• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا میں کچھ قانون اور ضابطے ایسے ہیں جنہیں آفاقی سچائیاں کہا جاتا ہے۔ جو تبدیل نہیں ہوتیں،وقت یا حالات بدلنے کے باوجود ان کے نتائج نہیں بدلتے اور جو لوگ انہیں اپنے مفادات کیلئے بدلنے کی کوشش کرتے ہیں وہ سماج میں مزید بگاڑ پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ اس میں آفاقی سچائی ہےکہ ’’ ایک میان میں دو تلواریںنہیں رہ سکتیں‘‘ جس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ اقتدار کے دوسرچشمے نہیں ہو سکتے۔ ایک خاندان کے دوسربراہ نہیں ہو سکتے ، ایک جماعت کے دو امام نہیں ہو سکتے، ایک فوج کے دو کمانڈ انچیف نہیں ہو سکتے ،اسی طرح ایک ملک کے دو حکمران نہیں ہو سکتے کیونکہ یہ آفاقی سچائی یا قانون ِ فطرت کے خلاف عمل ہے جس کے نتائج ہمیشہ منفی نکلتے ہیں۔ اسی طرح ایک سچائی یا آفاقی اصول یہ ہے کہ ’’ جس کا کام اسی کو ساجے اور کرے تو ٹھینگا باجے‘‘ اس کا مطلب بھی سبھی جانتے ہیں کہ جو جس کام کا ماہر ہو اسے وہی کام کرنا چاہیے ورنہ نظامِ زندگی تلپٹ ہو سکتا ہے۔ ایک قصاب کو محض اس وجہ سے سرجن نہیں بنا یا جا سکتا کہ اس کے ہاتھ میں چھری ہوتی ہے اور وہ بھی جسم کی چیر پھاڑ کر سکتا ہے کیونکہ جانور کے جسم کی چیر پھاڑ اور انسانی جسم کی جراحّی میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ دونوں کی تربیت اور اہداف میں فرق کا تقاضا ہے کہ انہیں ایک دوسرے کے کام میں مداخلت سے علیحدہ رکھا جائے۔ اسی طرح موچی ، درزی ، لوہار اور سنار اگرا یک دوسرے کے کام میں مداخلت کریں گے یا اپنا کام کرنے کی بجائے دوسروں کے کام میں ٹانگ اڑائیں گے تو نہ صرف ٹھینگا باجے گا اور کوئی کام ڈھنگ سے نہیں ہو پائے گابلکہ اس سے معاشرے کا شیرازہ بکھرنے کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔ جہاں تک ایک میان میں دو تلواروں یعنی اقتدار کے دو سرچشموں کا تعلّق ہے تو تمام ترا بتدائی مفاہمت ، مفادات ، مصلحت اور محبت کے کہیں نہ کہیں اور کبھی نہ کبھی مفادات کا ٹکرائو یقینی ہو تا ہے جو ابتدائی مفاہمت ، مصلحت اور محبت کیلئے دشمن بن جاتا ہے۔ جس سے وہ سارا نظام ریت کے گھروندے کی طرح مسمار ہو جاتا ہے جسے قائم کرتے وقت فولادی نظام قرار دیا جاتا ہے۔ ہمارے قومی زوال اور انتشار کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنی قومی اور سیاسی زندگی میں دیگر آفاقی سچائیوں کی طرح اوپر بیان کردہ دو آفاقی سچائیوں یعنی جس کا کام اسی کو ساجے جسے انگریزی میں Right man-Right Jobکہتے ہیںاور ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں کی بھرپور نفی کی ہے۔ جس نے ہمیں اپنے خطّے میں پسماندہ ترین ملک بنا کر رکھ دیا ہے۔ ہمارے فیصلہ سازوں نے ایسے ہر نظام کی ناکامی کے بعد کوئی سبق سیکھنے اور آئندہ کیلئے اس سے تائب ہونے کی بجائے اپنی دانست کے مطابق کچھ سطحی تبدیلیوں کے بعد اس امید پر اسی نظام کو پھر سے نافذ کرنے کی کوشش کی کہ اب کی بار وہ ناکام نہیں ہوگا۔ مگر نتیجہ کیا نکلا؟ وہی ڈھاک کے تین پات بلکہ ہر مرتبہ ناکامی کی شدّت پہلے سے بھی زیادہ رہی ۔ یہاں تک کہ ملک دوحصّوں میں تقسیم ہوگیا اور بقیہ ملک میں نفرت، انتشار اور تقسیم کا عمل تیز تر ہو گیا۔ وہ طاقتیں جن کی نہ تو سیاسی ٹریننگ ہوتی ہے اور نہ سیاست انکے پیشے کا حصّہ ہوتی ہے، انکی سیاست میں مداخلت نے اس ملک میں سیاسی اور فکری انتشار کی ایسی بنیاد رکھ دی جس نے اس ملک کے حقیقی معاشی اور سماجی مسائل کو پسِ پشت ڈال دیا اور ایسے فکر ی اور نظریاتی اختلافات کو ہوا دی جن کا کوئی وجود نہ تھا تاکہ انکی خلافِ آئین مداخلت سے توجہ ہٹی رہے بلکہ وہ ان نظریاتی مغالطوں کے ذریعے اپنے اقتدار کا جواز پیدا کرتے رہیں۔کتنی غیر منطقی بات ہے کہ ان طبقوں نے پاکستان کو بقولِ خوددنیا کی واحد نظریاتی ریاست قرار دے دیا۔ جس کے تحفظ کیلئے انہوں نے اپنی سیاسی مداخلت کو ضروری قرار دے دیا۔ یاد رکھیے یہ سب سے بڑا فریب ہے کیونکہ دنیا کی ہر ریاست نظریاتی ہوتی ہے اور اس کا ایک ہی نظریہ ہوتا ہے اور وہ ہے اپنے عوام کی فلاح و بہبود اور ریاست کی جغرافیائی سرحدوں کا دفاع ۔ لیکن ہمارے ہاں ایسے طلسمی نظریات گھڑے گئے کہ ریاست رہے نہ رہے خود ساختہ نظریہ ء ریاست رہنا چاہیے اور ہم قدم بقدم اسی طرف بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ اس لیے ضروری تھا کہ ہم سیاست اور سیاست دانوں کو موردِ الزام ٹھہرا کر ان کی کردار کشی اور بیخ کنی کریں۔ جمہوریت اور ملکی امورمیں عوامی شرکت کا قلع قمع کریں۔ حالانکہ سیاست دانوں نے ہی ملک بنایا اور وہی ملک چلانے کے اہل ، ذمہ دار اور جائز حکمران ہوتے ہیں۔ ریاست کے خود ساختہ نظریاتی محافظ مستقل آئین جیسی دستاویز بھی اس ملک کو نہ دے سکے وہ بھی پچیس سال کے بعد ایک سیاستدان نے دی جس کا نام ذوالفقار علی بھٹو تھا۔ اسی سیاستدان نے ایٹمی پروگرام کے ذریعے اس ملک کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنایا لیکن اسے خراجِ تحسین پیش کرنےکیلئے اس کیلئے تختہ ء دار کا اہتمام کیا گیا۔ اس کے بعد مقتدر حلقوں کی نرسریوں میں مختلف قسم کے غیر سیاسی پودے کاشت کئے گئے ۔ جو واقعی سیاست اور سیاست دانون کے نام پر دھبہ ثابت ہوئے جنہوں نے قوم کو آپس میں دست و گریباں کردیا۔ اگر محمد خان جونیجو جیسا شریف النفس سیاست دان شراکت ِ اقتدار کے فارمولے میں فٹ نہیں بیٹھا تو کسی اور سے کیا امید ہے۔ ہمارا شائد دنیا کا واحد ملک ہے جہاں پر طرح طرح کے غیر فطری سیاسی تجربے کئے گئے ہیں جو ناکام رہے ۔ نجانے ہم ان دو آفاقی سچائیوں پر کب عمل کریں گے۔ کہ ’’جس کا کام اسی کو ساجے‘‘ اور ’’ایک میان میں دو تلواریں نہیں سما سکتیں۔‘‘ کیونکہ نجات کا واحد حل اور راستہ یہی ہے۔

تازہ ترین