• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

یہ اُن دنوں کا واقعہ ہے، جب میں جی پی او، خوشاب میں ملازم تھا۔ ڈاک خانے میں ایک بزرگ شخص ہرماہ اپنے بیٹے کے ساتھ پینشن کی رقم لینے آتے تھے۔ وہ جب کمرے میں داخل ہوتے، تو اُن کے لگائے ہوئے پرفیوم سے پورا کمرا مہک اُٹھتا، جب کہ اُن کے صاف ستھرے لباس سے یوں محسوس ہوتا کہ اُن کا بیٹا خاص طور پر اُن کی حجامت کرواکر، نہلا دھلا کرانھیں ڈاک خانے لاتا ہے۔ رقم کی ادائی کے دوران وہ متانت سے کھڑے رہتے، لیکن اُن کے پروقارچہرے پرچھائی اُداسی بہت کچھ کہتی تھی، جسے میں سمجھنے سے قاصر تھا۔ یہی وجہ تھی کہ مجھے اُن سے ہم دردی ہوگئی۔ 

ایک روز وہ آئے تو مَیں نے انھیں اپنے پاس بلا کر پوچھا، ’’بزرگوار! پینشن تو10سال کی نوکری پربنتی ہے، جب کہ آپ کی پینشن بک پر3سال سروس درج ہے، تو پینشن کیسے بن گئی؟‘‘ کہنے لگے،’’مَیں 7سال جاپان کی قید میں رہا، وہ سات سال بھی سروس میں شمار ہوئے۔‘‘ خیر، کچھ عرصے بعد میرا اُن کے گائوں سے گزر ہوا، تو مکانات اورکھیتوں کے درمیان ایک گندی نالی کے اوپر خستہ حال چارپائی پر میلے کچیلے کپڑے پہنے ایک بزرگ لیٹے نظر آئے، جن کی داڑھی بھی خاصی بڑھی ہوئی تھی۔ قریب جاکر دیکھا تو حیران رہ گیا کہ یہ تو وہی پینشنر ہیں، جو ہر ماہ صاف ستھرے لباس میں پینشن لینے آتے ہیں۔ مَیں نے سلام کیا، تو انہوں نے مجھے پہچان لیا۔ 

اُن کی حالت دیکھ کر مجھے بہت افسوس ہوا، ذہن میں مختلف سوالات گردش کرنے لگے، ابھی میں اُن سے کچھ پوچھنے ہی والا تھا کہ میرے چہرے کے تاثرات سے اندازہ لگا کر کہنے لگے، ’’بیٹا! جب میری پینشن آتی ہے، تو میرے بچّے پینشن کے حصول کے لیے مجھے صاف ستھرا لباس پہناکر، موٹرسائیکل پر بٹھاکر ڈاک خانہ، خوشاب لے جاتے ہیں اور پینشن ملنے کے بعد گھرآکر ساری رقم ہتھیا لیتے ہیں، پھرپورا مہینہ میرا خیال رکھتے ہیں، نہ کوئی خدمت کرتے ہیں۔ 

میلے کچیلے کپڑوں میں یہاں بے یارو مددگار چھوڑ جاتے ہیں، مَیں شکایت کرتا ہوں تو جھڑک دیتے ہیں، محلّے والوں نے بھی کافی سمجھایا کہ باپ کی پینشن کھاجاتے ہواور اُن کا خیال نہیں رکھتے، مگروہ کسی کی نہیں سنتے، لہٰذا اب میں نے بھی سوچ لیا ہے کہ اپنی اولاد کو ایسی سزا دوں گا کہ عمر بھر یاد رکھیں گے۔‘‘

مجھے اُن کی حالتِ زار پر بہت افسوس ہوا، لیکن مَیں کیا کرسکتا تھا، ہم دردی کے رسمی جملے بول کراور تسلّی دے کر بوجھل دل سے چلا آیا۔ پھرایک دن اچانک مجھے اُن کی وفات کی اطلاع ملی۔ مَیں تعزیت کے لیے گائوں گیا، مگروہ تو زندہ سلامت، صاف ستھرا لباس پہنے چارپائی پربیٹھے تھے۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ یہ کیا معاملہ ہے، مَیں نے استعجاب کے عالم میں حیرانی سے ان سے پوچھا، تو علیحدہ لے جاکر کہنے لگے، ’’مَیں نے اپنے بچّوں کے نارواسلوک کی وجہ سے تنگ آکر آس پاس کے گائوں اور مساجد میں اپنے انتقال کا اعلان کروادیا تھا۔ 

ہمارے یہاں یہی رواج ہے، کسی کا انتقال ہوجائے، تو تین دن تک تمام مہمان تعزیت کے لیے آتے ہیں، اس دوران اُن کے کھانے پینے اور رات بسر کرنے کے لیے بستر وغیرہ کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ جب مَیں نے اپنی وفات کی جھوٹی خبر دی، تو اطلاع ملتے ہی پوری برادری جمع ہوگئی، جنھیں کھانا کھلانے کے لیے میرے بیٹوں نے کئی بکرے ذبح کیے۔ 

مجھے زندہ سلامت دیکھ کر برادری کے لوگوں نے مجھ سے اصل مسئلہ پوچھا، تو مَیں نے بتادیا کہ بیٹے میری خدمت نہیں کرتے، انھیں سزا دینے کے لیے میں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے۔‘‘ بہرحال، پوری برادری میں بیٹوں کی بے عزتی ہوئی اور انھوں نے پوری برادری کے سامنے آئندہ اپنے والد کی خدمت کرنے اور اُن کی پینشن اُن پر خرچ کرنے کا وعدہ کیا۔

اس واقعے کے بعد بھی اکثر اُس گاؤں جانا ہوا، تو بابا جی کو درخت کے نیچے عمدہ چارپائی پر صاف ستھرے لباس میں بیٹھے دیکھ کر خوشی ہوئی اور حیرت بھی کہ کس طرح باباجی کی ترکیب سے اُن کی دیکھ بھال کے مسئلے حل نکل آیا۔ (ظہیر انجم تبسّم،خوشاب)