نادیہ سیف
ٹرین،لاہور اسٹیشن پر پہنچ کر ایک جھٹکے سے رُک گئی۔ اپنے منتظر بھائی پر نظر پڑتے ہی عنبرین کی بائیس گھنٹے طویل سفر کی تھکاوٹ دُور ہوگئی۔ دونوں بہن بھائی فوراً آگے بڑھ کر ایک دوسرے سےملے اور سامان نکلوانے کے دوران بھی محبت بھری نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ عنبرین کا پورے دو سال بعد میکے آنا ہوا تھا اور وہ بھی بڑے بھائی کی شادی پر۔ ٹیکسی جیسے ہی اپنے علاقے میں داخل ہوئی، تو اُسے نئی سڑک بننے کی تبدیلی فوراً محسوس ہوئی۔
بھائی نے اُس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ’’میری بہن شادی کے بعد پہلی دفعہ گھر آرہی تھی، تو مَیں نے نئی سڑک تعمیر کروا دی۔ ‘‘ اس پر وہ ہنستے ہوئے بولی، ’’ اوہو… مَیں جب دو سال پہلے اسی سڑک پر کالج آتے جاتے روزانہ دھکے کھاتی رہی، تو اُس وقت یہ محبت کیوں نہیں جاگی؟ ‘‘’’ بھئی! کہنے میں کیا حرج ہے، تم خوش ہو جاؤ ۔‘‘ بھائی کے اس جواب پر دونوں ہنسنے لگے۔
سڑک نئی تھی،مگر لوگ وہی پُرانے تھے۔ وہ محبّت بَھری نظروں سے ارد گرد ہونے والی دیگر تبدیلیاں دیکھ رہی تھی۔ ساتھ ساتھ بھیّا بھی اُس کی معلومات میں اضافہ کرتے جارہے تھے۔ حلوہ پوری والے کے سامنے دہی کی دُکان… اُس سے تھوڑا آگے سبزی والا اور پھر اُس کے برابر اسٹیٹ ایجنیسی، جہاں چار کُرسیاں اور ایک میز پہلے کی طرح موجود تھی۔ وہ بچپن میں اکثر یہ سوچ کر پریشان رہتی تھی کہ آخر یہ کس چیز کی دُکان ہوگی۔ تاہم، پتا چلنے پر بھی اُسے مقصد بہت دیر بعد سمجھ میں آیا۔ یہ سوچ کر وہ مسکرانے لگی۔ نہ جانے کیوں عنبرین کو اپنی شادی سے پہلے کا وقت یاد آنے کی بجائے، ہر طرف اپنا بچپن بکھرا نظر آ رہا تھا۔
سبزی والے بابا سے امّی کچھ بھی منگواتیں، تو ساتھ سبز مسالا ضرور دینے کو کہتیں اور وہ بابا بھی ہمیشہ مفت میں سبز مسالا دیتے۔ کبھی کبھار ہنس کر کہتے کہ ’’ بیٹا! یہ موسمی سبزی ہے، بہو سے کہنا کہ ضرور بنا کے کھلائے۔‘‘ وہ امّی کو بتاتی، تو اگلی دفعہ وہ ضرور تازہ سبزی منگواتیں اور پھر پکا کر بابا کو بھجواتی بھی تھیں۔ گلی کے موڑ پر واقع پان والے کی دُکان دیکھ کر اُسے یاد آیا کہ جب وہ دادی امّاں کے لیے پان کے پتّے لے کر آتی، تو پان والے کی دی گئی میٹھی چھالیا گھر پہنچنے سے پہلے ہی چٹ کر جاتی۔
وہ یہ ساری باتیں سوچتی اور زیرِ لب مسکراتی رہی۔ جب وہ سات، آٹھ برس کی ہوئی، تو امّی نے اُس سے دُکانوں سے چیزیں منگوانا بند کر دیا، لیکن وہ اسکول آتے جاتے سبزی والے بابا کو سلام ضرور کرتی اور بدلے میں وہ دیر تک ڈھیروں دُعائیں دیتے رہتے۔ بابا کا خیال آنے پر اُس نے فوراً اُن کے بارے میں بھائی سے پوچھا، تو اس نے بتایا کہ سبزی والے کا توانتقال ہو گیا، جس پر وہ کافی دیر تک افسردہ رہی۔
