• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مولانا مودودی کے انتقال پر ان کے دیرینہ رفیق نعیم صدیقی نے ایک نظم لکھی تھی
وہ شاہ بلوط بھی ٹوٹ گرا
شب تارے جس پر جھولتے تھے
اور تتلیاں بن کر لالہ و گل
نازک سی پھننگوں کو اس کی
وارفتہ ادا سے چومتے تھے
ہم ایدھی صاحب کے انتقال پر نعیم صدیقی کی اس نظم کو یاد کر سکتے ہیں۔ وہ بھی ایک شاہ بلوط تھے۔ ایسا شاہ بلوط جس کے سائے تلے بے آسرا، غریب، نادار، بیوائوں اور یتیم پل رہے تھے ہزاروں کی تعداد میں نہیں لاکھوں کی تعداد میں۔
ایدھی صاحب کا بڑا کام صرف یہ نہیں کہ وہ ان غریبوں کے لئے رحمت تھے بلکہ یہ بھی کہ انہوں نے اس غریب ملک میں رحم، انسان دوستی، محبت اور ایثار کا ایک ایسا بیج بویا جس نے اب ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر لی ہے۔ پابلونرودا کے بقول عام آدمی کی مثال ایسی ہے کہ وہ آہستہ آہستہ مرتا ہے ایسے کہ وہ بیزار ہوتا ہے، محبت کرنا چھوڑ دیتا ہے، انسانیت سے لاپروا ہو جاتا ہے اور اپنے آپ سے بھی۔ وہ روٹین کا شکار ہو کر جامد ہو جاتا ہے۔ اس کا دل ویسے نہیں دھڑکتا جیسے کسی محبت کرنے والے انسان کا دھڑکنا چاہئے۔ وہ بے حس ہوتا چلا جاتا ہے اور یوں گویا اس کی روحانی موت واقع ہو جاتی ہے۔
لوگوں کے ساتھ ساتھ ملک اور معاشرہ بھی اسی طرح آہستہ آہستہ مرتے ہیں، ادارے دم توڑتے ہیں، ملک پر بے رحم حکمران غالب آجاتے ہیں، محبت ختم ہو جاتی ہے۔ انسانیت کی جگہ نفسانفسی کا دور دورہ ہوتا ہے۔ نفرت پلتی ہے، حرص و طمع انسان کا شیوہ بن جاتے ہیں، ایسے میں بیوائوں، یتیموں، غریب عوام کی سننے والا کوئی نہیں رہتا۔ ایسے معاشروں کی بھی موت ہو جاتی ہے، ایسے میں ایدھی صاحب ایسے لوگ کیونکر پیدا ہوگئے یہ صرف اور صرف اللہ کا کرم ہے۔ وگرنہ ہمارے حالات تو ایسے نہیں کہ اس ملک میں کچھ مثبت پنپ سکے۔
میری ایدھی صاحب سے دو ملاقاتیں ہوئی دونوں بار وہ کسی اور کے چیریٹی پروگرام میں شرکت کے لئے ٹیلی وژن میں آئے تھے۔ انہیں اس سے کوئی غرض نہیں تھی کہ وہ اپنے ادارے کے لئے نہیں بلکہ کسی اور کے ادارے کے لئے چندہ کی اپیل کررہے ہیں۔وہ تو بس فلاح انسانیت چاہتے تھے خواہ وہ کسی بھی ذریعے سے ہو، اس وقت بھی ان کے تن پر ملائشیائی شلوار قمیض اور ایک ٹوٹا ہوا جوتا تھا۔ شاید وہی جو انہوں نے انتقال کے وقت بھی پہنا ہوا تھا اس لئے کہ رپورٹ بتاتی ہے کہ انہوں نے آخری جوتا کوئی بیس برس پہلے خریدا تھا۔
وہ ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے، اسی لئے میں نے ہمت کر کے پروگرام کے دوران اس سے پوچھا کہ ان کے پاس اس طرح کے اور کتنے جوڑے ہیں۔ کہنے لگے ایک اور۔ میں ہمیشہ دو جوڑے کپڑے رکھتا ہوں۔ ایک پہنتا ہوں دوسرا دھل جاتا ہے۔ اس شلوار قمیض میں دو جیبیں ہوتی تھیں ایک میں ایک ڈبیا تھی جس میں کسی جڑی بوٹی کا سفوف ان کے پاس ہوتا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا یہ کیا ہے؟ کہنے لگے یہ شوگر کی دوا ہے۔ میںکھانے سے پہلے اس کی چٹکی لے لیتا ہوں۔ میں شوگر کا مریض ہوں نا۔ بھئی ہم غریبوں کے لئے بس یہی دوا ہے۔
ایدھی صاحب اس وقت بھی چاہتے تو اپنے لئے بہتر سے بہتر دوا لے سکتے تھے لیکن وہ کہتے تھے کہ ان کی زندگی وقف ہے وہ اپنے اوپر قوم کا پیسہ خرچ نہیں کرسکتے۔ اسی لئے شاید وہ مہنگی دوا نہیں خریدتے تھے۔ اسی لئے انہوں نے اپنی آخری زندگی میں زرداری صاحب اور نامعلوم کتنے ہی اور امرا کی یہ درخواست ٹھکرا دی کہ ان کے بیرون ملک علاج کے لئے وہ پیسے دینے کو تیار ہیں۔ انہوں نے اپنے ملک میں علاج کروانے کو ہی ترجیح دی اور یہیں فوت ہوئے۔
یہ ہم ان ایدھی صاحب کی بات کررہے ہیں جنہوں نے 11برس کی عمر میں اپنی والدہ کی تیمارداری سے خدمت شروع کی۔ 1947ء میں گجرات ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی۔ ایک چھوٹی سی ڈسپنسری بنائی اور پھر بڑھتے بڑھتے یہ کام اتنا بڑھا کہ وفات کے وقت وہ اپنے پیچھے دنیا میں ایمبولینس سروس کا سب سے بڑا بیڑا چھوڑ گئے ہیں۔ غریبوں کے علاج، قدرتی آفات وغیرہ میں مدد کرنے کے لئے ان کے پاس اب 2 جہاز، ہیلی کاپٹر، سپیڈ بوٹس اور 12 سو ایمبولینس تھیں۔ پاکستان میں غریبوں، بیوائوں اور یتیموں کے لئے ان کے کل 3سو مراکز تھے۔ یہ سب کام انہوں نے مذہب اور عقیدے سے بالاتر ہو کر کئے، اپنے ہاں کسی کو مدد کے لئے جگہ دیتے وقت یہ نہیں پوچھتے تھے کہ کس عقیدے سےتمہارا تعلق ہے، یہی وجہ ہے کہ بھارت سے بچھڑ کر لائی گئی گیتا کو انہوں نے نو برس اپنے پاس رکھا۔بے شمار مذہبی جماعتوں، سیاسی تنظیموں نے اپنی غرض کے لئے ایدھی صاحب کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کی مگر ان کا جواب صرف ایک ہی رہا۔ بھائی ہمارا مقصد انسانیت کی فلاح ہے اور ہمیں بس وہی کرنا ہے۔
ایدھی صاحب رخصت ہوئے مگر ایسے کہ اپنے پیچھے ایسے نشان چھوڑ گئے جو اب ایک ادارے کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ ان کے بوئے ہوئے بیج تناور درخت بن چکے ہیں اور ادارے کبھی نہیں مرتے۔ یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔
تازہ ترین