(گزشتہ سے پیوستہ)
ایک ایسی بے مثال خدمت کا ذکر میں اپنے ایک کالم میں کرچکا ہوں جس کے مطابق ہندوستان اور پاکستان کی جنگ کے نتیجے میں جب بنگلا دیش الگ ہوا اور ایک طرف 90ہزار پاکستانی ہندوستان میں جنگی قیدی ہوگئے تود وسری طرف پاکستان کا ایک وسیع علاقہ ہندوستان کے قبضے میں آگیا‘ اس وقت پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے، انہوں نے اس صورتحال میں بھی ہمت نہیں ہاری اور ہندوستان کی اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو بات چیت کا پیغام بھیجا‘ اس کے نتیجے میں وزیر اعظم بھٹو اپنی ٹیم کے ساتھ ہندوستان گئے جہاں اندرا گاندھی کے ساتھ ان کے مذاکرات ہوئے‘ اسکے نتیجے میں ہندوستان کی حکومت نے بغیر کسی شرط کے نہ فقط پاکستان کے 90 ہزار جنگی قیدیوں کو رہا کردیا بلکہ پاکستان کا وہ وسیع علاقہ جو ہندوستان کے قبضے میں آگیا تھا وہ علاقہ بھی بغیر کسی شرط کےپاکستان کو واپس کردیا ‘ یہ ذوالفقار علی بھٹو کا ایک تاریخی کارنامہ تھا‘ ان مذاکرات کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ اندرا گاندھی بھٹو سے بہت متاثر ہوئیں‘ اس کا علم ہمیں اس وقت ہوا جب ہندوستان کے چند سینئر صحافی پاکستان کے دورے پر آئے‘ وہ پہلے کراچی پریس کلب آئے‘ اس وقت کراچی پریس کلب کے صدر ممتاز صحافی عبدالحمید چھاپراتھے‘ انہوں نے ہندوستانی صحافیوں کوپریس کلب میں ڈنر پر مدعو کیا‘ ڈنر میں کلب کی گورننگ باڈی کے ممبران اور ساتھ ہی کچھ سینئر صحافیوں کو بھی مدعو کیا گیا‘ میں اس وقت گورننگ باڈی کا ممبر تھا لہٰذا میں بھی اس ڈنر میں موجود تھا‘ ان سینئر صحافیوں سے ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے تبادلہ خیال ہورہا تھا‘ اس دوران ذوالفقار علی بھٹو کا بھی ذکر ہوا تو ہندوستان کے سینئر صحافی نے کہا کہ وہ بھٹو کے حوالے سے ایک اہم انکشاف کرنا چاہتا ہے۔ صحافی نے کہا کہ اس کے کچھ مسلم ملکوں کے سربراہوں سے کافی قریبی تعلقات ہیں‘ یہ تعلقات اس حد تک قریبی ہیں کہ بقول اسکے وہ ان میں سے اکثر رہنمائوں کا مہمان ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں اس نے بتایا کہ ایک بار وہ لیبیا کے سربراہ کرنل قذافی کی دعوت پر لیبیا گیا‘ ہوائی اڈے سے اسے حکومت کے لوگوں نے گاڑی میں بٹھایا اور وہاں لے گئے جہاں کرنل قذافی رہائش پذیر تھے‘ اس نے بتایا کہ ایک کمرے میں وہ کرنل قذافی سے گپ شپ کررہے تھے تو کسی طرح پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کا ذکرچل نکلا تو اچانک قذافی نے مداخلت کی اور کہا کہ رکو میں آرہا ہوں‘ یہ کہہ کر وہ سامنے کمرے میں چلے گئے اور وہاں الماری سے ایک فائل لیکر آئے اور انہوں نے یہ فائل مجھے دی اور کہنے لگے کہ یہ ہندوستان کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کا مسلم ملکوں کے سربراہوں کو ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں لکھا گیا خط تھا‘ اس وقت بھٹو جیل میں تھے اور ان کو عدالت کی طرف سے پھانسی کی سزا دینے کا فیصلہ کیا گیاتھا‘ اس صحافی نے بتایا کہ اس نے یہ خط پڑھا جس میں اندرا گاندھی نے مسلم ملکوں کے سربراہوں کو لکھے گئے اس خط میں اس بات پر سخت تشویش کا اظہار کیا تھا کہ بھٹو کی زندگی خطرے میں ہے اسے کسی وقت بھی پاکستان کی مارشل لا حکومت کی طرف سے پھانسی دی جاسکتی ہے۔ اندرا گاندھی نے اس خط میں بھٹو کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ فقط پاکستان ومسلم دنیا کے قائد نہیں وہ تیسری دنیا کے ایک اہم اور قابل احترام قائد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھٹو کی پھانسی کے خلاف بیان نہیں دے سکتیں‘ اگر انہوں نے ایسا کیا تو موجودہ مارشل لا حکومت شاید دوسرے دن ہی بھٹو کو پھانسی دیدے لہٰذا انہوں نے مسلم ملکوں کے سربراہوں سے گزارش کی کہ وہ آگے آئیں اور بھٹو کو پھانسی سے بچاکر آزاد کرانے کے لئے پاکستان کی مارشل لا حکومت پر دبائو ڈالیں۔ بھٹو کا ایک انتہائی اہم کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنادیا۔ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے سلسلے میں بھٹو کی کچھ مسلم ملکوں کے سربراہوں نے بھی مدد کی ان میں خاص طور پر سعودی عرب کے شاہ فیصل اور لیبیا کے سربراہ کرنل قذافی شامل تھے۔ ایک بار میرا فرانس کے شہر پیرس جانا ہوا وہاں ان کے مہمان پاکستان کے صوبے پنجاب سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکن تھے۔ انہوں نے جنرل ضیاء کے مارشل لا کے خلاف پی پی کی طرف سے کئے گئے ایجی ٹیشن میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا یہ دونوں کافی وقت حکومت کے احکامات کے تحت جیلوں میں بھی رہے۔ یہ دونوں ایک خاص عرصے کے لئے شاہی قلعہ میں رکھے گئے جہاں ان پر تشدد کیا جاتا تھا مگر جب بے نظیر بھٹو پاکستان کی وزیر اعظم بنیں تو ان کے احکامات کے تحت شاہی قلعے اور جیلوں میں قید ان جیسے پی پی کے ورکرز کو رہا کرنے میں کامیابی ہوگئی مگر انہوں نے کہا کہ انہیں ڈر تھا کہ کسی بھی وقت حکومت تبدیل ہوسکتی ہے‘ اس کے بعد انہیں یقین تھا کہ انہیں پھر گرفتار کرکے تشدد کا نشانہ بنایا جائے گا‘ وہ دونوں مجھے ایک دن پیرس کے ایک بڑے ہوٹل میں لے گئے وہاں انہوں نے دوسرے فلور پر ایک کمرے کی طرف اشارہ کیا اور بتایا کہ بھٹو اور کرنل قذافی کی ایک خفیہ میٹنگ ہوٹل کے اس کمرے میں ہوئی اس کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ بعد میں ان کو پتہ چلا کہ اس میٹنگ میں بھٹو اور قذافی کے درمیان پاکستان میں ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں مالی معاونت کے بارے میں بات چیت ہوئی تھی،جس کے نتیجے میں کرنل قذافی نے پاکستان کی ایٹمی پروگرام کیلئے بھاری بھرکم مالی مدد کی‘ دراصل ایٹمی پروگرام پر کافی خرچ آرہا تھا جبکہ پاکستان کا بجٹ اتنی بڑی رقم اکیلے فراہم نہیں کرسکتا تھا۔ ( جاری ہے)