’’ہائے بھائی !لڈو پھٹی…‘‘ مونگ کی دال کے بڑے دیکھ کر بے ساختہ اُس کے منہ سے نکلا۔ ’’ندیدی !کھاؤ گی کیا؟‘‘ بھائی نے ہنستے ہوئے پوچھا۔ وہ ’’ہاں‘‘ کہتے ہوئے کچھ جھجک سی گئی۔ اُس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ سب کو بتائے کہ اُن سے وابستہ اپنے بچپن کی یادیں اُسے کتنی عزیز ہیں۔ ’’بھائی! وہ گولے گنڈے والا اب بھی اسکول کے پاس کھڑا ہوتا ہے یا نہیں؟ اچانک خیال آنے پر اُس نے بے اختیار پوچھا۔ ’’نہیں، تمہاری شادی کے بعد اُس نے کاروبار بدل لیا کہ اب اُس کے آدھے گولے گنڈے کون کھائے گا؟‘‘ بھائی نے یہ کہہ کر اُسے ایک مرتبہ پھر چھیڑنے کی کوشش کی۔ ’’بھائی…‘‘ اُس نے شکایتی نظروں سے بھائی کی طرف دیکھا۔
جواباً وہ بولے،’’ بھئی ظاہر ہے… کہو تو کل گھر پر بلوا لوں۔‘‘ وہ اس کے بچپنے پر مستقل اُسے چھیڑ رہے تھے۔ ’’گھر والوں کو بتاؤں گا کہ پورے راستے آپ لوگوں کے بارے میں پوچھنے کی بجائے چوکیداروں، جمعداروں کے بارے میں پوچھتی آئی ہے۔‘‘ بھائی نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا۔ تاہم، اپنی گلی میں داخل ہوتے ہی وہ خاموش ہو گئے، جب کہ وہ واقعی چوکیدار اور ڈاک والے بابا کے بارے میں سوچنے لگی۔ جمعدار تو ہمیشہ بہت تنگ کرتا تھا۔ امّی اُس کے چُھٹی کرنے پر اُسے خُوب صلواتیں دیتی تھیں، جب کہ وہ بدتمیز ’’آیاں خالاں“ کر کے ہنستا رہتا تھا۔
گلی میں داخل ہوتے ہی اُسے اپنے گھر کا دروازہ چوپٹ کُھلا نظر آیا۔ باہر ابّو اُس کے منتظر تھے۔ چند محلّے والے اور بچّے بھی موجود تھے۔ ابّو کو اپنے استقبال کے لیے گھر سے باہر کھڑا دیکھ کر اُسے اپنے والد کی محبت اور اپنی اہمیت پر دل میں فخر کا احساس ہوا۔ ٹیکسی کا دروازہ بند کرتے ہی وہ ابّو کی طرف اور ابو ’’ارے میری بچّی‘‘ کہہ کر ہاتھ پھیلاتے ہوئے اُس کی طرف لپکے۔ وہ دیر تک اُن سے لپٹی رہی، پھر محلّے والوں کو سلام کیا۔ سب نے سَر پہ ہاتھ پھیرا۔ آس پاس کے گھروں سے بچّے اور اُن کی مائیں مسکراتے ہوئے جھانک رہی تھیں۔
اُس نے ہاتھ ہلا کر سب کے استقبال کا جواب دیا اور کسی کو اشارے سے سلام کیا، جس پر بعد میں بہن بھائیوں نے اس کا خُوب مذاق اُڑایا۔ سعد بولا ” تم تو ایسے ہاتھ ہلا رہی تھی، جیسے کوئی بہت بڑی ہستی اپنے عقیدت مندوں کو سلام کا جواب دے رہی ہو۔‘‘ اس پر عنبرین نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ ” آپ لوگوں نے بھی تو استقبال کے لیے پورا محلّہ اکٹھا کر لیا تھا، جیسے کوئی قومی ہیرو آ رہا ہو۔‘‘ ’’میرے لیے تو تم کسی شہزادی سے کم نہیں۔‘‘ امّی نے پیار سے کہا اور پھر مصنوعی خفگی سے بولیں، ”خبردار! جو مہمان کے خلاف ایک لفظ بھی کہا۔‘‘ ’’مَیں تو پوری نظم کہے دیتا ہوں۔“
