مرتب: محمّد ہمایوں ظفر
مَیں کئی سال سے حج کی درخواست جمع کروارہا تھا، لیکن قرعہ اندازی میں نام نہیں آرہا تھا۔2018ء میں بھی قرعہ اندازی ہوئی، تومیرا نام شامل نہیں تھا، لہٰذا مایوس سا ہوگیا، رمضان المبارک میں اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کرتا رہا کہ ’’اے اللہ! 70کے پیٹھے میں ہوں، کیا میرے مقدر میں تیرا گھر دیکھنا نہیں ہے، کیا میں یونہی اس دنیا سے بغیر حج کیے رخصت ہوجائوں گا؟‘‘ ایک دن مایوسی کی کیفیت میں بیٹھا تھا کہ میرے بیٹے، سبحان نے اپنے کمپیوٹر پر انٹرنیٹ آن کیا، تواچانک خوشی سے چلّا کر بولا، ’’ابّو! آپ کا نام حجّاجِ کرام کی فہرست میں آگیا ہے، یہ دیکھیں، اسپیشل کوٹے میں آپ کا نام شامل ہے۔‘‘ مَیں اُسی وقت سربسجود ہوگیا اور اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرکے حج کے سفر کی تیاری شروع کردی۔ پھر مقررہ تاریخ پر سکھر سے جدّہ پہنچ گیا۔
حج کا دورانیہ 55ایّام پر مشتمل تھا، جن میں سے پندرہ یوم مدینہ منورہ میں گزارے۔ مکّے میں بطحا قریش میں رہائش کے دوران مقامی مسجد میں میری کئی مقامی سعودی شیوخ سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ ایک دن یوں ہی اچانک دل میں خیال آیا کہ دیکھنا چاہیے کہ یہاں کے مقامی سعودی باشندوں کی دعوت کیسی ہوتی ہے؟ سنا ہے کہ بکرے یا گائے کے پیٹ ہی میں چاول بَھر کر مختلف قسم کے کھانے بنواتے ہیں۔ کسی طرح ممکن ہو تو مَیں بھی ان کی دعوت میں جائوں اور دیکھوں کہ وہ کس طرح کے کھانے کھاتے ہیں۔ خیر، پھر مدینہ منورہ پہنچے، تو وہ خیال بھی ذہن سے نکل گیا۔
ایک دن مسجدِ نبویؐ میں عشاء کی نمازپڑھ کر ہوٹل کی جانب جارہا تھا، توراستے میں ایک مقامی سعودی باشندے نے روک کر بڑے ادب سے کہا کہ ’’آپ میرے ساتھ چلیں، آپ کے لیے دعوت کا اہتمام کیا گیا ہے۔‘‘ اس طرح سرِراہ روک کردعوت دینے پر مجھے حیرت تو ہوئی، مگر مَیں بادلِ نخواستہ اس کے ساتھ چل پڑا۔ وہ مجھے ایک کوسٹر تک لے گیا، جہاں اور بھی کچھ لوگ تھے۔ جب سب کوسٹر میں بیٹھ گئے، تو ایک لمبی ڈرائیو کے بعد گاڑی ایک بہت بڑی شان دار بلڈنگ کے باہر جاکر ٹھہرگئی۔
وہ ہمیں بڑے احترام سے اندر لے گئے، جہاں سیکڑوں افراد پہلے سے موجود تھے۔ مَیں بڑا حیران ہوا کہ اتنے افراد کے لیے کس نے دعوت کا اہتمام کیا ہے۔ ابھی خیالات کا سلسلہ جاری تھا کہ ایک بچّہ، ہمارے سامنے میز پر اعلیٰ قسم کی کھجوریں رکھ کرچلا گیا، پھرایک دوسرے بچّے نے قہوہ پیش کیا۔ دعوت کا اہتمام کرنے والے کسی بہت بڑی مذہبی، اصلاحی تنظیم کے افراد تھے، جنہوں نے اپنے ہاں دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے باشندوں کے طعام کے لیے خصوصی اہتمام کر رکھا تھا۔ کھانے سے پہلے تنظیم کے چند عہدے داروں نے سب کے سامنے اپنی تنظیم کی کارکردگی رکھی اور آئندہ کے لائحہ عمل سے آگاہ کرنے کے بعد بڑے خلوص اور احترام سے کہا کہ ’’چلیں، کھانا لگ گیا ہے، چل کر کھالیں۔
مہمانوں کے لیے بیسمنٹ میں عربی روایتی دعوت کا اہتمام کیا گیا تھا، جہاں بڑی بڑی ریوالونگ میزوں پرسالم فربہ بکرے رکھے تھے، جن کے اندر اعلیٰ قسم کے چاول بھرے تھے۔ ان چاولوں میں ڈرائی فروٹس بھی تھے۔ میزیں ہر قسم کے تازہ پھلوں سے لبالب بَھری ہوئی تھیں، اعلیٰ اقسام کی کولڈ ڈرنکس بھی مہیّا تھیں۔ تھوڑے ہی فاصلے پر آئس کریم اور تازہ پھلوں کے جوسز بھی سرو کیے جارہے تھے۔ قصّہ مختصر، وہاں موجود میزبان، مہمانوں کو نہایت ہی خوش دلی سے کھانا کھلارہے تھے۔
اس پرتکلف ضیافت سے میری سمجھ میں تو یہی بات آئی کہ مکّہ مکرمہ میں میرے دل میں عربوں کی روایتی دعوت کا خیال آیا تھا، جسے اللہ رب العزت نے مدینے میں پورا کیا۔ ہم حاجیوں سے سنتے آئے تھے کہ مکّے اور مدینے میں اللہ تعالیٰ سے جوتمنّا، جو خواہش اور جو دعا کرو، وہ ضرور پوری فرما دیتا ہے۔
دراصل ہم نے پاکستان میں ایک عربی دعوت کی وڈیو دیکھی تھی کہ بڑی سی میز ہے اور اس پر ثابت بکرا رکھا ہے، جس کے پیٹ میں چاولوں کے ساتھ نہ جانے کیا کیا بھرا ہوا تھا۔ بہرحال، اس واقعے کے بیان کا مقصد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ وہاں سب کی سنتا ہے، اوراس نے میری ایک بچگانہ، بے ساختہ سی خواہش اور تمنّا بھی پوری کی۔ واہ! کیا شان ہے، میرے اللہ کی اور کیا بات ہے مکّے اور مدینے کی۔ (ملک محمد اسحاق راہی،صادق آباد، ضلع رحیم یار خان)