بڑے دنوں کے بعد ایک ناول پڑھا جس نے کافی دیر سے مجھے اپنی گرفت میں رکھا ہوا ہے ۔’’ کفن چور‘‘ نامی یہ ناول نعمان فاروق کا لکھا ہوا ہے ۔اگرچہ یہ ناول بچوں کیلئے لکھا گیا ہے مگر بڑے بھی اسے پڑھ سکتے ہیں ۔بڑوں کیلئےاس میں ایک علامتی کہانی موجود ہے ۔مجھے یہ ناول پڑھ کر اپنی ایک پرانی نظم یاد آگئی اس کی چند لائنیں
کہیں گورکن تو کہیں گورہم ہیں
کفن چور ہم ہیں کفن چور ہم ہیں
غریبوں کے جسموں سے کپڑے اتاریں
جو مردہ ہیں پہلے انہیں اور ماریں
کہ زرپوش ہم ہیں کہ شہ زور ہم ہیں
کفن چور ہم ہیں کفن چور ہم ہیں
کفن چور کے حوالے سے علامہ اقبال نے بھی کچھ اشعار کہے تھے
برفتد تا روشِ رزم درین بزم کہن
دردمندانِ جہان طرحِ نو انداختہ اند
من ازیں بیش ندانم کہ کفن دزدی چند
بہر تقسیم قبور انجمنی ساختہ اند
ان کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ اس پرانی انجمن اور پرانی دنیا میں دنیا کے درد مندوں نے جنگ کی ایک نئی طرح ڈالی ہے ۔ میں اس سے زیادہ نہیں جانتا کہ چند کفن چوروں نے قبور کی آپس میں تقسیم کیلئے ایک انجمن بنائی ہے۔علامہ اقبال نے سو برس پہلے لیگ آف نیشنز کیلئے جو کچھ کہا تھا وہ آج اقوام متحدہ پر بھی صادق آتا ہے کہ یہ کفن چوروں کی عالمی انجمن ہے۔
اگرچہ کفن چورماضی کاحصہ ہیں اور یہ صرف مشرق کا قصہ نہیں ، مغرب میں لوگ قبروں سے تابوت نکال لیا کرتے تھے ۔انیسویں صدی کے آغاز میں تو مصر میں یہ کفن چور’’ تاریخ کی تلاش ‘‘کے نام پر پرانی قبریں اور مقبرےکھودتے رہے اور صرف تابوت ہی نہیں ان میں پڑی ہوئی ممیاں بھی اٹھا لے گئے جو آج کل مغرب کے عجائب گھروں کی زینت بنی ہوئی ہیں۔
نعمان فاروق کاناول اگرچہ ایک ایسے کفن چور کی کہانی ہے جو مجبوری کی حالت میں ایک عورت کیلئے کفن چراتا ہے ،جسے جادو ٹونے کیلئےسکینڈ ہینڈ کفن کی ضرورت ہوتی ہےلیکن یہ کفن چوربھی قبروں میں چھپی ہوئی تاریخ کی تلاش میں نکل پڑتا ہے کیونکہ قدیم تابوت ہوں یا دوسری چیزیں ان کی بہت وسیع و عریض بلیک مارکیٹ ہے ۔اس مارکیٹ میں جتنے زیادہ آثار قدیمہ کی چیزیں پاکستان اور افغانستان سے ہیں ،اتنی شایدکہیں اور سے نہیں ۔افغانستان کے تو پورے عجائب گھروہاں برائے فروخت ہیں ۔ حتیٰ کہ مہاتما بدھ کے جو مجسمے توڑ ےگئے تھے ان کی ٹکڑے بھی بھاری قیمت پر فروخت ہوئے۔میں ایک بار ہالینڈ کے شہرہیگ میں کسی دوست کے ساتھ مینو سکرپٹ کی مارکیٹ میں گیا اور پریشان ہو گیا۔ وہاں سب سے زیادہ مخطوطے ، فارسی، عربی اور اردو کے تھے اورزیادہ تر بر صغیر سے اس مارکیٹ میں آئے تھے۔
