• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں نظام اور جمہوریت دونوں پر اعتبار کرنا مشکل ہے۔ ویسے تو ملک میں کوئی مربوط نظام نظر نہیں آتا اور ملکی اداروں کی ناکامی اصل میں نظام کی ناکامی ہے۔ ہمارے ہاں نظام کو چلانے میں سب سے اہم کردار نوکر شاہی کا ہے۔ یہ اپنے مفادات کی وجہ سے عوام کو نظرانداز کرتی ہے۔ ان کی سرپرستی کے لئے سیاسی اشرافیہ کا کردار بہت نمایاں ہے۔ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں جمہوریت کے گن گاتے نہیں تھکتیں مگر ان جماعتوں کے اندورنی نظام کو دیکھا جائے تو وہ غیرجمہوری اور موروثی نظر آتا ہے جس کی وجہ سے ملکی سیاست تنزلی کا شکار ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی آصف علی زرداری کی قیادت میں اپنا تشخص برقرار نہ رکھ سکی۔ اگرچہ دیگر جماعتوں کی وجہ سے وہ حزب اختلاف کی رہنما تو بنی مگر جمہوریت کے تقاضوں کے مطابق کردار ادا نہ کر سکی۔ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے زمانہ میں میثاق جمہوریت کا معاہدہ جو لندن میں ہوا اس پر دونوں فریق کبھی بھی متفق نہ ہو سکے۔ اگرچہ وہ معاہدہ بھی باہمی مفادات کی وجہ سے کیا گیا تھا مگر اس کے نتیجہ میں کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کو تحفظ دیا گیا تھا۔
اس وقت قومی اسمبلی میں تین جماعتیں حزب اختلاف میں نظر آتی ہیں۔ ان میں آپس کے اختلافات بھی نمایاں ہیں۔ پہلے پہل تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز باری باری کے کھیل پر یکسو رہیں مگر بعد میں فریقین میں ٹھن گئی اور اب وہ ایک دوسرے کو برداشت کرنے پر تیار نظر نہیں آتیں۔ دیگر دوسری جماعتوں میں تحریک انصاف نمایاں ہے جس کا پہلا مورچہ انتخابات کے نتیجہ میں بدنظمی کی وجہ سے انتخابات مشکوک قرار پائے اور انہوں نے ایک طویل دھرنا بھی دیا اور اس کے نتیجے میں نواز لیگ کو ایک کمیشن بھی بنانا پڑا۔ جن چار حلقوں پر تحریک انصاف کا اعتراض تھا ان پر الیکشن کمیشن ابھی تک کارروائی مکمل نہیں کر سکا۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نظام میں کتنی شکست و ریخت ہے۔ اس وقت الیکشن کمیشن مکمل طور پر غیرفعال نظر آتا ہے۔ اس کے چاروں صوبوں کے نمائندے اپنی مقررہ مدت پوری کرنے کے بعد سبکدوش ہو چکے ہیں اور حکومتی ادارے نئے نمائندوں کے لئے ابھی تک سرگرم عمل ہوتے نظر نہیں آئے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار حزب اختلاف کے لیڈر خورشید شاہ سے مشاورت کر تو رہے ہیں مگر ان کے اختیار میں سب کچھ نہیں ہے۔
مسلم لیگ نواز اور پیپلز پارٹی میں جماعتی انتخابات کے حوالے سے کوئی کارروائی نظر نہیں آتی۔ تحریک انصاف نے جمہوری پارٹی کے تصور کو اجاگر کرنے کے لئے اپنے ہاں انتخابات ضرور کرائے مگر اس کا نتیجہ پارٹی کے لئے اچھا نہیں نکلا۔ لوگ متفق نہ ہو سکے پارٹی میں تقسیم نمایاں نظر آئی۔ دوسری طرف صوبہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کو حکومت کرنے کا موقع ملا۔ اس نے اپنی سی کوشش کی ہے کہ صوبے میں امن و امان کے سلسلہ میں مرکز سے مشاورت جاری رکھے۔ کسی حد تک پولیس کا نظام ٹھیک کرنے کی کوشش بھی نظر آتی ہے مگر صوبائی خودمختاری کے سلسلہ میں مرکز ان کی مدد کرتا نظر نہیں آتا۔ کپتان عمران خان کو اندازہ ہو چکا ہے کہ جمہوریت اور سیاست دونوں ناقابل اعتبار ہیں مگر نظام کو چلانے کے لئے ان کا سہارا لینا بھی ضروری ہے۔ عمران خان اور تحریک انصاف اس وقت پوری کوشش میں ہیں کہ کرپشن کے معاملات کو نظرانداز نہ کیا جائے۔ کرپشن جمہوریت کی آڑ لے کر راستہ محفوظ بناتی ہے جس کی وجہ سے جمہوریت کا چہرہ بھی مشکوک ہو جاتا ہے۔ پھر جمہوریت نظام کی خرابیوں کو درست بھی نہیں کر سکتی۔
