• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فکر فردا … راجہ اکبرداد خان
پچھلے دو سال کی پاکستانی سیاست میں اکابرین اکثر یہ کہتے سنے گئے کہ ملک کو جلداز جلد ترقی کی تیز رفتار ٹرین پر بٹھا کر ملک کے چاروں کونوں کی طرف روانہ کرنا ہے اور اس کارخیر میں میں عوامی نمائندوں کو ہراول دستے کا کام کرنا ہے۔ اسے نااہلی کہہ لیجئے یا اپنے آپ کو دھوکہ، ملکی ترقی اور استحکام سے بھری یہ ٹرین اپنے مرکزی مقام سے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکی۔ حکومتی سیاستدانوں ، انکے ہمنوا بیوروکریٹس اور عوام کے ایک طبقہ کیلئے ’’گومگو‘‘ کا یہ عالم نمائش کیلئے سودمند تو ہے مگر "Tangible Progress" کسی بھی سمت نظر نہیں آرہی ۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس خلا کو پر کرے۔ پچھلے دو سال سے ملک شدید تقسیم کا شکار ہے اور اس حقیقت کو تسلیم بھی ہرطرف کیا جا رہا ہے۔ صدارتی خطابات ہوں، قومی اور صوبائی انتخابات کی بات ہو، میڈیا میں آئے دن بحث و مباحثے ملک کے اندر ہونیوالی پریس کانفرنسز اور تمام اخبارات کے اداریے بھی ایک اسی نقطہ کے گرد گھوم رہے ہیں کہ ملک کو اس ’’بھنور ‘‘ سے کس طرح باہر نکالا جائے تاکہ ترقی کا رکا ہوا سفر پھر معاشی ترقی سے بھری اس ٹرین کی ڈرائیور حکومت ہے جو بظاہر ہر کچھ کر پانے کی اہل نظر نہیں آتی۔یہ ٹرین جسے عوامی حمایت حاصل ہے آخر سگنل دے کر آگے سفر پر روانہ کیوں نہیں ہو رہی؟ اعلیٰ ترین عہدوں پر براجمان ہستیاں جن کے پاس ٹرین انج کی چابیاں ہیں وہ اپنے قومی فرائض نبھاتے ہوئے اس ٹرین کو روانہ کیوں نہیں کر رہے؟ یا انہیں اس سفر میں شامل کرنے کیلئے ایک طبقہ کے اہم مسافروں کی آمد کا انتظار ہے۔ کئی ایسے مسافر جیلوں میں بند ہیں، اگر ترقی کی یہ ٹرین پی ٹی آئی کے قائدین اور ورکرز کے بغیر روانہ نہیں ہو سکتی تو یہ ثابت ہو رہا ہے کہ پی ٹی آئی قیادت سے اعلیٰ ترین سطح پر بات چیت کرنا ایک قومی فریضہ ہے۔ ملک کے اندر سیاسی تقسیم کی ایک مثال پی ٹی آئی چیف کا وہ بیانیہ بھی ہے جو برطانیہ کے ایک معتبر انگریزی اخبار The Telegraph میں 2مئی کو شائع ہوا ہے۔ اس طویل مضمون میں دوسری کئی اہم باتوں کے علاوہ عمران خان نے اپنی حکومت گرائے جانے کا ذکر اور حالیہ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات دہرائے ہیں۔ اگر ترقی کا یہ سفر ادیالہ جیل میں قیدی 804کے بغیر شروع نہیں ہو پارہا تو ریاست کو قومی مفاد میں اس اہم قیدی کو حفاظتی انتظامات کے تحت گفت و شنید کیلئے ’’پیرول‘‘ پر رہا کرنا چاہئے تاکہ وہ اپنی جماعت کے مرکزی قائدین سے ملکر ملک کو ’’قومی مفاد‘‘ بیانیہ پر متفق کرکے گفت و شنید کیلئے تیار کر سکے۔ پیرول پر عمران خان کی رہائی اچھا سگنل ہوگا اور واضع ہو جا ئے گا کہ ریاست پی ٹی آئی کو بحیثیت ایک مقبول سیاسی جماعت کے تسلیم اور برداشت کرنے کوتیار ہے۔ جب مقتدر حلقے اور ملک کے دیگر سیاسی قائدین یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی ایک بڑی سیاسی جماعت ہے تو ان پر لازم ہو جاتا ہے کہ اس جماعت کو لیول پلیئنگ فیلڈ بھی مہیا کریں ورنہ لوگ بھٹک جائیں گے جو قومی مفاد میں نہ ہوگا۔ اسی مضمون میں پی ٹی آئی چیف نے ملک کو درپیش اقتصادی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے آئی ایم ایف کا ذکر بھی کیا ہے اور کہا ہے کہ ایسے اقدامات سے ملکی معیشت بہتر نہیں ہو سکے گی۔ خان کو درپیش سناریو پر انکا تبصرہ یہ ہے کہ انہیں قتل کر دیا جائے گا۔ مگر انہیں موت سے کوئی خوف نہیں ہے۔ خان آگے چل کر ملک کو درپیش دہشت گردی کاذکر بھی کرتے ہیں اور اس شبہ کا اظہارکرتے ہیں کہ حکومت اڈے مانگنے پر شاید امریکہ کو یہ سہولت مہیا کر دے۔ پی ٹی آئی چیف کی یہ تحریر حکومتی اشرافیہ کیلئے ایک پیغام ہونی چاہئے کہ اس اہم مسافر کو ’’ملکی مفاد‘‘ کی ٹرین پر ایڈجسٹ کر لینا پاکستان کے مفاد میں ہے۔ یقیناً اس سفر میں پی ٹی آئی ٹبر کے لئے جگہ ہے۔ تبھی اس ترقی ٹرین کی روا نگی میں دیر ہو رہی ہے ۔ جن اہم شخصیات نے ٹرین روانگی کا سگنل دینا ہے ان میں اتفاق رائے پیدا نہیں ہو رہا؟ یا یہ سوچا جا رہا ہے کہ اس مسافر کے بغیر ہی ٹرین نے روانہ ہونا ہے؟ چند غیرملکی کمپنیوں کے انوسٹمنٹ کے ادار ے جہاں ملکی معیشت کیلئے اس حکومت کے اہم فیصلے ہیں وہاں ملک کے اندر سیاسی ہم آہنگی اور ایک دوسرے کیلئے جگہ بنانے کی روایات قائم کرنا بھی اچھی سیاست اور حکمرانی ہے۔ ’’ترقی ٹرین‘‘ کی روانگی پر گزارشات ایک مضبوط اور مستحکم پاکستان میں یقین رکھنے والے پاکستانی کی یہ ایک مختصر تحریر ہے۔ برطانیہ میں آباد پاکستانی،کشمیری کمیونٹی ہر دم اپنے ملک کی سیاست سے جڑے رہتی ہے۔ اہل علم و قلم روزنامہ جنگ لندن میں اپنے خیالات و افکارکے ذریعہ محفل سجائے رکھتے ہیں۔ ایک عجیب ماحول ہے کہ لوگ ملک بھر میں ایک دوسرے کی خیریت جاننےکے بعد دوسرا جملہ کچھ اس طرح کا کہتے ہیں کہ عمران خان اور حکومت کے درمیان دوریاں کم ہو رہی ہیں یا نہیں؟۔
یورپ سے سے مزید