غزہ میں جاری جنگ کو چھے ماہ مکمل ہو چُکے ہیں۔ سات اکتوبر دو ہزار تئیس کو علی الصباح حماس کے چند جنگجو اسرائیل میں داخل ہوئے اور اچانک حملوں میں سیکڑوں افراد کو نشانہ بنا ڈالا۔ نہ صرف سیکڑوں افراد کو نشانہ بنایا، بلکہ سیکڑوں افراد یرغمال بھی بنائے گئے۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ’’یہ حماس سمیت پانچ مسلّح گروہوں کی اجتماعی کارروائی تھی اوران حملوں میں ملوث یہ پانچ گروہ 2020ء سے فوجی طرز کی مشقوں میں حصّہ لے کر تربیت حاصل کر رہے تھے۔
اِن مسلح گروہوں نے2020 ء کے بعد سے غزہ میں اِس نوعیت کی فرضی مشترکہ مشقیں کیں، جو کہ اسرائیل پر سات اکتوبر کو ہونے والے حملوں میں اپنائی گئی تیکنیک سے بہت مشابہت رکھتی تھیں۔ اِن میں تربیتی مراحل میں یرغمال بنائے جانے، کمپاؤنڈز پر چھاپے مارنے اور اسرائیل کے دفاع کی خلاف ورزی کی فرضی مشقیں بھی شامل تھیں اور اِن میں سے آخری مشق حملے سے صرف 25 دن پہلے کی گئی تھی۔‘‘ بی بی سی عربی اور بی بی سی ویریفائی نے ایسے شواہد بھی جمع کیے، جن سے پتا چلتا ہےکہ کس طرح حماس نےغزہ کے مختلف مسلّح گروہوں کوجنگی حربے بہتر بنانے کے غرض سے ایک جگہ جمع کیا اور بالآخر ایک ایسا حملہ ہوا، جس سے خطّہ جنگ کی لپیٹ میں آگیا۔
بہرکیف، جواب میں اسرائیل نے غزہ کی آدھی سے زیادہ آبادی کو نشانہ بناتے ہوئے نہ صرف غزہ کو ہول ناک تباہی و بربادی سے دوچار کیا، بلکہ اب وہاں قتل و غارت گری کے ساتھ شدید قحط کی صورتِ حال بھی درپیش ہے۔ ننگی جارحیت و بربریت، بے سرو سامانی، بھوک و افلاس اور متعدّد بیماریوں کی شکار یہ مظلوم وبےکس مسلمان آبادی رمضان کے مقدّس مہینے میں بھی اسرائیلی حملوں کا مسلسل نشانہ بنتی رہی۔
اسرائیلی موقف کےمطابق، جب تک حماس تمام اغوا شدہ باشندوں کو رِہا نہیں کر دیتا، جنگ بندی کی کوئی صُورت ممکن ہی نہیں اور اِسی موقف کے ساتھ اسرائیل غزہ کی پٹّی پر موجود شہروں اور قصبوں کو مستقلاً انتہائی بہیمانہ طریقے سے تباہ و برباد کیے جا رہا ہے۔ نتیجتاً غزہ کے تباہ شدہ علاقوں سے لاکھوں پناہ گزین غزہ پٹّی سے منسلک، قریب ترین شہر، رفاہ آکرکُھلے آسمان تلے زندگی کے دن گزارنے پر مجبور ہوچُکے ہیں۔ گرچہ بظاہر دنیا بَھر کے ممالک، خاص طور پر عوام النّاس، اسرائیلی حملوں کی مسلسل مذمّت کررہے ہیں۔ اِس ضمن میں عام لوگوں کی جانب سے تاریخ ساز مظاہرے بھی کیےگئے، جب کہ عمومی طور پر مسلم اُمّہ سمیت، طاقت وَرحُکم رانوں کا روّیہ بہت حدتک بےحسی و مفاد پرستی ہی کا شکار رہا۔
یہاں تک کہ سلامتی کاؤنسل میں جنگ بندی کی قرارداد کئی بار ویٹو ہونے کے بعد، بالآخر سخت عوامی دباؤ کے سبب بڑی تگ و دو کے بعد ہی منظور ہوسکی، لیکن… اس سب کے باوجود تادمِ تحریر اسرائیل کی بدمعاشی اور ہٹ دَھرمی پورے جوبن پر ہے۔ رمضان المبارک جیسے مقدّس مہینے میں بھی دہشت گردی کی کارروائیاں، خوف ناک اسرائیلی حملے روکے نہ جا سکے۔ پورا مہینہ روزے داروں کی شہادتیں ہوتی رہیں۔
لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں اُٹھاتے، دفناتے رہے۔ بے گناہ، نہتّے افراد، خصوصاً معصوم بچّوں، خواتین کا قتلِ عام جاری رہا۔ بے سروسامان اوربے یار و مددگار بیش تر مظلوم فلسطینیوں نے عیدالفطر بھی کیمپس، اپنے تباہ حال گھروں کے ملبے یا قبرستانوں میں اپنے پیاروں کی قبروں پر روتے، آنسو بہاتے منائی۔ دورانِ رمضان پاکستان میں بھی چند اکّا دُکّا مظاہروں کے، کوئی بڑاردِعمل دیکھنےمیں نہیں آیا۔ میڈیا پر بھی رمضان ٹرانس میشنز میں بس روایتی طور ہی پرغزہ کا ذکر کیا جاتا رہا، یا پھر سرکاری سطح پر وقتاً فوقتاً مذمّتی بیانات جاری کیے جاتے رہے۔
اب عالم یہ ہےکہ محصور علاقوں میں صُورتِ حال بدترین ہوچُکی ہے۔ اموات کی تعداد چالیس ہزار سے تجاوز کر گئی ہے، جو کہ ماضی میں کسی بھی دو مُلکوں کے درمیان ہونے والی جنگ کے اعداد وشمار سےبہت زیادہ ہے۔ غزہ تک امداد لےجانے والے قافلے تک محفوظ نہیں ہیں۔ ایک عالمی امدادی تنظیم ’’ورلڈ سینٹرل کچن‘‘(عالمی مرکزی باورچی خانہ)کے کارکنان بھی اسرائیلی حملوں کا شکار ہوچُکے ہیں۔
جب کہ فلسطینی امدادی کارکنان اور صحافیوں کی اموات تو معمول بن چُکی ہیں، لیکن ہنوزعالمی ادارے، اسرائیل کے خلاف کوئی فیصلہ کُن قدم اُٹھانے سے قاصر ہیں، دانستہ گریزکررہے ہیں۔ غالباً تاریخ میں اِس سے قبل طبّی عملے اور صحافیوں نے خُود کو کبھی کسی جنگی علاقے میں اتنا غیرمحفوظ محسوس نہیں کیا ہوگا، جتنا کہ اب اسرائیل کی دیدہ دلیری کے سبب کیا جا رہا ہے۔
حتیٰ کہ امریکا اور یورپ کے مغربی ممالک کے ساتھ عرب اور دیگر اسلامی ممالک بھی مستقلاً گومگو کی کیفیت کا شکار ہیں۔ وہ بار بار’’دو طرفہ جنگ بندی‘‘ کی بات کررہے ہیں، جب کہ اب تو اِس حقیقت میں کوئی شائبہ ہی نہیں رہ گیا کہ یہ سوفی صد یک طرفہ جنگ ہے۔ امریکا، فلسطینی ریاست کےقیام کو اسرائیل کے ساتھ ’’مذاکرات‘‘ سے مشروط کرتا ہے، جب کہ فلسطینی، اقوامِ متحدہ سے اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ انہیں ایک ریاست کا درجہ دے کر اقوامِ متحدہ کا رکن بنا لیا جائے، لیکن اس امر پر بھی اسرائیل کے رویّے میں کسی تبدیلی کا امکان نہیں ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن اور اسرائیلی وزیرِاعظم نتین یاہو تقریباً ایک سی زبان بول رہے ہیں۔ حالاں کہ اس طور دونوں نے خُود کو دنیا کے سامنے بُری طرح ایکسپوز کردیا ہے۔ اب اِن ممالک نے جو جو نام نہاد لبادے اوڑھ رکھے تھے، اپنے چہروں پرجوخول اور ماسک چڑھا رکھے تھے، وہ سب چاک، عریاں ہوگئے ہیں۔ مثلاً آج تک ترقی یافتہ، جمہوریت پسند، لبرل، روشن خیال، جدیدیت کے حامی اور سیکولر ہونے کے جو دعوے کیے جاتے رہے ہیں، وہ سب کھوکھلے اور بودے ثابت ہوئے ہیں۔
اسرائیل کی بہیمانہ دہشت گردی، کُھلی جارحیت، سفّاکیت و بربریت اور نام نہاد ترقی یافتہ ممالک کی، اُس کےتمام ترمظالم کی حمایت نے اُن تمام الفاظ کو معنی سےمحروم کردیا ہے، جو ماضی میں فخریہ خُود سے مشروط کیے جاتے رہے۔ ان سے وابستہ وہ سب اصطلاحیں، جو کبھی قابلِ قدر تھیں، اب اپنی اہمیت کھوچُکی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ اسرائیل، امریکا اور دیگر مغربی ممالک نے اب ’’انسانیت‘‘ اور ’’جمہوریت پسندی‘‘ کے نام پر کیے جانے والے اپنے تمام دعووں پر محض ’’ڈرامے بازی‘‘ کی سیاہی پھیر دی ہے۔
پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کی بہت باتیں کرتے ہیں۔ اِس ضمن میں ترقی یافتہ ممالک کی مثالیں پیش کرتے نہیں تھکتے۔ ہمارے کچھ صاحبانِ علم تو ایسی ترقی کو اکسیر، جادو ٹونے کی طرح پیش کرتے ہیں کہ جن کے ذریعے ہمارے تمام تر دیرینہ مسائل گویا چُٹکیوں میں حل ہوسکتے ہیں۔ وہ اس بات کو سمجھتے نہیں یا سمجھتے ہیں تو اعتراف نہیں کرتے کہ اِس طرح کی ترقی کبھی بھی کسی معاشرے کو خُود بخود مہذّب اور انسان دوست نہیں بنا سکتی اور یہی بات امریکا، اسرائیل اوردیگر مغربی ممالک آج تک ثابت کرتے آرہے ہیں۔
اِسی طرح جب جمہوریت کی بات کی جاتی ہے، تو اسرائیل، امریکا اور دیگر مغربی ممالک اس پر خُوب فخر سے سینہ پُھلاتے ہیں کہ وہ کسی آمرانہ حکومت کے زیرِ تسلط نہیں ہیں کہ جس سے عمومی مغربی ممالک سخت نفرت کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکا کی مداخلت افغانستان میں ہو یا عراق میں، شام میں ہو یا لیبیا میں یا اور کسی مُلک میں یا روس کی جنگ یوکرین میں، یہ سب ثابت کرتی ہیں کہ جمہوریت اور آمریت اُتنی ہی اچھی ہوسکتی ہیں، جتنا اچھا ہونے کا یہ سب ممالک ڈھکوسلا کرسکتے ہیں۔
اسرائیل میں کُلی ’’جمہوریت‘‘ کا نفاذ ہے یعنی وہاں متواتر انتخابات ہوتے ہیں اور وہاں کی پارلیمان مکمل طور پر آزاد ہے، لیکن ایسی جمہوریت کا کیا فائدہ، جو اپنی حکومتوں کو ایسے سنگین جرائم سے نہ روک سکے، جو کوئی آمرانہ حکومت بھی کرسکتی ہے۔ پھر اسرائیل، امریکا اور دیگر زیادہ تر مغربی ممالک ’’لبرل‘‘ اقدار کےپیروکار ہیں۔ یورپ نے صدیوں سے لبرل اقدار کواپنے طرزِحُکم رانی کا خاصّہ سمجھ رکھا ہے، جو بظاہر اچھی بات ہے اور انہی اقدار کو وہ افریقا، ایشیا اور لاطینی امریکا کے ممالک میں رواج دینا چاہتا ہے۔
اِن ہی اقدار میں انسانی حقوق کی پاس داری ایک اہم ترین قدر ہے، تو پھر یہ کیسا دوغلا پن، دہرا معیار ہے کہ ایک طرف تو یہی مغربی ممالک چین اور روس میں انسانی حقوق کی پامالی کا رونا روتے رہتے ہیں، تو دوسری جانب بڑی آسانی سے اپنے اتحادی، اسرائیل کی انسانی حقوق کی نہ صرف پامالی بلکہ کُشت و خون سے بھی بآسانی صرفِ نظر کر لیتے ہیں۔
ننگی، کُھلی جارحیت وبربریت، سفاکیت کویک جنبشِ قلم اسرائیل کا ’’حقِ دفاع‘‘ قرار دےدیتے ہیں۔ لیکن حقِ دفاع کی یہی منطق اُن دیگر ممالک پر لاگو نہیں کرتے، جو مغربی ایجنڈے کی لبرل اقدار کے داعی نہ ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ اسرائیل اور امریکا نے غزہ کے معاملے پر جس بے حسی و بے ضمیری کا مظاہرہ کیا ہے، اُس نے اب اُن کے ’’روشن خیالی‘‘ کے بیانیے کو ملیامیٹ کر کے رکھ دیا ہے۔
