• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سوشل میڈیا کے استعمال سے متعلق قانون سازی پر کام شروع، صارفین کے رویئے پر مزید پالیسی گائیڈ لائنز متعارف ہونگی، حکومت

لاہور ( نمائندگان جنگ) وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ سوشل میڈیا کے استعمال سے متعلق قانون سازی پر کام شروع ہے ، صارفین کے رویے پر مزید پالیسی گائیڈ لائنز متعارف ہونگی ۔انصاف اس طرح ہونا چاہیے جیسا قانون کہتا ہے،ہمیں گزشتہ چالیس سال سے دہشت گردی کا سامنا ہے، اظہار رائے کا حامی ہوں اور یہ میرے دل کے بہت قریب ہے، ڈیجیٹل رائٹس اور قابل اعتراض مواد کے معاملے پر بہتری جلد آئے گی، چیف جسٹس پاکستان نے اپنا اختیار کم کر کے پارلیمنٹ کی بالادستی کو تسلیم کیا۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے مقامی ہوٹل میں میں 2روزہ 5ویں عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔کانفرنس میں وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ،پیپلزپارٹی کی سینئر رہنما نفیسہ شاہ ،سابق صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون ، لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی ،صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت، یو کے کی ہائی کمشنر جین میریٹ ،سپین کے سفیر جوزے انٹونیو ،ہالینڈ کی سفیر مس ہینی،یورپی یونین کی سفیر کیونکا ،ن لیگ کے سینئر رہنما خرم دستگیر،بلوچستان نیشنل پارٹی ( مینگل ) کے رہنما ءسابق سینٹر ثناء اللہ بلوچ ،سینٹر ظفر علی شاہ،سابق صدر سپریم کورٹ بار عابد زبیری ،سینیٹر حامد خان ، وائس چیئرمین پنجاب بار کونسل کامران بشیر مغل،سابق نائب صدر لاہور ہائیکورٹ بار رابعہ باجوہ اور دیگر نے بھی خطاب کیا ۔و زیر قانون اعظم نذیر تار ڑ نے کہا کہ کانفرنس کے انعقاد پر منتظمین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں،عاصمہ جہانگیر کہتی تھیں آپ بے آزادوں کی آواز بنیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت انسانی حقوق کی پاسداری کرے گی ،آئینی طور پر یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کو کئی سالوں سے دہشتگردی کا سامنا تھا ،مجھے انسانی حقوق کی وزارت کا ایڈیشنل چارج لینے کا کہا گیا،آزادی اظہار رائے میرے دل کے قریب اور حکومت کی ترجیح ہے، سوشل میڈیا کے نامناسب استعمال بارے ہم کام کر رہے ہیں اور پالیسی بنا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ دبا نہیں رہنا چاہیے، لاپتہ افراد کے معاملے پر وزیراعظم کی قائم کردہ کمیٹی کا رکن ہوں،سیاسی قوتوں سے بھی اس مسئلے پر بات کی ہے، تمام مسائل کو مذاکرات کے ساتھ حل کیا جانا چاہیے۔سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج مسٹر جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ ماضی میں عدلیہ سے کچھ سیاہ فیصلے ہوئے جس کا دفاع نہیں کروں گا،ایک چیف جسٹس ہمیں ایک طرف دوسرا دوسری طرف لے جاتا ہےہم سسٹم کے تابع ہوئے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتےعدلیہ کو افراد کے بجائے سسٹم کے تابع ہونا پڑے گا، عدلیہ مکمل آزاد ہونی چاہیے، ترقی کے لئے فرد سے نکل کر سسٹم میں آنا ہوگا، دنیا میں ہماری عدلیہ کے بارے میں ڈیٹا قابل تشویش ہے،ہمیں کرپشن اور کام نہ کرنے والے ججز سے متعلق کسی صورت بھی کمپرومائز نہیں کرنا چاہیے ،کرپٹ جج نہیں رہنا چاہیے،وکلاء ہڑتالوں سےگریز،کلائنٹس کا احساس کریں۔ایسا سسٹم لانا ہو گا جج کا بیٹا اور اس کا بیٹا جج نہ بن سکے۔معیشت کی بہتری کیلئے ہمیں کمرشل کورٹس لانا ہونگی۔