پاکستانیو! بحیثیت قوم ہماری ملکی موجود مسلسل اور بڑھتی (ہی) حالت زار، اب بغیر مزید کسی مہلت و تاخیر کے اس بہت سنجیدہ غور و خوض کہ اب کیا کیا جائے؟ اور مقررہ اہداف کے ساتھ نتیجہ خیز عملی اقدامات (فیصلوں اور عملدرآمد) کی متقاضی ہے۔ غور کس نے کرنا ہے، نئے اہداف کس نے مقرر کرنے ہیں اور اس پر عملدرآمد کس نے اور کیسے کرنا ہے، ان سوالات کے درست جوابات تک پہنچنا، اور کسی سیاسی و گروہی شخصی اغراض و اَنا سے بالاتر ہو کر خالصتاً قومی سوچ کے ساتھ ان جوابات کو درست مان لینا اور بمطابق حل پر بھی ازسر نو اتفاق ایک بار پھر ہمیںمہلک موجود انتشار سے قومی اتحاد کی راہ پر ڈال دے گا، گویا گرے گڑھے کے کنارے پر ہم مددگار سہارا پکڑنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ چونکہ قیام پاکستان کے اٹل تاریخی حقائق اور بعد از قیام پاکستان، ہم سب کی بڑی قومی دانستہ نادانستہ غلطیوں، کوتاہیوں، قومی جرائم اور گناہوں کی سزا کے طور پر نکلے مہلک نتائج بڑے بڑے حادثات و المیوں (ڈیزاسٹرز) کے بعد اعترافی طاقت سے ہم نے جو اتفاق و اتحاد ازسر نو عملاً تشکیل دیا تھا وہ بفضل خدا تادم موجود ہی نہیں، اتنے گھمبیر ملکی بحران اور ملکی سیاست و حکومت کی بدترین تفرق میں بھی کسی کی (خواہ کتنا ہی دیدہ دلیر ہو) اتنی جرأت و ہمت نہیں کہ اب (سقوط ڈھاکہ) 52 سال بعد بھی اس اتفاق و اتحاد و اشتراک (آئین پاکستان) کا منکر و باغی ہو۔تشریح کا ڈیزاسٹر ’’عدالتیں‘‘ کرتی ہیں اور کر رہی ہیں، اس میں ترمیم اور ترامیم ہوسکتی ہے۔ اس کے برعکس من مانے نظام بد کو عملاً نافذ کرنا کیا ہے؟ اور اس کے کیا نتائج نکلے اور نکل رہے ہیں۔
آئیں! ہوش سنبھالیں، اپنی اَنا کو پاکستان پر قربان کرتے اپنے اپنے محدود دائروں کو توڑ کر نکلیں، نئے جذبے اور اپنے اور آنے والی اپنی نسلوں کیلئے مملکت خدا داد کی اہمیت و حیثیت کو جانتے سمجھتے موجود قومی اتحاد و استحکام کی ضمانت، آئین پاکستان ،جو فقط علامت بن کر رہ گیا ہے،کے ساتھ بدسلوکی کا ارتکاب ریاست چلانے والے کسی ایک بااختیار فریق نے نہیں سب نے کیا ہے جبکہ اس کے تحفظ کی قسم کھائے بغیرکوئی اعلیٰ منصب بااختیار نہیں بنتا اور یہ حساس اختیار سونپنے والے عوام بطور ریاستی شہری اس کے مکمل پابند ہیں، لیکن صورتحال یہ ہے کہ عوام کا یہ جملہ فریق کو بااختیار بنانے کا آئینی حق بھی آئین کی اپنی اپنی تشریح اور خود ہی کو پاکستان کا محب جتلانے، بااختیار مختلف فریقین (بشمول پارلیمان) عشروں سے غصب کئے ہوئے ہیں۔ اسی کا شاخسانہ ہے کہ پاکستان موجود حالت زار میں جکڑا گیا۔ یہاں یہ سمجھنا ہوگا کہ فارسی کی جو مشہور کہاوت محدود معنی کی حامل ہے کہ :’’ خود کردہ را علاجے نیست‘‘ (اپنے کئے کا کوئی علاج نہیں) یہ انفرادی زندگی اور محدود دائرے میں تو درست ہوسکتا ہے، اقوام اگر کفر توڑتے مائل بہ زوال ہو جائیں، تو ریورس میں جا کر کفر اس کا علاج بھی انہی کے ہاتھوں میں ہوتا ہے، جس کی مثالیں قدیم و جدید تاریخ میں بھری پڑی ہیں۔ ترقی و زوال اور پھر باکمال ترقی کی سچی کہانیاں اور آج کے دور میں کیس اسٹڈیز کی کمی نہیں، بہت سیدھا سا حل ہے کہ جو پوٹینشل اقوام ترقی اور اپنا تشخص کھو کر زوال پذیر ہوکر پھر اٹھیں، خود کو سنبھالنے، اٹھنے اور پھر حیران کن ترقی کے جوہر زمانے کو دکھاتیں، بہت واضح سبق دیتی ہیں کہ :زوال کو کمال میں پھر بدلنے کیلئےمن حیث القوم وہ دوبارہ کرو جس سے ترقی اور تشخص پایا تھایا نئے آغاز کیلئے کامیاب اقوام کے جملہ نوعیت کی ابتدا کو پڑھو، سمجھوکچھ کیسز تو کھلی کتاب ہیں، رسمی مطالعہ کی ضرورت ہی نہیں اور جس سے تباہی مچی اور زوال آیا وہ سب ترک کردیا جائے۔ جب زوال آتا ہے تو وجوہات کی بے نقابی ساتھ ساتھ ہوتی ہے۔ اگر ہوش پھر بھی نہ آیا اور کوئی قوم ہماری یا ملتی جلتی حالت زار تک پہنچ گئی ہے تو یقین کرلیا جائے اس کا علاج قوم نے ازخود ہی کرنا ہے۔
پاکستان کی آئین سے دوری اختیار کرتیں جملہ انواع حکومتیں اپنےبدترین طرز حکمرانی سے آج کی صورت حال کا موجب بنی ہیں(جو کہ یقیناً بنی ہیں)تو اس کا سکہ بند موجود علاج اس کے سوا کوئی نہیں کہ پوری قوم کو موجود متفقہ دستور کے فریم میں لا کر بتدریج نہیں تیز تر بلکہ انقلابی اقدامات سے حقیقی آئینی عمل کوتیز تر کرکے تیزی سے موجود قومی حالت زار و بے چارگی سے نکلا جائے۔ بغیر کسی بلیم گیم میں جائے، سیاسی ابلاغ کو بامقصد اور اسے مہلک آلودگی سے محفوظ کرتے سمجھا جائے کہ اگر بیش بہا پاکستان بد سے بدتر اور بدترین گورننس کے باعث قرضوں کے بوجھ سے گڑھے میں گر ہی گیا ہے تو کنارے پر لگا مضبوط کھونٹا ہی سہارا جس تک پہنچ کر ہم اسی کی مدد سے ناصرف موجود گھمبیر اور مزید بڑھتے بحران سے نکل سکتے ہیں بلکہ اس سے مکمل وابستہ رہتے ہم اپنے زوال کو پھر سے کمالات کی بحالی اور نئی کامرانیوں کے مسلسل اور یقینی حصول کی راہ نکال سکتے ہیں۔ اتنی مدت میں جتنی ہم اسے کھلےراز کے ساتھ ایمانداری، تنظیم اور اتحاد کا عملاً مظاہرہ کرتے جائیں۔ آئین پاکستان ہی پاکستانی عوام کی قوت ِ اخوت عوام کی طاقت کا مظہر ہے۔ یاد کیجئے ہمارے بزرگوں نے اپنے ملی شعور، تفکر، حکمت، عزم و عمل اور نوعشروں کی فکری، علمی اور سیاسی جدوجہد سے ہندوستان کی سلطنت کھونے کے بعد کی گھمبیر صورتحال کو تیزی سے پاٹتے، اور جان و مال کی قربانیوں سے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈالنے والی تاریخ ساز تحریک سے پارٹیشن آف انڈیا کی مکمل ان ہونی کو ہونی میں تبدیل کیا تھا اور فلاح پائی تھی۔ الگ ہے کہ قائد کی دائمی جدائی سے پاکستان اپنے عظیم مقاصد و تحریک اور قومی جذبے کی سچائی کے زور پر سفر ترقی و ارتقاء کے آغاز پر ہی سیاسی کھلواڑ اور سازشوں کی بڑی ملاوٹ سے مبتلائے ابتلا ہوگیا۔ یوں ترقی بھی کرتا گیا اور ترقی معکوس (ریورس) کے متوازی عمل سے آج کی حالت زار پر پہنچا، لیکن چونکہ مملکت خدا داد ٹھہرا تو ایک ہاتھ میں جوہری طاقت کی کنجی اور دوسرے میں کشکول نے ہمیں دنیا میں تماشا اور دنیا ئےعلم و تحقیق نے مستقبل قریب کی اقوام کو بڑے سبق کی کیس اسٹڈی بنا دیا ہے۔ (جاری ہے)