راقم سمیت بہت سے لوگ ’’روشن خیالی‘‘ کے عَلم بردار ہیں، کیوں کہ پاکستان جیسے معاشروں میں قدامت پرستی اور دقیانوسی سوچ سے بچنے کا یہی ایک راستہ نظرآتا ہے۔ بہت سے لکھاری بھی انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے روشن خیالی ہی کا نسخہ تجویز کرتے ہیں، جو بہت حد تک سُودمند بھی ثابت ہوتا ہے اور ممکنہ طور پر معاشرے میں بڑھتی ہوئی بنیاد پرستی، انتہا پسندی سے بچاتا بھی ہے، لیکن آج ہمیں اِسی ’’روشن خیالی‘‘ کی وکالت کرتے ہوئے سخت مشکل پیش آرہی ہے کہ وہ ممالک، جو حقیقتاً اس’’روشن خیالی‘‘ کے دعوے دار ہیں، دراصل نہ صرف خُود انتہائی پست ذہنیت کے حامل ہیں بلکہ ہم جیسے مُلکوں میں قدامت پسندی اور بنیاد پرستی کو ہوا بھی دیتے رہے ہیں۔
اِسی طرح ایک اور اصطلاح ’’جدیدیت‘‘ بھی ہے، جو دانش وَری کے دعوے دار حلقوں میں خُوب کروفر سے استعمال ہوتی ہے۔ شاید یہ بات درست ہے کہ جدیدیت ہی ایک ممکنہ راستہ ہے، جو ہم جیسے پس ماندہ معاشروں میں نئی سوچ، تازہ ہوا، روشنی کو داخلے کی اجازت دے سکتا ہے، لیکن پھر وہ ہی سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ اسرائیل، امریکا اور دیگر مغربی ممالک سب جدید، ماڈرن ممالک میں شمار ہوتے ہیں، تو پھر جب یہ ’’جدید، ترقی یافتہ ممالک‘‘ دیگر چھوٹے، کم زور مُلکوں میں قتل و غارت گری کرتے ہیں، تو بھلا اپنی جدیدیت کا دفاع کیسے کرسکتےہیں؟ اور پھر ایسی جدیدیت کا فائدہ بھی کیا، جو آپ کو جنگی جرائم سے نہ روک سکے۔ آپ انسانیت کےخلاف بدترین حملوں کے موجب ہوں۔
جدیدیت کے اہم ترین نکات کو تو خود جدید ممالک نے تہہ و بالا کیا ہے اور غزہ اس کی بدترین مثال ہے۔ قوانین اور اخلاقیات کی آفاقیت کو جدیدیت کا ایک پہلو سمجھا جاتا ہے۔ جب کہ آج اسرائیل نے اور اِس سے قبل کئی مغربی ممالک نے بین الاقوامی قوانین اور اخلاقیات کی بارہا دھجیاں بکھیری ہیں۔ اپنے نام نہاد انتقام کی آگ میں سارے قوانین اور اخلاقیات جھونکی جاتی رہی ہیں۔ اور آج فلسطینیوں سے انتقام کے طور پر بھی یہی کیا جارہا ہے۔
دنیا کا کوئی قانون بےگناہ، مظلوم شہریوں کے قتلِ عام کی اجازت نہیں دیتا۔ نہ ہی بچّوں، بوڑھوں اور خواتین پر ظلم و ستم کی کوئی گنجائش جدید دنیا میں ہونی چاہیے۔ اخلاقی طور پر کسی بلی کے بچّے کو بھی مرنے کے لیے نہیں چھوڑا جاسکتا، لیکن غزہ کے میدانِ جنگ میں ہزاروں بچّے اور خواتین انتہائی بے رحمی و بےدردی سے قتل کیے جارہے ہیں۔ کیا اب اس المیے کے بعد دنیا میں جدیدیت کی ترویج ممکن ہے۔
قومی ریاستوں کا قیام جدیدیت کا خاصّہ رہا ہے۔ اِسے ہمیشہ سےسیاسی و سماجی احترام حاصل ہے اور ساتھ ہی رواداری اور سماجی ہم آہنگی بھی جدید معاشروں کی خاصیت سمجھی جاتی ہے اور بڑی حد تک ایسا ہے بھی۔ لیکن پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل اور کئی دیگر قومی ریاستوں نے اپنی ریاست کی تعمیر و ترقی کے لیے لاشوں کے انبار بھی لگائے ہیں اور دنیا پر بےجا جنگیں مسلّط کی ہیں۔
جو لوگ صدیوں سے اپنے اپنے علاقوں میں آباد تھے، اُنہیں لاکھوں کی تعداد میں بےگھری پر مجبور کر دیا گیا۔ جب دنیا اِس طرح کی بربریت سے صرفِ نظر کرلے، تو وہ درحقیقت اس طرح کے رویّوں کی خاموش حمایت کررہی ہوتی ہےاورپھر دیگر مقامات پربھی اس بربریت کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔
اسرائیل اور دیگر مغربی ممالک نے ایسی بےشمار مثالیں قائم کی ہیں، جن سے پھر دیگر ممالک فائدہ اُٹھا کر ایسی ہی بربریت کے جواز پیش کرتے ہیں، کیوں کہ اِس طرح کے جرائم کا ارتکاب کرنے والے یا اِن پر خاموش رہنے والے خُود اس بات کا جواز کھو بیٹھتے ہیں کہ وہ دیگر ممالک کو بربریت سے باز رہنے کی تلقین کریں۔ صنعت کاری بھی جدیدیت کا ایک اہم حصّہ رہی ہے اور تقریباً تمام ممالک صنعتی طور پر خُود کو آگے لانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، حتیٰ کہ اگر کوئی کہیں بے لگام صنعت کاری پر سوال اُٹھائے، تو اُسے قدامت پرست گردانا جاتا ہے۔
اِسی صنعت کاری کےنام پرانسانی آبادیوں، ثقافت اور طرزِ بودوباش سب کو تلپٹ بھی کیا جاتا رہا ہے۔ اسرائیل، امریکا اور روس ہر لحاظ سے صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک ہیں، مگر اِن کی صنعت کاری کی ہوس نےانسانیت کوبہت نقصان بھی پہنچایا ہے۔ اِسی سبب صنعتی طور پر پس ماندہ ممالک مثلاً افغانستان، عراق، غزہ کی پٹّی یا پھر نسبتاً صنعتی طور پر کم ترقی یافتہ یوکرین… سب نے ظلم سہے ہیں۔ اس پر محض یہ مصرع لگا کر جواز پیش نہیں کیا جاسکتا کہ ؎ ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مُفاجات۔ اِسی طرح سرمایہ داری کا ارتقا اور کاروباری طبقے یا مرکنٹائل کلاس کا فروغ بھی جدیدیت کے دو اہم ستون رہے ہیں۔
اسرائیل نےجان بوجھ کراپنے مقبوضہ علاقوں میں فلسطینیوں کے انجیر اور زیتون کے باغات تباہ کیے اور اُن کی کاروباری صلاحیت کو نیست و نابود کرکے رکھ دیا ہے۔ سرمایہ داری خُود اسرائیل میں خُوب پنپ رہی ہے،اس کا کاروباری یا مرکنٹائل طبقہ بھی خُوب پَھل پھول رہا ہے، مگر اُس نے غزہ کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ یہ ایک بدترین کلونیل طریقۂ کار ہے، جس کی مثال پرانی کلونیل ریاستوں میں بھی مشکل سے ملے گی۔
ان تمام گزارشات کا مطلب یہ نہیں لینا چاہیے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی، جمہوریت، روشن خیالی، انسانی حقوق، صنعتی ارتقاء، لبرل اقدار یا جدیدیت اور اِس سے منسلک دیگر باتیں منفی یا نقصان دہ ہیں۔ یہ سب اچھی اصطلاحات، مثبت خیالات ہیں، جن پر پیش رفت تمام معاشروں کو کرنی چاہیے۔ لیکن یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ اِن کی آڑ میں خُود ان کے خلاف حرکات کی مذمّت بھی ضرور کرنی چاہیے۔ ظلم و ستم کوئی، کہیں بھی کرے، اُس کے خلاف آواز ہی نہیں، زوردار چیخ بلند ہونی چاہیے۔
ترقی یافتہ ممالک کی حرکتوں اور وارداتوں سے صرف اِس لیے صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا کہ اُن کا پریس آزاد ہے، وہاں سماجی گھٹن نہیں یا وہ جدیدیت کے عَلم بردار ہیں یا پھر اُنہوں نے بےشمار نوبیل انعامات جیتے ہوئے ہیں۔ غزہ کی تباہی اور فلسطینیوں کے قتلِ عام کے ساتھ اسرائیل اور اس کے اتحادیوں نے جمہوریت، انسانی حقوق اور رواداری کے بیانیے کو عالمی طور پر شدید نقصان پہنچایا ہے ۔ اسے’’ضمنی نقصان‘‘ قرار دے کر اِس کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا۔ یاد رکھیں، جب دنیا اسرائیل کی دہشت گردی کو نظر انداز کرتی ہے تو وہ دراصل دنیا بھر میں دہشت گردی کی خاموش حوصلہ افزائی کرتی ہے۔