• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہلا خضر

بُھوک کی شدّت سے نڈھال راجا بے چینی سے پہلو بدل رہا تھا۔ سحری میں کھائی سُوکھی رُوٹی اور اچار کے دو قتلے آخر کب تک سہارا دیتے۔ حلق خُشک اور ہونٹوں پر پپڑیاں جمی تھیں۔ زندگی کا پہلا روزہ، گرمیوں کی تپتی دوپہر، پُلِ صراط جیسا طویل دن…جائے نماز پر تسبیح پڑھتی نسرین نے بیٹے کی طرف ممتا بَھری نگاہ سے دیکھا۔ سات سالہ منحنی سا راجا ہی اُس کی کُل کائنات تھا۔

شوہر، رفیق سات سمندر پار روٹی روزی کی تلاش میں نکلا تھا کہ ایئر پورٹ ہی پر گرفتار ہو گیا۔ بعد میں پتا چلا کہ ایجنٹ دھوکے بازی سے جعلی ویزا بنا کے پیسے بٹور کر رفو چکر ہو چُکا ہے۔ بَھرے پُرے شہر میں اللہ کے سوا اُن کا کوئی سہارا نہ تھا۔ چھوٹے سے کوارٹر میں فرنیچر کے نام پر صرف ایک ٹوٹی پُھوٹی مسہری رکھی تھی، جسےرفیق نے شادی کے موقعے پر کباڑیئے سے سَستے داموں خریدا تھا۔ وہ ایک مکینک تھا اور اپنی معمولی سی تن خواہ سے اُس کے استقبال کے لیے صرف اتنا ہی کر پایا تھا۔ اس کے علاوہ چند برتن اور دو صندوق اس کی کُل گر ہستی تھے۔

پڑوسن، صغریٰ خالا کا بھلا ہو کہ جنہوں نے نسرین کو اپنی جان پہچان کے ایک دو بنگلوں میں ماسی کا کام دلوا دیا اور یوں زندگی کی گاڑی رواں دواں ہوئی۔ کوارٹر کا کرایہ، بجلی کا بِل اور راجا کے مدرسے کی فیس ادا کرنے کے بعد بہ مشکل مہینہ کٹتا اور اب تو ویسے بھی مہینے کا آخری ہفتہ تھا۔ جیسے تیسے کر کے اچار روٹی سے پچھلے چار روزے گُزارے تھے۔ جمعتہ الوداع پر راجا نے ضد کر کے روزہ رکھا۔ مامتا کی ماری نسرین کا دل نہ جانے اپنے لال کے پہلے روزے پر کیا کچھ نچھاور کرنے کو چاہ رہا تھا۔ پر وہ بے بس تھی۔ ایسے میں صغریٰ خالا نے ڈی سی صاحب کے بنگلے پر افطار پارٹی کے کام کا کہا، تو فوراً ہامی بھر لی۔ چند گھنٹے کا کام تھا اور بیگم صاحبہ نے پورے ایک ہزار روپے دینے کا کہا تھا۔

ظہر کی نماز کے بعد صغریٰ خالا اُسے لینے آگئیں۔ نسرین اُنہیں پہلے ہی آگاہ کر چُکی تھی کہ وہ راجا کو بھی اپنے ساتھ لے کر جائے گی۔ اُس نے فوراً بیٹے کو نہلا دُھلا کر پچھلے برس کی میٹھی عید کا جوڑا پہنایا۔ گرچہ وہ قدرے چھوٹا ہو چُکا تھا اور اُس کی آستینیں اور پائنچے کافی اُوپر چڑھے ہوئے تھے، پر کاسنی رنگ کا کڑھائی والا یہ جوڑا راجا کا پسندیدہ تھا۔سو، اسے پہن کر وہ بہت شاد ہوا۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ تینوں شہر کے پوش علاقے میں واقع ڈی سی صاحب کے بنگلے پہنچ گئے۔ 

دو ہزار گز پر تعمیر شُدہ حویلی نما بنگلا ڈپٹی کمشنر صاحب کی ’’کمائی‘‘ کی داستان سُنا رہا تھا۔ وہ مین گیٹ سے اندر داخل ہوئے، تو شان دار، چمچماتی گاڑیوں کی قطاریں اور رنگے برنگے، دِیدہ زیب پُھولوں سے سجا گارڈن دیکھ کر راجا تو پلکیں جھپکانا ہی بُھول گیا۔ وہ دَم سادھے ماں کی انگلی تھامے چل رہا تھا۔ صغریٰ خالا اُسے سمجھا کر لائی تھیں کہ بنگلے میں چُپ چاپ رہنا اور کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگانا۔