سعد جھٹ سے بولا ۔ ’’سعد…‘‘ امّی نے آواز لگائی۔ ’’جی امّی، جا رہا ہوں۔‘‘ پھر سعد نے اُس سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’’اچّھا بجو! اجازت… واپس آکر آپ کو ایک چھپکلی کا قصّہ سناؤں گا۔ یہ کہہ کر وہ ہنستے ہوئے چلا گیا اور سعدیہ بڑبڑانے لگی، جب کہ وہ ہنستے ہوئے بولی ’’یہ سعد کچھ زیادہ ہی بک بک نہیں کرنے لگا۔‘‘ ”ہاں“۔ سعدیہ نے جواباً کہا۔ ’’ارے آپ چھوڑیں اُسے … آپ فریش ہو جائیں، تو مَیں کھانا لگوا دیتی ہوں۔ آپی بھی آنے والی ہیں۔“ یہ کہہ کر سعدیہ کچن کی طرف چل پڑی۔
بھائی کی شادی کے ہنگامے تمام ہوئے، تو شاپنگ اور رشتے داروں سے ملنے ملانے میں وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا۔ واپسی میں کچھ دن باقی تھے، تو ایک روز بازار میں خریداری کے دوران عنبرین کی اپنی بچپن کی سہیلی سے، جو اسکول میں بھی ساتھ ہی پڑھتی تھی، ملاقات ہو گئی۔ ملاقات کیا ہوئی، گویا ایک اَن جانی سی خوشی اُس کے ہاتھ آگئی۔ فون نمبرز کے تبادلے اور رابطہ رکھنے کے وعدے پر وہ ایک دوسرے سے جُدا ہوئیں، تو عنبرین کے لیے یادوں کے مزید دَر وا ہو گئے۔
محلّے کی ایک سہیلی نے تینوں بہنوں کو دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا، تو بے تکلف ماحول میں کھانا کھاتے ہوئے انہوں نے ڈھیر ساری باتیں کیں۔ اُسے محلّے کی بہت سی لڑکیوں کی شادی کا سُن کربہت اچّھا لگا۔ یوں اُس کی معلومات میں بھی اضافہ ہوا اور بہت سے بے لوث رشتوں کی یاد بھی تازہ ہو گئی، جن سے اُن سب نے بچپن میں بہت کچھ سیکھا تھا۔
رات میں سب بہن بھائی مل بیٹھ کر باتیں کرتے، تو وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوتا۔ تب امّی، بھائیوں کو یہ کہتے ہوئے بھگاتیں کہ ’’ تم لوگوں نے صبح آفس جانا ہے، جب کہ یہ تو گھوڑے بیچ کر سوتی رہیں گی۔ ‘‘ایک روز سعدیہ نے جل بُھن کر جواب دیا کہ ’’ تو ہم نے کون سا ان کو دعوت دی ہے اور ویسے بھی گھوڑے، تو آپی اور عنبرین باجی بیچیں گی۔ مَیں تو اُٹھ کر گدھے کو ناشتا دُوں گی۔‘‘ اس کاری وار پر سعد خاموش رہا، تو سب نے حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھا۔ خود سعدیہ کا دل بھی مُٹّھی میں آگیا۔ کچھ لمحے توقف کے بعد سعد انتہائی افسردگی سے بولا کہ ’’باجی! دیکھیں آپ کی شادی کے بعد مُجھ سے یہ سلوک ہوتا ہے۔‘‘
عنبرین اُس کی سنجیدہ اداکاری پر ہنسنے کی بجائے فوراً رونا شروع ہوگئی۔ آنسو تھے کہ رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے، کیوں کہ سعد حقیقتاً عنبرین کے بہت قریب تھا اور وہ اس کا بہت خیال بھی رکھتی تھی۔ بہن کو روتا دیکھ کر سعد مزید کوئی چُٹکلہ چھوڑنے کی بہ جائے خاموش ہو کر بیٹھ گیا۔ اسے یاد آیا کہ کیسے بجو نے اُس کے آخری سیمسٹر کی فیس گُم ہو جانے کی بات آج تک ابّو سے چُھپا رکھی ہے اور اپنی جمع پونجی سے اُس کی فیس بَھری تھی۔