نعمان فاروق نے ناول لکھتے ہوئے موضوع کا حق ادا کیا ہے ۔ اس ناول پر بچوںکیلئے ایک شاندار ڈرامہ سریل بن سکتی ہے جو بڑے بھی دیکھیں گے ۔انہوں نے اس میں جس خوبصورتی سے اپنی قدیم تاریخ کوسمیٹا ہے وہ قابل داد ہے ۔یہ ناول کٹاس راج سے نکل کر ہوا ہونے والےنوادرات کا نوحہ ہے ۔انہوں نے وادیِ کہون کی گم ہوتی تاریخ کواپنے پُرلکش الفاظ میں محفوظ کردیا ہے اور علامہ اقبال کی طرح کفن چورکی علامت کو پورے دنیا پر پھیلا دیا ہے۔نعمان فاروق کا کفن چور آثار قدیمہ کے نوادرات چرانے والوں سے لے کرحقیقی زندگی میں کسی کے کپڑے اتارنے والوں تک پھیلا ہوا ہے۔
کفن چوروں کے واقعات میں سے کچھ یقیناً تراشے بھی گئے ہونگے۔ایک ایسا واقعہ جس کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا مگر درج کررہا ہوں کہ کیونکہ ناول کاکفن چور بھی اپنی اصل میں ہیرو ہے ۔ یہ واقعہ رابعہ بصری کے ساتھ منسوب ہے کہ جب وہ فوت ہوئیں توبغداد کے ایک کفن چور نے ان کاجنازہ پڑھاکہ قبر دیکھ سکے ۔رات کو جب قبر کھودی تو میت نےاس کاہاتھ پکڑ لیا اور کہا ، اللّٰہ کی شان ہے کہ ایک جنتی دوسرے جنتی کا کفن چرا رہا ہے ۔یہ سن کرکفن چور لرز گیا اور کہنے لگا تیرے جنتی ہونے میں تو شک نہیں لیکن میں نے تو ساری زندگی کفن چرائے ہیں میں کیسے جنتی ہو سکتا ہوں اس پر رابعہ بصری بولیں اللّٰہ تعالی نے مجھے بخش دیاہے اور جس جس نے میرا جنازہ پڑھا ہےاسے بھی اور تو نے بھی میرا جناز ہ پڑھا ہے اس پر اس کفن چور نےسچے دل سے توبہ کی اور اللّٰہ کا ولی بن گیا۔
اب پڑھئے شہزاد نیئر کی نظم ’’کفن چور ‘‘
کچھ نہیں، گھر میں مرے کچھ بھی نہیں
کوئی کپڑا کہ حرارت کو بدن میں رکھتا
لقمۂ نان جویں، خون کو دھکا دیتا
من کو گرماتا سکوں، تن سے لپٹتا بستر
کچھ نہیں، کچھ بھی نہیں، کچھ بھی نہیں!
…
رات کو جسم سے چپکاتی ہوئی سرد ہوا
جسم کے بند مساموں میں اترتی ٹھنڈک
سنگ مرمر سی ہوئیں خون ترستی پوریں
ہاتھ لرزاں تھے امیدوں نے مگر تھام لیے
پاؤں چلتے ہی رہے شہر خموشاں کی طرف
…
پردۂ خاک میں لپٹے ہوئے بے جان وجود!
باعث ننگ زمیں ہوں، مگر اک بات بتا
جسم مٹی ہو تو کپڑوں کی ضرورت کیا ہے؟
دیکھ! پیوند زمیں! میرے تن عریاں پر
داغ افلاس کا پیوند... اجازت دے دے
مر کے مرتے ہوئے انسان کو زندہ کر دے
ایک ملبوس کمانے کی اجازت دے دے!
ورنہ بھوکی ہے بہت خاک، کہاں دیکھے گی
جسم کھا جائے گی پوشاک کہاں دیکھے گی
…