ابھی لان میں شام کی پارٹی کے لیے تزئین و آرائش جاری تھی۔ صغریٰ خالا اُنہیں بنگلے کی پچھلی جانب بنی کشادہ راہ داری میں لے گئیں،جہاں ملازمین کے لیے ایک ’’ڈرٹی کچن‘‘ بنایا گیا تھا۔ ڈی سی صاحب کی بیگم کچھ زیادہ ہی نفاست پسند تھیں۔ باورچی خانے میں اُنہیں بے ترتیبی بالکل پسند نہیں تھی۔ اسی لیے تمام ملازمین کے لیے خصوصی طور پر یہ کچن بنوایا گیا تھا۔ برتن دھونے، روٹی پکانے اور نصف درجن ملازمین کے لیے کھانا پکانے جیسے پھیلاوے والے سارے کام یہیں کیے جاتے تھے، جب کہ بنگلے کے اندر موجود بیگم صاحبہ کا خُوب صُورت ’’انگلش کچن‘‘ ہر وقت جگمگاتا رہتا۔

یوں تو ڈی سی صاحب ہر سال ہی اس طرح کی شان دار افطار پارٹیز کا اہتمام کیا کرتے تھے، مگر آج کی پارٹی کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ اس میں ان کے دس سالہ پوتے ، زوار کی سال گرہ کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ نسرین بنگلے کے دیگر ملازمین کے ساتھ افطار کی تیاری میں مصروف ہو گئی، کیوں کہ ڈِنر کا آرڈر بیگم صاحبہ نے شہر کے معروف کیٹر کو پہلے ہی سے دے دیا تھا۔ راجا دیوار سے ٹیک لگائے حیرت سے انواع و اقسام کے پکوان بنتے دیکھ رہا تھا۔ اُس نے اپنی زندگی میں پہلی باراتنے ڈھیر سارے کھانے ایک ساتھ دیکھے تھے۔ ذائقہ تو دُور کی بات، اُسے تو ان سب کے نام بھی معلوم نہیں تھے۔ وہ پکوانوں کی طرف دیکھتے ہوئے سوچنے لگا کہ ’’نہ جانے یہ سارے کھانے ان بنگلے والوں کے پاس کیسے آ جاتے ہیں؟ ہمارے گھر تو نہیں آتے۔‘‘

عصر کے بعد مہمانوں کی آمد شروع ہو گئی۔ پارٹی کے شرکا کے لیے رنگ برنگے مشروبات تیار کیے جا رہے تھے۔ لال، سبز، ارغوانی بلکہ نہ جانے کتنے ہی رنگوں کے مشروبات، راجا نے یہ سب پہلی بار دیکھے تھے۔ وہ اپنی بُھوک، پیاس بُھول کر اشتیاق سے ان چمکتے دمکتے رنگوں کے سحر میں کھو گیا۔ نسرین بھی بیٹے کو اطمینان سے بیٹھا دیکھ کر کام میں مگن رہی۔ کچھ ہی دیر میں گارڈن مہمانوں سے بَھر چُکا تھا۔ تیز امپورٹڈ پرفیومز کی مہک، ہوا کے جھونکوں کے سنگ ’’ڈرٹی کچن‘‘ تک پہنچ رہی تھی۔ معاً راجا کو نہ جانے کیا سوجھی کہ وہ ماں سے نظر بچا کر راہ داری سے نکل کر گارڈن کی طرف چل دیا۔

گارڈن میں ہر طرف دِیدہ زیب ملبوسات پہنے، میک اپ زدہ خواتین، کلف دار کُرتے شلوار اور ویسٹ کوٹ زیبِ تن کیے مَرد اور رنگ برنگی پوشاکوں میں ملبوس ہنستے کھیلتے بچّے موجود تھے۔ راجا ٹکٹکی باندھے اُنہیں دیکھتا رہا۔ اس قدر اُجلے اور خوش حال لوگ اُس نے پہلے کبھی نہ دیکھے تھے۔ اُس کی ماں ہمیشہ آنسو بہاتی رہتی ، جب کہ پڑوسن صغریٰ خالا بھی ہمیشہ سدا بوسیدہ لباس پہنے دکھائی دیتی۔ اب راجا کو اپنا پسندیدہ لباس بھی نہایت عجیب و غریب محسوس ہو رہا تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ ’’بھلا یہ کیسا لباس ہے کہ جس میں اُس ہاتھ، پیر ہی پوری طرح نہیں سما رہے۔‘‘ وہ خیالوں کے سمندر میں غوطہ زن تھا کہ اچانک اُس کی نظر گارڈن کے بیچوں بیچ میز پر رکھی ایک رنگ برنگی، دیو ہیکل فُٹ بال پر پڑی۔ وہ اُسے حیرت سے دیکھنے لگا۔ اسے فُٹ بال بے حد پسند تھی۔ 

