• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دکن برٹش کمیونٹی کے زیراہتمام شاندار عید ملن تقریب

برمنگھم (پ ر) دکن برٹش کمیونٹی کے زیراہتمام کلوش ہل کونسل، کلوش ہل کمیونٹی ہال میں حیدرآبادیوں کی شاندار عید ملن تقریب منعقد ہوئی۔ تقریب میں دو سو سے زیادہ مہمانوں نے شرکت کی۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی برطانیہ کے معروف عالم دین مولانا محمد عبدالہادی العمری المدنی تھے، بچوں کی تلاوت قرآن حکیم سے اس تقریب کا آغاز ہوا۔ مولانا محمد عبدالہادی العمری نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تلاوت حکیم سے اس تقریب کا آغاز کیا گیا جوکہ ہمارا حقیقی کلچر ہے۔ اس تقریب کے آرگنائزرز مبارکباد کے مستحق ہیں۔ انہوںنے بتایا کہ حیدرآباد کی تاریخی مسجد ’’مکہ مسجد‘‘ میں حفظ قرآن کا مدرسہ تھا اور جو بھی بچہ ’’حافظ‘‘ بنتا تو نواب آف حیدرآباد کی طرف سے اس حافظ کو ’’خلعت شاہی‘‘ عطا کیا جاتا، قرآن حکیم کے حافظ کے لئے یہ ایک اعزاز تھا۔ قرآن حکیم کی خدمت کے سلسلہ میں حیدرآباد دکن کا کارنامہ یہ ہے کہ پہلا باقاعدہ قرآن حکیم کا انگریزی ترجمہ ڈاکٹر محمد پکتھال نے کیا۔ حیدرآباد دکن کے ایک اسکالر ڈاکٹر حمید اللہ تھے جو عثمانیہ یونیورسٹی میں قانون کے پروفیسر تھے وہ اعلیٰ تعلیم کے لئے فرانس گئے اور ایک سال میں دو یونیورسٹیوں سے PhD کی ڈگریاںحاصل کیں۔ جرمنی زبان میں اور فرنچ میں بلکہ فرنچ زبان میں انہوں نے قرآن حکیم کا ترجمہ بھی کیا۔ چونکہ عثمانیہ یونیورسٹی میں ڈاکٹری، انجینئرنگ وغیرہ کی اردو زبان میں تعلیم ہوتی تھی اس لئے یونیورسٹی کے احاطہ میں ’’دارالترجمہ‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا تاکہ انگریزی اصطلاحات کو اردو میں منتقل کیا جائےالحمدیہ دنیا کا واحد کارنامہ ہے اور اردو زبان کو اتنا رچ کر دیا گیا کہ وہ انگریزی کے محتاج نہیں ہے۔لندن میں ریجنٹ پارک میں برطانیہ کی سب سے بڑی مسجد نواب میر عثمان علی خان نے بنائی ہے (اور انگلینڈ ووکنگ میں جو مسجد ہے وہ بیگم شاہجہان والیہ بھوپال انڈیا نے تعمیر کرائی ہے)۔ ڈاکٹر عبدالرب ثاقب نے کہا کہ اگر وقت ہوتا تو مولانا محمد عبدالہادی العمری کی’’خوبیوں‘‘ کا تذکرہ کرتے ان میں ایک اہم بات حیدرآبادی ’’برقع‘‘ کی ہے یعنی حیدرآباد دکن کا کلچر ہے، بلااستثنا مسلک خواہ بریلوی ہوں کہ دیوبندی، جماعت اسلامی ہوں، جماعت تبلیغی ، سلفی ہوں کے اہل حدیث بلکہ شیعہ ہوں کہ سنی، سب ہی خواتین برقع کا استعمال کرتی ہیں، یہ وہ اچھی چیزیں ہیں کہ ان پر عمل پیرا رہیں۔ آخر میں مولانا نے کہا کہ اہل حیدرآباد صرف شیروانی، بریانی، بگھارے بیگن اور ڈبل کے میٹھے اور پان تک اپنے آپ کو محدود نہ رکھیں بلکہ وہ بڑے بڑے اور اچھے کام بھی کریں جو حیدرآبادی اکابرین نے کیا ہے۔ مولانا اس تقریب میں خود شیروانی زیب تن کئے ہوئے تھے اور اس دعوت میںبریانی اور دیگر لوازمات بھی موجود تھے۔ ڈاکٹر عبدالرب ثاقب نے چند نظمیں سنائیں اور ’’عید اورفلسطین‘‘ پر بھی اپنی نظم سنائی، جملہ منتظمین اور آرگنائزرز نے بحسن و خوبی 6 بجے سے 11 بجے تک اس تقریب کو دلچسپ بنائے رکھا۔
یورپ سے سے مزید