پھر سب بہن بھائی ایک دوسرے کے لیے قربانی اور محبت کے جذبات سے لب ریز چھوٹے موٹے واقعات یاد کرنے لگے۔ کچھ دیر بعد سعد اپنی پچھلی ٹون میں واپس آتے ہوئے بولا، ’’یہ سب مراقبے میں کیوں چلے گئے؟‘‘ اور پھر امّی کو آواز دے ڈالی۔ امّی کو اپنی طرف آتا دیکھ کر عنبرین نے جلدی سے آنکھیں صاف کیں اور محبّت بَھری نظروں سے سعدکو دیکھنے لگی۔ ’’مُجھے ایسے مت دیکھیں۔ میرا خون ہلکا ہے، نظر لگ جائے گی۔‘‘ سعد کے اس جملے پر سب ہی کی ہنسی چُھوٹ گئی۔
اگلا پورا دن سعدیہ اپنی صفائیاں پیش کرتی اور سعد کی شکایتیں لگاتی رہی، جب کہ عنبرین ہلکے پُھلکے انداز میں اسے سمجھاتی رہی اور اپنے آنسوؤں کو اُس کی لاپروائی نہیں بلکہ اپنی محبت سے تعبیر کرتی رہی۔ سارے بہن بھائی اپنے بچپن کی باتیں یاد کر کے ہنستے اور ایک دوسرے کو چڑاتے رہتے۔ گپ شپ کے دوران وہ اپنی بھابھی کو یہ کہہ کر زبردستی سونے کے لیے بھیج دیتے کہ ’’ اب ہمیں اپنی بھابھی کی برائیاں کرنی ہے۔‘‘ بھابھی بھی پھوپھی زاد تھی، جو اُن پر خُوب جُملے کَستی اور آخر کار ہنستے ہوئے چلی جاتی۔
سعد جب اگلی پچھلی باتوں کے بخیے اُدھیڑتا، تو تینوں بہنیں ہنستے ہنستے بے حال ہو جاتیں اور سعدیہ تو واقعی پیٹ پکڑ کر کہتی کہ ’’رُک جاؤ خدا کے واسطے، ورنہ میں ہنس ہنس کر مَر جاؤں گی۔ جلدی سے کوئی سنجیدہ بات کرو کہ ہنسی رُک جائے۔‘‘ تب سعد بولا ’’ چلو،مَیں تمہیں پھوپھا جی کی موت کا واقعہ سناتا ہوں ...۔‘‘ یہ سُن کر آپی بولیں کہ ’’اب تم بھی جا کر سو جاؤ بیٹا۔ اب ہمارا رُخ تمہاری طرف ہے۔‘‘ ’’ہائے ظالم سماج… یہ ہے بھائی کی عزّت۔ ویسے بھی غیبت کا شُعبہ خواتین کا ہے۔ مَیں تو چلا ...‘‘ یہ کہہ کر سعد کمرے سے باہر نکل گیا۔ ’’چلو عنبرین، اوپر چلتے ہیں، ورنہ وہ خبیث پھر نازل ہو جائے گا۔‘‘ سعدیہ نے ٹکڑا لگایا، تو تینوں ہنستی ہوئی سنبھل سنبھل کر بغیر دیواروں والی چھت پر لکڑی کی سیڑھی کی مدد سے چڑھنے لگیں۔
تینوں بہنیں دیوار سے ٹانگیں لٹکا کر بیٹھی تھیں کہ چچا کے گھر سے، جو برابر میں تھا، عائشہ بھی کُود کر آدھمکی اور بولی، ’’رات کے سنّاٹے میں چڑیلوں کے ہنسنے کی آواز سے میری آنکھ کھلی، تو چُھپ چُھپا کر مَیں بھی اُوپر آگئی۔‘‘ ’’یعنی تم بھی چڑیل ہو اور آپی کو بھی چڑیل کہا تم نے۔‘‘ عنبرین بولی۔ ’’نہیں ،نہیں۔ مَیں سمجھی کہ صرف یہ دونوں ہوں گی۔‘‘ عائشہ نے آپی کی طرف دیکھتے ہوئے صفائی پیش کی۔ پھر کچھ دیر چاروں فضول سی باتوں پر ہنستی رہیں۔
اچانک عائشہ کہنے لگی کہ ’’پھوپھو کے ہاں سارے صحن میں سوتے ہیں۔ وہاں جھانکتے ہیں۔‘‘ ’’نہیں، بدتمیزی مت کرو۔‘‘ آپی نے منع کیا، تو عائشہ نے جواباً کہا کہ’’ بھئی! مُجھ سے تو برداشت نہیں ہو رہا۔‘‘ اور پھر چُپکے سے جھانک کر آئی اور نقشہ کھینچنے لگی کہ فلاں کا منہ سوتے ہوئے کُھلا ہے اور فلاں خراٹے لے رہا ہے۔ تب سعدیہ نے مزید جُملے کسے کہ ’’فلاں رنگین خواب دیکھ رہا ہو گا اور پھوپھا جی تو سوتے میں بھی پھوپھو کے ڈر سے جھرجھریاں لے رہے ہوں گے۔‘‘ جس پر وہ چاروں دیر تک آواز روک کر ہنستی رہیں۔ اچانک امّی کی آنکھ کُھلی، تو بولیں، ”خدا تمہیں نیک ہدایت دے۔ مت ہنسو ا تنا ... دِل مُردہ ہو جائے گا۔