محلّے کے سب بڑے لڑکے اتوار کے روز گلی میں فُٹ بال کھیلتے تھے، لیکن وہ چھوٹے بچّوں کو اسے ہاتھ تک نہ لگانے دیتے تھے۔ راجا کو تو خوابوں میں بھی فُٹ بال دکھائی دیتی تھی۔ وہ مبہوت کھڑا اس نظّارے کو اپنی آنکھوں میں سمانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اتنے میں ڈی سی صاحب نے اپنے پوتے کی سال گرہ کا کیک کاٹنے کا اعلان کیا۔ راجا کو یہ دیکھ کر شدید حیرت ہوئی کہ جسے وہ ایک بڑی سی فُٹ بال سمجھ رہا تھا، وہ دراصل ایک کیک تھا، جسے زوار نے زور دار تالیوں کی گُونج میں چُھری کی مدد سے با آسانی کاٹ دیا۔ راجا کے دل میں اُس فُٹ بال کو چُھونے کی شدید خواہش اُبھری، پر وہ آگے بڑھنے کی ہمّت نہ کر پایا اور گملوں کے پیچھے ہی سے جھانکتا رہا۔

افطار کا سائرن بجا، تو نسرین کو احساس ہوا کہ راجا اپنی جگہ پر موجود نہیں ہے۔ وہ بدحواسی کے عالم میں بیٹے کو ڈھونڈتی ہوئی اُس تک پہنچ گئی اور فوراً اسے دبوچ کر سینے سے لگایا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے۔ ناراض ہو کر کہنے لگی، ’’تمہیں سمجھایا تھا ناں کہ اپنی جگہ سے کہیں نہ جانا۔ اس طرح تمہیں غائب دیکھ کر میری تو جان ہی نکل گئی تھی۔‘‘ لیکن، راجا کو تو جیسے اپنی ماں کے الفاظ سُنائی ہی نہیں دے رہے تھے۔ اُسے تو بس چاروں جانب وہ رنگ برنگ، بڑا سا فُٹ بال کیک اُچھلتا دکھائی دے رہا تھا۔

نسرین اُسے قریباً گھسیٹے ہوئے عقبی راہ داری کی طرف لے گئی۔ سارے ملازمین افطار کے لیے دستر خوان پر بیٹھ چُکے تھے۔ نسرین نے فوراً راجا سے افطار کی دُعا پڑھوائی اور کھجور سے روزہ کُھلوادیا۔ سب نے اسے مبارک باد اور دُعائیں دیں۔ تاہم راجا گم صم بیٹھا رہا۔ اُس نے کھجور بھی بہ مشکل ہی نگلی تھی۔ پکوڑے، سموسے ، چنا چاٹ…سب اُس کے سامنے دھرے تھے۔ پر وہ کسی بھی چیز کی طرف ہاتھ نہیں بڑھا رہا تھا۔ نسرین نے اُسے ایک پلیٹ میں ساری چیزیں رکھ کر دیں، تو اُس نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ ’’ ماں! مُجھے کچھ نہیں کھانا…مُجھے تو بس فُٹ بال کیک کھانا ہے۔‘‘ راجا کی بات سُن کر سب ہنسنے لگے۔ 

خالا صغریٰ، راجا کے سَر پہ ہاتھ رکھ کر مسکراتے ہوئے بولیں کہ ’’ میرے بچّے! وہ تو امیروں کے شوق ہیں۔ بڑی بیگم صاحبہ نے وہ کیک آرڈرپر ہزاروں روپے کا بنوایا ہے۔ ہمیں ان کی چیزوں پر نظر نہیں ڈالنی چاہیے۔ یہ بُری بات ہے۔‘‘ لیکن راجا کے سَر پرتو فُٹ بال کیک کا بُھوت سوار تھا۔ وہ کسی طور نہ مانا اور ایک کونے میں منہ پُھلا کر بیٹھ گیا ، جب کہ باقی سب ایک مرتبہ پھر اپنے اپنے کاموں میں جُت گئے۔ نسرین کو راجا کی اس حرکت پر شرمندگی سی محسوس ہو رہی تھی کہ پہلی دفعہ بنگلے میں آئی اور بیٹے نے تماشا بنا دیا۔

