کولوریکٹل یا بڑی آنت کے کینسر کے کیسز میں حالیہ چند برسوں سے تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ٹیومر بڑی آنت اور معدے کو متاثر کرتا ہے، جس سے مریض کی صحت اور معیار زندگی بُری طرح اثرانداز ہوتی ہے۔
بی بی سی کی حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے چند مختلف حصوں میں خاص طور سے بڑی عمر کے افراد کے مقابلے 50 سال سے کم عمر کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
بڑی آنت کے کینسر کے کیسز میں تیزی سے ہونے والے اضافے کو بعض ماہرین ’خطرناک‘ اور ’پریشان کن‘ قرار دے رہے ہیں جبکہ بعض کے مطابق اس معاملے پر ایک ’عالمی الرٹ‘ جاری کرنے کی ضرورت ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق اگر آج کے موجودہ اعداد و شمار کا موازنہ 30 سال پہلے کی شرح سے کریں تو کچھ تحقیقات کے مطابق نسبتاً کم عمر مریضوں میں کولوریکٹل کینسر کے کیسز میں 70 فیصد اضافے کے شوہد ملتے ہیں۔
تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ حالیہ دہائیوں میں لاطینی امریکہ اور کیریبین میں کولوریکٹل کینسر کے کیسز میں اضافہ ہوا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اس کی وجوہات میں اوسطً عمر میں اضافہ، طرز زندگی اور خوراک میں تبدیلی شامل ہے۔
اقوام متحدہ کی گلوبل کینسر آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ 1990 سے نو لاطینی امریکی ممالک جن میں ارجنٹینا، برازیل، چلی، کولمبیا، کوسٹا ریکا، کیوبا، ایکواڈور اور میکسیکو شامل ہیں، میں کولوریکٹل کینسر کے کیسز اور اس سے ہونے والی اموات کی شرح میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق آج ہم متعدی بیماریوں کے دور سے نکل کر دائمی بیماریوں کے دور میں چلے گئے ہیں، جس کی بنیادی وجہ لوگوں کا طرز زندگی ہے۔ موٹاپا، سگریٹ نوشی، شراب نوشی اور خوراک میں تبدیلی اس قسم کے کینسر کے کیسز میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔
کولوریکٹل ٹیومر ریفرنس سینٹر کے مطابق 35 یا 40 سال کے نوجوانوں کا ٹیومر کی اسکریننگ کے لیے آنا ایک عام بات ہے۔ عمر سے قطع نظر، اگر کسی کو اپنی آنتوں میں کوئی مسئلہ محسوس ہو تو انہیں فوراً ڈاکٹر سے رابطہ کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر کسی کے پاخانے میں خون آئے، آنتوں میں کوئی تبدیلی محسوس ہو یا پیٹ میں درد رہتا ہے تو ڈاکٹر سے رجوع کرنا ضروری ہے۔ آپ جوان ہیں تب بھی ان علامات کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے.
برازیلین سوسائٹی آف کلینیکل آنکولوجی (SBOC) کے مطابق نوجوانوں میں کولوریکٹل کیسز میں اضافہ تشویشناک ہے، تاہم یہ ٹیومر کیوں بڑھ رہا ہے، اس کے متعلق کچھ مفروضے ہیں لیکن ان میں سے کسی کی بھی اب تک تصدیق نہیں ہو سکی۔
ان کے مطابق اس کی ایک وجہ حالیہ دہائیوں میں دیہی ثقافت کا غائب ہونا اور ہمارے رہن سہن کے طریقوں میں ہونے والی ڈرامائی تبدیلیاں ہو سکتی ہیں، جس میں پراسیسڈ مصنوعات پر مبنی خوراک میں اضافہ، قدرتی کھانوں کے استعمال کمی، چلنے پھرنے کی بجائے زیادہ دیر تک بیٹھنے کی عادت شامل ہوسکتی ہیں، لیکن طرز زندگی میں تبدیلیاں اس کی واحد وجہ نہیں ہے۔
ان کے مطابق آج ہم اینٹی بائیوٹک کے اندھا دھند استعمال کو بھی نظرانداز نہیں کر سکتے ہیں۔
نوجوانوں میں بڑھتے ہوئے کیسز کے بارے میں خدشات کے باوجود ایک اچھی خبر یہ ہے کہ کولوریکٹل کینسر کی تشخیص میں بہتری آئی ہے۔
یہ سرجری کی تکنیکوں میں ترقی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے جس کی وجہ سے اب اس کینسر کا ابتدائی اسٹیج پر ہی علاج ممکن ہے۔ بہت سے کیسز میں بنا سرجری کے ادویات کے ساتھ بھی علاج ممکن ہے جبکہ کیموتھراپی اور امیونو تھراپی اس کے علاج میں مؤثر ثابت ہوتے ہیں۔
اگر ٹیومر کا پتا جلدی لگ جائے تو علاج کا امکان 95 فیصد سے بھی زیادہ ہے لیکن بیماری اگر جسم کے دوسرے حصوں تک پھیل جائے تو علاج مشکل اور کامیابی کی شرح کم ہو جاتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر علاج ممکن نہ ہو تب بھی، اس ٹیومر کے مریضوں کے زندہ رہنے کے امکانات 20 سال پہلے کے مقابلے میں تین سے چار گنا زیادہ ہیں۔