• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کہاوت مشور ہے کہ جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں اور ہمارے ایک دوست کے مطابق ایک دوسرے کو ’’ٹف ٹائم‘‘ دینے کے لئے زمین پر اتارے جاتے ہیں ۔ زمین پر ان جوڑوں کے ملاپ کے لئے کئی قسم کے اسباب اور طریقے موجود ہیں ۔آج ہم پاکستان میں رشتوں کے حوالے سے کچھ مروجہ طریقے اور ان سے جڑی ہوئی شادی کی اقسام پر تفصیلی بحث کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ مخلوق خدا اس سے حسب توفیق استفادہ کرسکے۔
1۔ارینج میرج:اس قسم میں عام طور پر دولہا کی ماں ، بہنیں یا دیگر رشتہ دار خواتین رشتہ ڈھونڈنے کی ذمہ دار ہوتی ہیں ۔ ارینج میرج میں دولہا کے خاندان کے تمام افراد کا دلہن کو پسند کرنا بہت ضروری ہوتا ہے ماسوائے دولہا کے۔ عام طور دولہا دلہن کی پہلی ملاقات سہاگ رات کو ہی ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں دولہا دلہن دونوں کے لئے ایک لاٹری یا لڈو کے چھکے والی کیفیت ہوتی ہے کہ چھکے کا چھ نکلتا ہے یا ’’کانا ایک‘‘۔ارینج میرج کرنے والے مرد عام طور پر بہت ہی فرماں بردار اور سعادت مند قسم کے بیٹے ہوتے ہیں کہ گھر والوں کے سامنے اپنی بیوی سے ہنس کر بات کرنا بھی گناہ کبیرہ سمجھتے ہیں۔ فرماں برداری کے ساتھ ساتھ شرم و حیا بھی ان کی طبیعت میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے۔ بعض اوقات تو شرم و حیا کا ایسا مظاہرہ کرتے ہیں کہ بھاگ کے شادی کرنے والا جوڑا بھی ایسا نہ کرے ۔مثلاً اگر آپ کسی بازار یا ریسٹورنٹ میں کسی ایسے جوڑے کو دیکھیں کہ میاں بیوی سے تین چار قدم کا فاصلہ رکھنے کی سر توڑ کوشش کررہا ہو اور بیوی پیچھے ہانپتے کانپتے خاوند سے قدم ملانے کی ناکام کوشش کررہی ہو تو سمجھ لیں کہ ارینج میرج کا ’’شکار‘‘جوڑا ہے ۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ شوہر کی یہ کوشش اس وجہ سے ہوتی ہے کہ اگر خدانخواستہ کوئی جاننے والا یا دوست سرِ راہ مل جائے تو وہ ان پر میاں بیوی کا گمان نہ کرے بلکہ سمجھے کہ پیچھے والی خاتون ویسے ہی کوئی راہ گیر ہے۔ مردعام طورپر ایسے شرما شرما کے جارہا ہوتا ہے جیسے کہ کوئی چیز چوری کرکے جارہا ہو یا پھر کوئی غیر شرعی کام کررہا ہو۔ ارینج میرج کی آگے ایک ذیلی قسم بھی ہوتی ہے جسے کزن میرج کا نام دیاجاتا ہے ۔ کزن میرج کے شکار لوگوں کا کہنا ہے کہ کزن ہمیشہ کزن ہی رہتی ہے کچھ اور نہیں بن سکتی۔ کزن میرج کے کیس میں ابتدائی کچھ عرصہ دولہا دلہن کو’’بھائی‘‘ اور ’’باجی‘‘ کے طرز تخاطب سے جان چھڑانے کے لئے کافی محنت درکار ہوتی ہے ۔ ارینج میرج پاکستان میں عام طور پر چاروں صوبوں کے دیہاتی علاقوں اور کچھ شہری علاقوں میں بکثرت پائی جاتی ہے ۔ اس شادی کے انجام کے بارے میں ہم صرف اتنا عرض کریں گے کہ اس کی مثالChronicنوعیت کی ٹی بی کی بیماری سے دی جاسکتی ہے کہ نہ تو بندہ مرسکے اور نہ سکون سے جی سکے اور بیوی کہتی پھرے، "کارجہاں دراز ہے…‘‘