افطار پارٹی اور ڈنر کئی گھنٹوں تک جاری رہے۔ نسرین نے ملازمین کے ساتھ مل کر ڈھیروں ڈھیر برتن دھوئے۔ بیرے کھانے کی پلیٹیں لا لا کر دیتے جا رہے تھے۔ جُھوٹی پلیٹوں میں بے دردی سےکھانا ضایع کیا گیا تھا۔ چاول، ہڈیاں، روسٹ کے ادھ کھائے ٹکڑے اور کیچپ کا مکسچر…سب کچرے کے ڈبّے کی نذر ہو رہا تھا۔ اچانک نسرین کی نظر ایک جُھوٹی پلیٹ پر پڑی۔ اُس میں فُٹ بال کیک کا ایک بڑا سا ٹکڑا رکھا تھا۔ 

اُس کا دل چاہا کہ وہ اسے اُٹھا کر اپنے پاس رکھ لے، لیکن پھر اُسے صغریٰ خالا کی یہ بات یاد آگئی کہ ’’بنگلے والوں کی کسی چیز کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھنا ۔‘‘ اور اگلے ہی لمحے کیک کا وہ ٹکڑا بھی ڈسٹ بِن کے پیٹ میں جا چُکا تھا۔ بے اختیار نسرین کی نظر دیوار سے ٹیک لگائے راجا پر پڑی۔ وہ بھی اُس کیک کی طرف حسرت بَھری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ نسرین کی آنکھیں بَھر آئیں۔ وہ بیٹے کے پہلے روزے پر بھی اس کے لیے کچھ خاص نہ کر پائی تھی۔

کام نمٹاتے نمٹاتے رات کے گیارہ بج گئے۔ راجا دیوار کے پاس ہی تھک کر سو چُکا تھا۔ بیگم صاحبہ نے حسبِ وعدہ سارے ملازمین کو ایک، ایک ہزار روپے انعام اور کھانا بھی ساتھ دیا۔ خالہ صغریٰ نے نسرین کو متفکّر دیکھا، تو کہنے لگیں، ’’بیٹی! تم فکر نہ کرو۔ راجا ابھی بہت چھوٹا ہے اور بچّے کبھی کبھار اس طرح ضد کرتے ہیں۔ گھر جا کر اسے بریانی اور بروسٹ کھلاؤ گی، تو کیک ویک سب بھول جائے گا۔‘‘ نسرین نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ پھر اُس نے راجا کو جگایا اور دونوں صغریٰ خالا کے ساتھ گھر کی جانب چل دیے۔ راجا بے دلی سے قدم اُٹھاتا خاموشی سے چلتا رہا اور وہ اپنی کالونی میں پہنچ گئے۔

گھر کے دروازے پر صغریٰ خالا نے ایک تھیلا راجا کو دیتے ہوئے کہا کہ ’’ بیٹا! بڑی بیگم صاحبہ کو جب مَیں نے بتایا کہ آج تمہارا پہلا روزہ تھا، تو انہوں نے تمہارے لیے میرے ہاتھ یہ تحفہ بھجوایا ہے۔‘‘ راجا حیران ہو کر سوچنے لگا کہ ’’بڑی بیگم صاحبہ تو ہمیں جانتی بھی نہیں، تو پھر تحفہ کیوں دیا؟‘‘ تاہم، اگلے لمحے تھیلا کھولتے ہی راجا خوشی سے اُچھل پڑا۔ وہ رنگ برنگے فُٹ بال کیک کا ایک بڑا سا ٹکڑا تھا، جسے چُھونے کے لیے وہ شام ہی سے بےقرار تھا۔ اُس نے صغریٰ خالا کا شکریہ ادا کیا اور کیک لے کر کوارٹر کی طرف دوڑ لگا دی۔

نسرین بھی صغریٰ خالا کی شُکر گزار تھی اور بڑی بیگم صاحبہ کی بھی دل سے احسان مند کہ جنہوں نے اُس کے بیٹے کی دِلی آرزو پوری کی۔ صغریٰ خالا خدا حافظ کہہ کر اپنے کوارٹر کی طرف چل دیں، لیکن رات بستر پر لیٹ کر دیر تک یہی سوچتی رہیں کہ’’ اگر وہ کچرے کے ڈبّے سے بروقت کیک نہ نکالتیں، تو راجا کا ننّھا سا دل ٹوٹ جاتا اور اُس کے چہرے سے کئی روز تک مسکراہٹ غائب رہتی۔‘‘