حیدر تقی چند روز قبل راہئ ملکِ عدم ہوئے، حیدر شاہ جی کتنے پیارے انسان تھے، ایڈیٹوریل پیج کی وجہ سے ان کے ساتھ اکثر بات ہوتی رہتی تھی جب بھی کراچی جاتا ان کے ساتھ نشست ضرور ہوتی ان سے کہتا کہ آپ تو اتنے علمی و ادبی گھرانے کے چشم و چراغ ہیں ذرا اپنے بزرگوں کی کہانیاں سنائیں ؟ان کی زبانی ان کے والد مرحوم ان کے تایا رئیس امروہوی اور چچا جون ایلیا کی باتیں اور یادیں۔ ایک مرتبہ کہا کہ مینا کماری جی بھی آپ کے خاندان کا حصہ رہی ہیں کچھ کمال امروہوی صاحب کے حوالے سے بیان فرمائیں وہ اپنی شستہ و شفاف اُردو میں لکھنوی آداب کے ساتھ یوں گویا ہوتے کہ جیسے ہم اترپردیش پہنچ گئے ہیں۔ ایک مرتبہ پوچھا کراچی میں کسی خاتون نے بتایا ہے کہ وہ محترمہ مینا کماری کی بیٹی ہیں بولے میں اس کے متعلق آگاہ نہیں ہوں معلوم کروں گا تو آپ کو بتاؤں گا۔ درویش کے پنجابی اسلوب پر بھی ان کا دھیما لب و لہجہ خراب نہ ہوتا شکایات پر بھی کہتے کہ افضال ریحان آپ یقین رکھیے یہاں آفس میں یا ایڈیٹوریل والوں میںسے کوئی بھی آپ کا مخالف نہیں ہے۔ بس آپ ذرا ٹھنڈا لب و لہجہ رکھا کیجئے بلکہ میں تو آپ سے یہ گزارش کرتا ہوں کہ جب بھی لکھیے خواہ کیسا ہی گرم ایشو کیوں نہ ہو ہمیشہ برف کی سل پر لیٹ کر ٹھنڈے ٹھار ہوکر قلم اٹھائیے میں آپ کی نگارشات کا بڑا مداح ہوں بس آپ مزید نرمی لائیے باتیں آپ کی سچ ہیں مگر کیا کیجئے ہماری مجبوریاں ہیں آپ انہیں پیشِ نظر رکھیے۔ صحت کا پوچھتا تو یوں بیان کرتے کہ جیسے فکر کی کوئی بات ہی نہ ہو پہلے سے کافی بہتر ہوں بس کچھ کمزوری ہے وہ بھی جلد دور ہوجائے گی۔ لاہور آنے کو کہتا تو یوں گویا ہوتے:’’آپ کہیے کہ کراچی کب تشریف لارہے ہیں؟ میں آپ کا منتظر ہوں‘‘ حیدر شاہ جی کے چچا جون ایلیا نے کیا خوب کہا تھا
بادِ صبا بتا دے حیدر میاں کہاں ہیں
وہ جانِ جاں کہاں ہیں، جانِ جہاں کہاں ہیں