بس اب نیچے آجاؤ اور نماز پڑھ لو۔‘‘ نیچے آکر تینوں نماز کی تیاری کرنے لگیں، لیکن ابھی فجر میں کچھ وقت باقی تھا۔ اذان کا انتظار کرتے ہوئے وہ ایک دوسرے کو یاد دہانی کرواتی رہیں کہ ہنسیں گی، تو وضو مکروہ ہو جائے گا اور پھر نیند سے بوجھل آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنے سے بننے والی ایک دوسرے کی صُورتوں پر مسکراتی رہیں۔ سعدیہ بولی کہ ’’شاید مؤذن کی آنکھ نہیں کُھلی۔‘‘ آخر انتظار کرتے کرتے وہ بے خبر سو گئی اور پورا دن امی اسے سخت سُست اور کاہل کے خطابات سے نوازتی رہیں۔
آخر کار عنبرین کی روانگی کا دن آن پہنچا۔ آنسو جیسے بند باندھنے کے باوجود بہتے چلے جاتے تھے۔ ’’اپنے گھر میں خوش اور آباد رہو۔‘‘ امّی یہ کہنے کے بعد اپنے آنسو چُھپانے لگیں۔ روانگی کے وقت جب ساری بہنیں گلے مل کر با آوازِ بلند رونے لگیں، تو سعاد بولا، دیکھا ناں… اِسی دن کے لیے منہ پھاڑ پھاڑ کر ہنسنے سے منع کیا تھا۔ اب رو رو کر آنکھیں پھوڑو۔‘‘ پھر بھی کوئی نہ ہنسا، تو وہ مزید چُٹکلے چھوڑنے لگا۔
ویسے بجّو! آپ تو چلی جائیں گی، لیکن یہ روتے بسورتے منہ ہمیں پتا نہیں کب تک برداشت کرنا پڑیں گے۔“ وہ سعدیہ اور بھابھی کی طرف، جو کہ اس کی ہم عُمر کزن تھیں، دیکھتے ہوئے بولا، تو آخر کام یاب ہو ہی گیا۔ سب روتے روتے ہنسنے لگے اور سعدیہ اور افشین بھابھی اُس سے نوک جھونک کرنے لگیں۔ تب سعد نے دُہائی دیتے ہوئے کہا کہ ’’یک نہ شُد دو شُد۔‘‘ ’’تمہارا مقابلہ تو چار بھی مشکل سے کریں گے۔‘‘ بھیّا نے اس کے سَر پر چپت لگاتے ہوئے کہا۔
ابّو نے نصیحتوں اور نم آنکھوں سے اُسے رخصت کیا۔ دونوں بھائی اسٹیشن چھوڑنے گئے، تو سعد آخر وقت تک کہتا رہا کہ ’’ایسے ایسے منہ بنا کر روئے ہیں سب کہ جب کراچی پہنچ کر آپ ہنستے ہوئے فون کریں گی، تو مَیں سارے نقشے زبانی کھینچوں گا۔‘‘ جب تک ٹرین ہلکی چلتی رہی، تو دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر ہاتھ ہلاتے رہے۔ اس دوران عنبرین آنسو پونچھتی رہی اور سعد اسے اشارے سے رونے سے منع کرتا رہا۔ آدھا سفر کٹ جانے پر ذہن پیچھے والوں کو چھوڑ کر آگے والے رشتوں سے متعلق تانے بانے بُننے لگا۔
وہ سُسرال میں ہونے والے اپنے استقبال سےمتعلق سوچ کر خود بخود ہی مسکرانے لگی، کیوں کہ میاں جی نے بتایا تھا کہ وہاں بھی سب، اُس کے دل و جان سے منتظر ہیں۔ سب کی خاطر لیے جانے والے تحائف پا کر اُن کے چہروں پر آنے والی چمک سے متعلق سوچ کر وہ بھی خوش ہوتی رہی، کیوں کہ رشتے میکے کے ہوں یا سُسرال کے، دوستی کے ہوں یا احساس کے، محبّت و خلوص میں گندھے ہوں، تو اثر رکھتے ہی ہیں ۔بس، اس کے لیے ہمیں ہر رشتے میں اپنا کردار بھرپور طریقے سے نبھانا ہوتا ہے۔ یہ سوچتے ہوئے اُس نے بہت سکون سے اپنی آنکھیں موند لیں۔