پاکستان کے عوام کو اندازہ ہوتا جا رہا ہے کہ کرپشن نے ملکی اداروں کو بے بس کر رکھا ہے۔ ملک کی ترقی اور فلاح کے لئے جو بھی منصوبے بنائے جاتے ہیں ان میں نوکر شاہی اور سیاسی اشرافیہ اپنا حصہ اور مفاد مدنظر رکھتی ہے۔ اس وقت پاناما لیکس کے حوالے سے ملکی سیاست میں الزامات کی بھرمار ہے۔ دونوں فریق جو ماضی میں وقتی حلیف تھے ایک دوسرے پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں مگر ان کے درمیان ایسے لوگ بھی ہیں جو امید کرتے ہیں کہ معاملات کو درست کیا جا سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے خورشید شاہ اور سینیٹر رحمان ملک کو سابق صدر آصف علی زرداری کی خصوصی ہدایات ہیں۔ اس مقصد کے لئے سینیٹر رحمان ملک بیرون ملک دوستوں سے مشاورت کر کے ایک اور این آر او کے لئے میدان ہموار کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ان کو ایم کیو ایم اور نیشنل عوامی پارٹی کی اشیر باد بھی حاصل ہے مگر لگتا ہے کہ دیر ہو چکی ہے کیونکہ اب کرپشن کے لئے مشکل وقت نظر آ رہا ہے۔
بین الاقوامی تناظر میں پاکستان کی خارجہ پالیسی تھکی تھکی سی نظر آتی ہے۔ خارجہ امور کے دونوں مشیر ایک دوسرے سے متفق نہیں۔ سرتاج عزیز اگرچہ کوشش کرتے ہیں کہ بات کھل کر کی جائے اور پاکستان کے دوست اور مہربان ملک امریکہ کو باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اس کا ہرجائی کردار خطے کے لئے مشکل پیدا کر سکتا ہے مگر امریکہ دہرے معیار کا شکار ہے۔ وہ پاکستان کی خطے میں اہمیت تو محسوس کرنا ہے مگر پاکستان کے حکمرانوں کو بچانا اور جمہوریت کی راگنی بھی الاپتا ہے۔ اس کے نزدیک کرپشن تو ہر ملک میں ہوتی ہے پھر اس کو ہمارے ملک کی جمہوریت سے بہت ہی ہمدردی ہے۔ اس کو پاکستان کی ترقی سے کوئی غرض نہیں اس کے اپنے مفادات ہیں۔ حالیہ دنوں میں امریکیوں کے دو وفود تعلقات کا جائزہ لینے کے لئے آئے۔ پہلا وفد تو نچلے درجہ کے ملازموں پر مشتمل تھا دوسرے وفد میں ایک سینیٹر بھی تھے جو پاکستان کی سیاست کے حوالہ سے مشورے دیتے بھی سنے گئے۔ لہٰذا امریکی پسند کو نظر انداز کرنا آسان نہیں۔
وزیر اعظم میاں نواز شریف کی بیماری اور لندن کے قیام نے مسلم لیگ نواز گروپ کو کمزور کر دیا ہے۔ حالیہ بجٹ کے دنوں میں اسمبلی میں حکمران جماعت کے ممبروں کا رویہ پارٹی کے لئے تشویشناک ہے مگر ملکی نظام میں اب اتنی گنجائش ہے کہ اگر وزیر اعظم وقتی طور پر معذور ہو جائیں تو بھی ملک کا کاروبار چلتا رہے مگر یہ طے نہیں ہو سکا کہ یہ عرصہ جب وزیر اعظم زیر علاج رہے کیا وہ رخصت پر تھے یا اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے۔ اب پارٹی کو بھی طے کرنا ہے کہ وزیراعظم کی علالت کے باعث کوئی تو متبادل ہونا چاہئے۔ ابھی تک تو مفروضوں پر کام چلایا جاتا رہا ہے۔ گزشتہ روز وزیراعظم صحت یاب ہوکر وطن واپس آچکے ہیںمگر کیا ان کی صحت ان کو اپنے فرائض انجام دینے کی اجازت دے گی۔ اس صورتحال میں پارٹی کی متبادل قیادت کا ہونا ضروری ہے۔ اس وقت بظاہر مقابلہ پارٹی کے اندر ہی ہے۔
اس وقت افغانستان کی طرف سے پاکستان کی سرحدوں پر زمانہ جنگ کی سی کیفیت ہے۔ پاکستان کی سرحدوں کے بارے میں حلیف اور دوست جو بیان دیتے نظر آ رہے ہیں وہ قابل فکر ہیں۔ اس سلسلہ میں اسمبلی کے اندر سے معاملہ فہمی ضروری ہے مگر حکومت کے بااثر لوگ اندرون ملک سیاست کی آگ کو اپنے بیانوں سے مزید بھڑکا رہے ہیں اور اصل مسئلہ یہ ہے کہ کسی بھی طریقہ سے کرپشن کے معاملہ میں گرفت نہ ہو۔ جمہوریت نے سیاسی اشرافیہ اور نوکر شاہی کو طاقت ضرور دی ہے مگر کرپشن، بدعملی، بدانتظامی نے ملکی ترقی میں بندش لگا دی ہے۔ ایسے میں لوگ کرپشن کے خاتمے، دہشت گردی کے مقابلے کے لئے کبھی اعلیٰ عدالت کی طرف دیکھتے ہیں اور کبھی عسکری اداروں کی طرف کہ ان کا کوئی عمل ملک کے عوام کی تقدیر بدل دے۔ ملک پر قرضوں کے بوجھ نے پاکستان کی معیشت کو کمزور کر رکھا ہے۔ عوام مسلسل مایوسی کا شکار ہیں۔ بے رحم احتساب ہی ملک کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ ایسا کب ممکن ہو گا ملک کے مستقبل کے لئے اس سوال کا جواب از حد ضروری ہے مگر یہ جواب کون دے گا؟
تازہ ترین