2۔لَو میرج:اس قسم میں رشتہ ڈھونڈنے کی ذمہ داری لڑکا یا لڑکی میں سے کسی ایک یا دونوں پر ہوتی ہے ۔ دونوں طرف سے خاندان البتہ اس چیز سے بری الذمہ ہوتے ہیں ۔ ارینج میرج کے برعکس جہاں دولہا اور دلہن کی پہلی ملاقات سہاگ رات کو ہوتی ہے لومیرج کے کیس میں دولہا دلہن کی پہلی ملاقات شادی سے بہت پہلے کسی یونیورسٹی کے کیفے، گھر کے چوبارے ، بالکنی، پارک، نیٹ کیفے یا کسی ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ کے سامنے ہوسکتی ہے ۔ دولہا دلہن شادی کے بعد نہیں بلکہ شادی سے پہلے بھی پبلک مقامات پر ایسے کندھے سے کندھا ملاکر چلتے ہیں کہ عام پبلک اور خاص طور پر پولیس کو میاں بیوی کا گمان ہو۔اس قسم کی شادی میں میاں بیوی کا آپس میں شدید نوعیت کا پیار دیکھنے کو ملتاہے ۔ بعض اوقات تو یہ محاورہ سچ لگنا شروع ہوجاتا ہے کہ محبت واقعی اندھی ہوتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جب آہستہ آہستہ خمارِ گندم اترنا شروع ہوتا ہے تو محبت کی آنکھیں بھی کھلنا شروع ہوجاتی ہیں اور دونوں کو ایک دوسرے کے ٹھیک ٹھیک خدوخال نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے کہ یہ طریقہ ’’واردات‘‘ پاکستان کے تمام علاقوں میں پایا جاتا ہے ۔ یونیورسٹیز کے کیفے، پبلک پارک وغیرہ اس کے لئے زرخیز زمین کا کام دیتے ہیں ۔اس شادی کے انجام کے بارے میں صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ بقول شخصے’’آغاز تو بسمہ اللہ انجام خدا جانے…‘‘
3۔’’بیورو‘‘میرج:وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس طریقہ میں بڑی جدت آئی ہے ۔پرانے زمانے سے گاؤں میں شادی کی یہ قسم ’’غیر رسمی‘‘طریقے سے بڑے عرصہ سے موجود رہی ہے مگر وقت کے ساتھ یہ قسم اب باقاعدہ ’’رسمی‘‘ طریقے میں تبدیل ہوچکی ہے ۔ اس قسم میں دولہا اوردلہن کے ملاپ کی ذمہ داری دونوں خاندان اور خود لڑکے لڑکی کی بجائے ایک تیسرے فریق میرج بیورو کی ہوتی ہے ۔ اس قسم سے وجود میں آنے والے جوڑے کئی خصوصیات کے مالک ہوتے ہیں ماسوائے اُن خصوصیات کے جو ضرورت رشتہ کے اشتہار میں دی گئی ہوتی ہیں ۔شادی سے پہلے عام طور پرخواہشمند لڑکے اور لڑکی کی ملاقات کی بجائے دونوں کو ایک دوسرے کی تصویر دکھائی جاتی ہے اور سہاگ رات کو دولہا دلہن ایک دوسرے کے فوٹو گرافرکو کھل کے داد دینے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ جس طرح کہتے ہیں کہ میاں بیوی زندگی کی گاڑی کے دو پہیوں کی مانند ہیں اور زندگی گزارنے کے لئے دونوں پہیوں کا چلنا ضروری ہے ۔ ہمارے مشاہدے کے مطابق اس طریقہ واردات کے نتیجے میں بننے والی گاڑی ایک ایسی گاڑی ہوتی ہے جس کی کلچ پلیٹ ہینوکی ، بریک مٹسو بشی کی اور گیئر سوزوکی کے ہوتے ہیں یا پھر سادہ لفظوں میں یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایسی گاڑی جس کا ایک ٹائر ٹریکٹر کا اور دوسرا کیری ڈبہ کا ہو ۔ یو ں کہہ لیں کہ بس چلتی کا نام گاڑی ۔عام طور پر ایسے جوڑے ساری زندگی ایک دوسرے سے ایسے شرمائے شرمائے پھرتے ہیں جیسے ایک دوسرے سے کچھ چھپانے کی کوشش کررہے ہوں ۔ اتفاق سے ہمارے ہمسائے مسٹر اینڈ مسز کشفی بھی اس طریقہ شادی کی پیداوار ہیں اورمسز کشفی کی من من کی صلواتیں بنام میرج بیورو ہمیںاکثر سننے کو ملتی رہتی ہیں ۔ یہ طریقہ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں پایا جاتا ہے ۔اس قسم کی شادی کے انجام کے بارے میں جس طرح اوپر بتایا گیا ہے کہ ٹریکٹر اور کیری ڈبہ کے ٹائر اگر ایک ہی گاڑی میں فٹ کردیئے جائیں تو گاڑی تو شاید چلتی رہے گی مگر رِنگ پسٹن اور کمانیوں کے بہت جلد گھِس جانے کے امکانات ہوتے ہیں ۔
4۔سیکنڈ میرج :سیکنڈ میرج وہ شادی ہے جو کسی خاص طریقے کے تابع نہیں ہے اور اوپر ذکر کردہ قسموں میں سے کوئی بھی پیٹرن اختیار کرسکتی ہے ۔مگر مشاہدہ کے مطابق اول الذکر طریقہ کی نسبت یہ آخرالذکر دو طریقوں کے پیٹرن کو زیادہ فالو کرتی ہے ۔ ایک زمانہ میں تو عمر کے ایک خاص حصہ میں اس ’’سانحہ‘‘ کے وقوع پذیر ہونے کے چانسز زیادہ ہوتے تھے مگر آج کل لڑکپن سے لے اسی پچاسی سال کی عمر تک کسی بھی وقت یہ سانحہ رونما ہوسکتا ہے ۔ ہوسکتا ہے موجودہ زمانے کی خوراک، لائف اسٹائل اور ’’طریقہ حکومت‘‘ کا اس میں بڑا عمل دخل ہو ۔اس شادی کے انجام کے بارے میں کوئی حتمی بات تو نہیں کہی جاسکتی مگر اس کے شکار مرد کچھ ہی عرصہ بعد کسی روحانی یا تبلیغی جماعت کے ممبر بن جاتے ہیں پھر ہاتھ میں تسبیح لے کر اللہ اللہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ جس طرح شادی کے بارے میں کہاوت مشہور ہے کہ یہ ایسی چیز ہے کہ جو کرے گا وہ بھی پچھتائے گا اور جو نہیں کرے گا وہ بھی پچھتائے گا۔ مگر سیکنڈ میرج کے بارے میں ہم اتنا عرض کرتے چلیں کہ کچھ عرصہ قبل ملتان کے رہنے والے ہمارے ایک دوست نے دوسری شادی کی ۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد ہم نے پوچھا کہ جناب کیسا رہا تجربہ؟ کہنے لگے دل کرتا ہے کہ ملتان گھنٹہ گھر چوک پر مرغا بن کے کھڑا ہوجاؤں اور ساتھ ایک دس نمبر کا جوتا بھی رکھ دوں۔ جو گزرے دو لگا کے جائے تاکہ گزرنے والی مخلوقِ خدا عبرت پکڑ سکے!!
تازہ ترین