لندن (جنگ نیوز) لندن کے پہلے پاکستان نژاد مسلم میئر صادق خان نے ریکارڈ تیسری بار میئر کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی ہے۔ گذشتہ روز انہیں جو بدترین خوف ہو سکتا تھا وہ پورا نہیں ہوا۔ ہرچند کہ لندن کے مضافاتی علاقوں میں ٹوری یعنی کنزرویٹو کا زور بڑھا تھا تاہم انھوں نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔صادق خان کی جیت کا مارجن 275,000 ووٹوں کا تھا اور انھیں کل ووٹ کا 44 فیصد حصہ ملا ہے جو کہ 2016 میں پہلی بار حاصل کردہ کامیابی کے برابر رہا۔ بی بی سی کی اسپیشل رپورٹ کے مطابق تاہم اس جیت کے باوجود ان کی فتح کی تقریر میں تلخی تھی، جس میں انھوں نے اپنے ٹوری مخالف کی مسلسل بے روک ٹوک منفی مہم کی مذمت کی۔ ایسا لگتا ہے کہ اس منفی مہم کا الٹا اثر پڑا ہے۔ اس انتخاب کے بارے میں لندن کے بعض میڈیا کی جانب سے یہ تنقید کی گئی کہ یہ بے جان انتخاب ہے اور اس میں کوئی جوش و خروش نہیں لیکن بظاہر ایسا لگتا ہے کہ صادق خان کی سیفٹی فرسٹ حکمت عملی کام کر گئی۔ جہاں ایک طرف ان کے محفوظ، منصفانہ اور سرسبز دارالحکومت کے وعدے نے ان کے اپنے حامیوں کو ووٹ ڈالنے کی جانب راغب کیا، وہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ گرین اور لبرل ڈیموکریٹ ووٹروں کو بھی اپنی حمایت میں راغب کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ لگتا ہے لوگوں نے اپنے جھکاؤ کے برخلاف لیبر پارٹی کے امیدوار صادق خان کو ووٹ کیا۔ جنوب مغربی لندن میں یہ واضح طور پر نظر آیا جہاں لب ڈیمز نے اپنی پہلی حلقہ اسمبلی کی نشست جیتی لیکن صادق خان نے آرام سے مز ہال کو ووٹوں کے معاملے میں پیچھے چھوڑ دیا۔ واضح رہے کہ سوزین ہال کنزویٹو پارٹی کی امیدوار تھیں اور پہلے کے مقابلے میں اس پارٹی کو دو فیصد کم ووٹ ملے۔ ایک مہم کے بعد لیبر کیمپ میں راحت تھی کیونکہ صادق خان کے لئے اپنے ریکارڈ کا دفاع کرنا آسان نہیں تھا۔ پولنگ کے دن سے ایک ہفتے قبل شائع ہونے والے سرکاری اعداد و شمار میں بتایا گيا تھا کہ گذشتہ سال دارالحکومت لندن میں چاقو کے حملے والے جرائم میں20فیصد اضافہ ہوا ہے جب کہ آٹھ برسوں میں بھی اس میں خاطر خواہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ پھر پولنگ کے دن سے48 گھنٹےپہلے ہینالٹ میں تلوار کے حملے میں ہلاک ہونے والے 14 سالہ ڈینیئل اینجورین کی موت پر بڑے پیمانے پر غم و غصہ تھا۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس واقعے کا الیکشن پر اثر پڑ سکتا ہے۔ زیادہ محفوظ شہر کے علاوہ دوسرے وعدوں میں صادق خان نے رواں دہائی کے آخر تک40,000 نئے کونسل گھر تعمیر کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ یہ وعدہ اگلے چار سالہ میئر کی مدت کے اختتام تک ہی محدود نہیں ہے۔ ان کی مرکزی خوردہ پیشکش کے ساتھ ایک بڑی قیمت کا ٹیگ لگا ہوا ہے۔ حکومت پہلے ہی پرائمری سکول کے زیادہ تر طلبہ کے مفت سکول لنچ کے لئے فنڈز فراہم کرتی ہے لیکن صادق خان کی جانب سے اس میں سات سے11 سال کی عمر کے بچوں کے شامل کرنے سے اخراجات میں مزید اضافہ ہوگا اور اگلے چار سال میں اس پر تقریباً ایک ارب برطانوی پاؤنڈ کا خرچ آئے گا۔ انھوں نے رواں سال بہت سے ٹرانسپورٹ کرایوں کو منجمد کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے حالانکہ اس کو آگے جاری رکھنے کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔ رائے دہندگان نے بظاہر ان کے مخالفین کی اس کوشش کو مسترد کر دیا کہ قبل از وقت انتخابات ان کی ایک غیر ذمہ دارانہ چال تھی۔ صادق خان کی جیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ انھوں نے اپنے میئر کے عہدے کے دوران اٹھنے والے اب تک کے سب سے بڑے تنازع کو کامیابی سے نمٹا دیا۔ دراصل مخصوص علاقوں میں آلودگی کا باعث بننے والے ڈرائیورز سے جرمانے وصول کئے جا رہے تھے۔ یولیز مخالف علاقوں بیکسلے اور بروملے میں بھی مز ہال کو شکست کا سامنا رہا۔ ایک سال پہلے میئر صادق نے ایک کتاب شائع کی، جس میں انھوں نے ماحولیات اور لندن کی ہوا کو صاف کرنے پر اپنی توجہ مرکوز کرنے کی بات کہی تھی۔ گذشتہ سال نیویارک میں اقوام متحدہ کی آب و ہوا کی کانفرنس میں شرکت کے دوران انھوں نے کہا تھا کہ وہ لوگوں کو کاربن کے اخراج کے بارے میں بتا رہے ہیں اور وہ انھیں2030 تک بالکل صفر کاربن کے اخراج کے سفر پر اپنے ساتھ لے جا رہے ہیں۔ تب ایسا لگا تھا جیسے ٹریفک کی بھیڑ، ہوا کے معیار اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنا ان کے تیسری مدت کے لئے ریڈیکل وژن ہو سکتا ہے۔ماحولیاتی گروپوں نے صادق خان کی جیت کو صاف ہوا کی فتح قرار دیا۔1970 میں لندن میں پیدا ہونے والے صادق خان کے والدین پاکستان سے نقل مکانی کر کے برطانیہ آئے تھے۔ ان کے والد لندن میں بس ڈرائیور تھے اور ان کی ابتدائی پرورش کونسل کی جانب سے فراہم کردہ فلیٹ میں ہوئی تھی۔ صادق خان نے ایک عام سرکاری سکول میں اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد وکالت کی ڈگری حاصل کی۔ ڈگری حاصل کر کے وہ انسانی حقوق کے وکیل بنے اور لندن کی میٹروپولیٹن کے خلاف نسلی تعصب کے مقدمات کی پیروی کرتے رہے۔ نیشن آف اسلام نامی تنظیم کے لوئس فرح خان پر پابندی ہٹائے جانے میں بھی انھوں نے اہم کردار ادا کیا۔ اپنی سیاسی زندگی کا آغاز انھوں نے 2005 لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر جنوبی لندن کے علاقے ٹوٹنگ سے انتخاب میں حصہ لے کر کیا۔ انتخاب میں کامیابی حاصل کر کے وہ جلد ہی برطانوی دارالعوام میں قائد ایوان جیک سٹرا کے پارلیمانی پرائیویٹ سیکرٹری مقرر ہو گئے۔ وہ برطانوی پارلیمان میں ’فرنٹ روز‘ یا حزب اقتدار کی پہلی نشستوں پر بیٹھنے والے پہلے مسلمان رکن پارلیمان تھے۔ انھوں نے یہ اعزاز لوکل گورنمنٹ اور ڈپارٹمنٹ آف کمیونیٹز کے وزیر کے طور پر حاصل کیا۔