• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے دیگر علاقوں کے بارے میں تصدیق سے میں کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن کراچی میں چھیناجھپٹی اور قبضہ خوری کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی پاکستان کی تاریخ پرانی ہے۔ اس کتھا میں قبضہ خوری کی وہ کہانیاں شامل نہیں ہیں جن میں بغیر الاٹمنٹ کے متروکہ املاک پر بے دریغ کر لیا گیا تھا۔ جو لوگ ہندوستان میں بہت کچھ چھوڑ آئے تھے ان کو کچھ نہیں ملا اور جو ہندوستان میں کچھ بھی چھوڑ کر نہیں آئے تھے ان کو بہت کچھ ہتھے لگ گیا۔ جو ہندوستان کے چھوٹے موٹے گائوں میں پرائمری ٹیچر تھے انہوں نے پروفیسر کی آسامیاں ہتھیا لیں۔ جو کسی کالج یا یونیورسٹی میں پروفیسر تھے وہ کراچی کے فٹ پاتھوں پر اخبار بیچنے لگے۔ جو ہندوستان میں جرائم پیشہ تھے وہ کراچی پہنچنے کے بعد کالاکوٹ پہن کر وکیل ہوگئے۔ اس طرح کی کہانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ پاکستان بننے کے اردگرد ایسی ایسی عبرتناک کہانیوں نے جنم لیا تھا جو کبھی نہیں بھلائی جا سکتیں۔ صدر کراچی میں کیپٹل سینما کے سامنے پان والے کی دکان کے قریب ایک شخص بیٹھا ہوا ہوتا تھا، سر جھکائے، آنکھیں نیچی کیے ہوئے، جو ان کو اور ان کے مرتبے کو جانتے تھے وہ چپکے سے چند سکے ان کی جیب میں ڈال کر آگے بڑھ جاتے تھے۔ یہ وہ شخص تھے جن کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے بمبئی میں لوگ دیوانہ وار ان کی طرف دوڑ پڑتے تھے۔ وہ منروا مووی ٹون پروڈکشنز کے بینر تلے بننے والی فلموں کے ہیرو تھے، صادق علی۔ اگر کوئی مہم جو، لکھاری لکھنے بیٹھے تو تقسیم ہند کے حوالے سے ایک نئی مگر حقیقتوں پر مبنی الف لیلیٰ کتاب جنم لے سکتی ہے۔ جب بھی ملک بنتے اور ٹوٹتے ہیں، جب بھی ہزاروں برسوں سے ایک وحدت میں رہنے والے ممالک کی تقسیم ہوتی ہے تب زمین و آسمان کو جلا کر راکھ کردینے جیسے فسادات کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ نقل مکانی میں صرف نیک اور پارسا اپنا آبائی وطن نہیں چھوڑتے، ان کے ساتھ جرائم پیشہ لوگ بھی نقل مکانی کرتے ہیں اور نئے ملک میں پنجے گاڑ کر نیک، شریف اور پارسا لوگوں کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔
آج کے قصّے میں ایسی کسی کہانی کی گنجائش نہیں ہے۔ آج میں آپ کو اعلیٰ سطح پر چھینا جھپٹی اور قبضہ خوری کے ایک دو قصّے سنانا چاہتا ہوں۔ 1947ء میں پاکستان بنا۔ کراچی کو پاکستان کا دارلخلافہ بنایا گیا۔ کوئی نہیں جانتا کہ لاہور کو دارلخلافہ کیوں نہیں بنایا گیا جبکہ 1940ء میں قرارداد پاکستان کا متفقہ فیصلہ لاہور میں کیا گیاتھا۔ کوئی نہیں جانتا کہ کراچی کو پاکستان کا دارلخلافہ بنانے کے بعد حیدرآباد یا کسی اور شہر کو صوبۂ سندھ کا دارلخلافہ کیوں نہیں بنایا گیا۔ یہ کہیں نہیں ہوتا کہ ایک شہر ملک کا دارلخلافہ ہو اور اپنے صوبے کا دارلخلافہ بھی ہو۔ سندھ اسمبلی کی عمارت کو مرکزی حکومت کے حوالے کر دیا گیا۔ حکومت سندھ نے اپنے اسمبلی اجلاسوں کیلئے کراچی کے ڈیڑھ سو برس پرانے این جے وی ہائی اسکول کی بندر روڈ پر واقع نئی عمارت کی تیسری منزل پر قبضہ کر لیا تب میں این جے وی ہائی اسکول میں پڑھتا تھا۔ تیسرے فلور پر فزکس اور کیمسٹری کی وسیع لیباریٹریز کو ملا کر اسمبلی اجلاسوں کیلئے مختص کیا گیا۔ یہ تھا پاکستان کی تاریخ کا سرکاری سطح پر پہلا ناجائز قبضہ۔ ان ہی دنوں قائداعظم کی تجویز پر کراچی کے قریب دارلخلافہ کیلئے جھرک اور گڈاپ کا جائزہ لیا جا رہا تھا۔ قائداعظم جھرک نام کے ساحلی، تجارتی اور کاروباری شہر میں پیدا ہوئے تھے، وہیں ان کے آبائو اجداد کی آخری آرام گاہیں ہیں۔ جھرک شہر کی آبادی زیادہ تر آغاخانی اور میمنوں پر مشتمل تھی جو مشرق وسطیٰ اور سینٹرل ایشیائی ممالک سے بیوپار کرتے تھے۔ اس وقت کراچی مچھیروں کا چھوٹا سا ساحلی گائوں تھا۔ جھرک میں آغا خان کا اپنا ذاتی حویلی نما گھر جس کو محل بھی کہا جاتا ہے آج تک وہاں موجود ہے اور اس کی حفاظت کی جاتی ہے۔ تب کھارادر اور میٹھادر زیر آب ہوتے تھے اور وزیر مینشن نام کی عمارت کا نام و نشان نہیں تھا۔ اگر کسی کو شک ہو تو وزیر مینشن کی ایک اینٹ نکال کر پشاور یونیورسٹی کے ڈپارٹمنٹ آف آرکیالوجی کی لیب میں تصدیق کیلئے بھیج کر وزیر مینشن کی تاریخ تعمیر کا سائنسی تجزیہ کیا جا سکتا ہے، بحث ختم ہو جائے گی کہ قائداعظم وزیر مینشن کھارادر میں پیدا ہوئے تھے یا ساحلی گائوں کولاچی سے بڑے تجارتی مرکز جھرک میں پیدا ہوئے تھے۔
ہم چھوٹی سوچ رکھنے والے پختہ یقین رکھتے ہیں کہ بڑے آدمی بڑے شہروں میں پیدا ہوتے ہیں اور چھوٹے آدمی چھوٹے شہروں میں پیدا ہوتے ہیں۔ جن لوگوں نے قائداعظم کی جائے پیدائش کو بڑی کامیابی سے مسخ کیا تھا اگر آج زندہ ہوتے تو موجودہ دور کے پاکستانیوں کو یقین دلواتے کہ قائداعظم کھارادر جیسے گنجان، پسماندہ اور غلیظ علاقے میں پیدا نہیں ہوئے تھے، وہ ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی کے کسی عالیشان فیز میں پیدا ہوئے تھے۔ بہرحال اس سے پہلے کہ پاکستان کے دارلخلافہ کے بارے میں کوئی فیصلہ ہوتا قائداعظم دنیا سے رخصت ہو گئے۔ سندھ حکومت نے سندھ اسمبلی کے لئے ہمارے این جے وی ہائی اسکول کی تیسری منزل پر قبضہ جمائے رکھا۔ این جے وی ہائی اسکول کی نئی عمارت 1940ء میں بننا شروع ہوئی تھی۔ راجستھانی پتھر سے ایک ایک بلاک تراش کر تین منزلہ عالیشان اسکول 1946ء میں پایہ تکمیل کو پہنچا تھا۔ ایک سال بعد 1947ء میں پاکستان بنا۔وسیع و عریض عمارت دیکھ کر نئے حاکموں کی آنکھیں چکاچوند ہوگئیں۔ اسکول کے ایک حصّے پر حکومت سندھ نے قبضہ کر لیا۔ کچھ عرصہ بعد اسکول کے ایک اور حصّے پر ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن نے قبضہ کر لیا۔ ان کی دیکھا دیکھی اسکول کے ایک حصّے پر سندھی ادبی بورڈ نے قبضہ جما لیا۔ ان ہی دنوں پاکستان پی ڈبلیو ڈی نے این جے وی ہائی اسکول کے احاطے میں اپنی عمارت کھڑی کر دی۔ یہ تھی شہر کراچی میں قبضہ خوری اور چھینا جھپٹی کی تاریخ کی ابتداء۔ اس کارخیر میں اپنا حصّہ ڈالنے کیلئے ایک قبائلی تشریف لے آئے۔ انہوں نے این جے وی ہائی اسکول کی بائونڈری وال توڑی اور خاردار تاریں کاٹ کر اسکول کے احاطے میں ایک چٹائی بچھا کر پانچ مرتبہ اذان دینا شروع کر دیا۔ آج وہاں مسجد بنی ہوئی ہے۔ یہ تھی اللہ کے نام پر دوسروں کی املاک پر قبضہ جمانے کی ابتداء۔ان ہی دنوں سندھی مسلم ہائوسنگ سوسائٹی میں ہمارے مکان سے متصل کوٹھی میں پاکستان رائٹرز گلڈ کا دفتر تھا اور سامنے والا پلاٹ خالی پڑا ہوا تھا۔ ایک رات ایک اور قبائلی صاحب تشریف لے آئے اور جھگی بنا کر پانچ وقت اذان دینے کا عمل شروع کر دیا۔ پلاٹ کا مالک ان سےاپنے پلاٹ کا قبضہ چھڑانے کی سر توڑ کوششوں میں پاگل ہو گیا۔ آج قبضہ کیے ہوئے اس پلاٹ پر بھی مسجد بنی ہوئی ہے۔ یہ قبضہ خوری کے ابتدائی قصّے ہیں۔ اب پورے شہر کراچی پر قبضہ خوروں، پراپرٹی ڈیلروں اور بلڈر مافیا کا قبضہ ہے۔
(نوٹ : اگرچہ قائد اعظم کی جائے ولادت پر پہلے بھی کئی بار بحثیں ہو چکی ہیں۔لیکن اس کالم میں اس بارے میں دئیے گئے مندرجات جناب امرجلیل صاحب کےذاتی خیالات ہیں اگر کوئی محقق اس پر اظہار خیال کرنا چاہے تو جنگ کے صفحات حاضر ہیں۔ادارہ)
تازہ ترین