پاکستان میں 2.4ملین کیسز زیر التواء ہیں، جنوری 2023 سے دسمبر 2023 تک 1.39ملین کیسوں کے فیصلے دیئے ،زیر التوا کیسز کو کم کرنے کے لئے جدید اصلاحات کی ضرورت ہے، ہمیں سمارٹ ٹیکنالوجی کو ڈسٹرکٹ کی سطح تک لے کر جانا ہو گا ۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر کی انسانی حقوق کے لیے بڑی خدمات ہیں، عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں شرکت کرنا میرے لیے اعزاز کی بات ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارے پاکستان میں 2.4ملین کیسسز زیرء التوا ہیں ،اس وقت دنیا میں ہماری جوڈیشری کا 132 واں نمبر ہے۔انہوں نے کہا کہ زیر التوا کیس کے لیے ٹیکنالوجی کا سہارا ضروری ہے، اپنے سسٹم میں آئی ٹی نہیں لائیں گے تو 24 لاکھ کیس نمٹانا مشکل ہوگا۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پاکستان میں 4ہزار ججز ہیں اور 3ہزار کام کر رہے ہیں، پاکستان کی آبادی 231ملین ہے، اس تناسب سے فی ملین 13جج ہیں، دنیا میں اوسطاً فی ملین آبادی پر 90جج ہیں، عالمی معیار فی ملین آبادی پر 90جج کو اپنایا جائے تو پاکستان کو21ہزار جج درکار ہیں۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے تحت 80فیصد کیس ملتوی کرا دیئے جاتے ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ پاکستان کی آبادی کا 50فیصد خواتین ہیں لیکن ہم خواتین جج نہیں لا رہے، 562جج خواتین ہیں۔پیپلز پارٹی کی سینئر رہنما نفیسہ شاہ نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ یہاں یہ کہا گیا کہ 2024 کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی ،میں کہتی ہوں 2018 میں جتنی دھاندلی ہوئی 2024 میں اتنی نہیں ہوئی ،یہ افسوس کی بات ہے یہاں پر کسی جمہوری وزیراعظم نے پانچ سال مکمل نہیں کیے مگر 18ویں ترمیم کے بعد ملک میں جمہوریت رہی ،چودہ سال ہونے کو ہیں کبھی آمریت نہیں آئی،ہائبرڈ رولز کا آغاز 2014کے دھرنے سے ہوا ۔یو کے کی ہائی کمشنر جین میریٹ نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھائے گئے، سوشل میڈیا پر پابندیوں، انٹرنیٹ میں تعطل سے آزادی اظہار رائے میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے،نئی حکومت کو آمدنی میں اضافے اور ترقی سمیت متعدد چیلنجز کا سامنا ہے، حکومت شہریوں کیلئے مساوات کیساتھ پالیساں بنائے۔کرپشن اور ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کیلئے کام کرنا ہوگا،معیشت میں بہتری آئیگی تو ہی غربت میں کمی ہوگی،ٹارگٹ کلنگ اور اقلیتوں کیخلاف زیادتیوں کی حمایت نہیں کرسکتے ہیں،جمہوریت برداشت سے منسلک ہے، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ماورائے قانون اقدامات پر تشویش ہے،پاکستان میں آزادی اظہار رائے اورصحافیوں کے تحفظ کے قانون پر عمل کروانا ضروری ہے، عاصمہ جہانگیر نے ساری زندگی بلا امتیاز جنس انسانی حقوق کیلئے کام کیا جو قابل تحسین ہے۔یورپی یونین کی سفیر کیونکانے کہا عاصمہ جہانگیر انسانی حقوق کیلئے لڑنے والا پاور ہائوس تھیں،انھوں نے عمل سے بہت سی زندگیوں پر اثر ڈالا، جی ایس پی پلس سٹیٹس کی مدد سے پاکستان کی یورپ کیلئے برآمدات میں 108فیصد اضافہ ہوا ہے،پاکستان کو یورپی یونین کی قرار دادوں پر عمل جاری رکھنا ہوگا،ہالینڈ کی سفیر مس ہینی نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر کی بے خوف قیادت نے انسانی حقوق کیلئے کام کرنے کی نئی تاریخ رقم کی،جمہوریت ایک مسلسل عمل ہے لیکن اس کیلئے آزاد میڈیا اشد ضروری ہے،سپین کے سفیر جوزے انٹونیونے کہا کہ یوکرین کے لوگ بحران میں مبتلا ہیں وہاں جنگ بندی ضروری ہے،ناروے کی سفیر ڈاکٹر نور خان نے کہا عاصمہ جہانگیر نے لوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی پیدا کی،غزہ میں عوام کی صورتحال پر ہمارا دل دکھتا ہے وہاں انسانی حقوق کی زدیدی خلاف ورزیاں ہورہی ہیں۔

اہم خبریں سے مزید