مخصوص پاکستان کی ’’حب الوطنی‘‘ دبئی میں محفوظ
عام پاکستانی اپنی سچی حب الوطنی وطن میں رکھنے کے قابل نہیں کہ اس کی دولت تو لوٹ کر دبئی میں رکھوا دی گئی ہے، مافیاز ایک فرقہ ہے جس کا عقیدہ پاکستان سے پاکستان کے باہر محبت کرنا ہے، اس فرقے میں کون کون شامل ہے اس کا ذکر ممنوع ہے، کیونکہ غربت قائم کرکے اس پر اپنی امارت کی عمارت کھڑی کرنا مقصود ہے، معیار حب الوطنی یہ ہے کہ وطن کی دولت باہر کے ملکوں میں ہے اس لئے کہ اپنے ملک کو اپنا ہی نہیں سمجھا جاتا۔ عوام کی دولت ہر قسم کے خواص کی تجوری میں ہے، پاکستانیوں کی دبئی میں 11ارب ڈالر کی جائیدادیں موجود ہیں، اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستانیوں کی جائیدادیں نہ صرف دبئی بلکہ دیگر ممالک میں بھی موجود ہیں، اگر یہ ساری دولت اپنے ملک میں ہی رکھی جاتی تو وطن عزیز میں غربت، مہنگائی، بیروزگاری نہ ہوتی کہ اس دولت سے کاروبار ہوتا اور وطن کی دولت سے اہل وطن ہی مستفید ہوتے، ایلیٹ جس شعبے میں ہے اس کے اثاثے باہر بھی ہیں ، اندر بھی، خالی ہاتھ افراد کی جھولیاں کیسے اچانک بھر گئیں کیا اس کا کوئی کبھی حساب لے گا۔ دبئی نے ترقی کی اور اس کی سرزمین کو ہر قوم کے منی لانڈررز نے خفیہ خانہ سمجھ لیا۔ اب ایلیٹ کے نہ جانے کہاں ٹھکانے اور سرمائے ہیں اس کی ایک جامع رپورٹ ایک تفتیشی صحافت کے پروجیکٹ نے طشت ازبام کردی ہے، بہرحال ہم باقی دنیا کی بات نہیں کرتے اپنے ملک کے ’’مہربانوں‘‘ سے گلہ مند ہیں کہ کیوں اپنے ملک میں سرمایہ نہیں لگاتے، شاید اس لئے کہ یہ خاص قسم کی دولت ہوتی ہے، جو اپنے بینکوں میں رکھنا ان کے نزدیک حرام ہے، اگر ہمارے جملہ محب وطن حکمران چاہیںتو وطن کی بے وطن دولت واپس لا سکتے ہیں، مگر لاتے نہیں کہ شاید معاملہ یہ ہے کہ ’’جے میں سیٹی مار اڈاواں میری سرخی لہندی وے‘‘۔ بہرصورت صحافت نے پہلے پانامہ لیکس ظاہر کئے اور اب دنیا کے تمام ممالک کی لوٹی ہوئی دولت کے ٹھکانے بتا دیئے، یہ جو پاکستانی دولت دبئی میں موجود ہے اگر سورما حکمران واپس لے آئیں تو ہمارے خزانے کا پیٹ بھر سکتا ہے مگر ہمارے خزانے کی بھو ک نہیں مٹائی جاتی جبکہ اس نے کتنے ہی امرا کے پیٹ بھر دیئے، ہمارے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ ہے مگر ہم اس کی چوکیداری نہیں کرسکے۔
٭٭٭٭
کیا مہنگائی میں دراڑ پڑ گئی؟
شنید ہے کہ اشیا کے نرخ نیچے آنے لگے ہیں، شاید نواز شریف سپیڈ مریم نواز کی گورننس میں ظاہر ہونے لگی ہے، تیل کی قیمتوں میں نمایاں کمی سے پورے ملک میں ارزانی آنی چاہیے مگر ہمارے دکاندار اور بڑے تاجر کیوں پٹرول، ڈیزل کی قیمتوں میں کمی آنے کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچنے دیتے کہ مال کی ترسیل سستی ہو تو اشیائے ضروری کی قیمتیں بھی گرتی ہیں، مہنگائی ایسا لفظ نہیں کہ مٹ نہ سکے اور نیت ایسی چیز ہے کہ کھوٹی سے کھری نہ ہوسکے، کچھ اشیا کے نرخ نمائشی طور پر گر کر پھر سنبھل جاتے ہیں، ہر بھری جیب کو بندہ مزدور نے بھرا ہے مگر مزدور کی جیب خالی ہی رہتی ہے، اگر مہنگائی کے ٹکڑے نہ ہوئے تو یہ ملک لاری اڈہ ہی رہے گا، آئیں گے امرا سیاستدان اور تجوریاں بھر کے چلے جاتے رہیں گے، ہماری تاریخ تو یہ ہے کہ فرات کے کنارے بھوک سے مرنے والے کتے کا بھی حساب وقت کے حکمران نے دینا ہے، آج قائد کے وطن میں کروڑوں انسان بھوک، ننگ، افلاس تلے سسک رہے ہیں اور ان کے حکمران خوب لہک مہک رہے ہیں، ٹی وی سکرین کو دیکھیں تو اتنے موضوعات نہیں جتنے تجزیئے ہیں، موجودہ حکومت کا پوسٹمارٹم کرنے کے بجائے حکومت کے ساتھ تعاون کریں، خدا خدا کرکے حکومت قائم ہوئی اور اس نے اپنا کام شروع کردیا ہے، اپوزیشن والے اپنا مثبت کردار ادا کریں تاکہ یہ حکومت عوامی بہبود کیلئے ،معیشت کوبہتر بنانے کیلئے کام کرے، اگر اسے کام نہ کرنے دیا گیا تو آنے والے وقت میں آج سے زیادہ برے حالات کا سامنا کرنا پڑے گا، پارٹیاں اپنے منشور پر عمل نہیں کرتیں کیونکہ ہمارے ہاں ہر میدان میں آپٹکس سے کام لیا جا رہا ہے۔ آمدم برسرِمقصد حکومت غیر ضروری پروجیکٹس کے بجائے فوری نوعیت کے غریب عوام کیلئے کام کرے، جب لوگ خوشحال ہو جائیں تو ملک پٹری پر رواں ہو جائے گا، آج کا سب سے بڑا دکھڑا غربت ہے جو جرم جنم دے رہا ہے، لوگ پیٹ کی خاطر کچھ بھی کریں گے یہ وہ سٹیج ہے جب قوم تباہ ہو جاتی ہے، ریاست وجود کھو بیٹھتی ہے۔
٭٭٭٭
ایک اسٹیج 2وزیر اعظم
وزیر اعظم نے کامیڈین شفاعت کو اپنی نقل اتارنے کیلئے سٹیج پر بلا لیا۔ ہمارے وزیراعظم آل رائونڈر ہیں، فنون لطیفہ سے لے کر امور ریاست تک سب جانتے ہیں اپنی ذات کے حوالے سے تنقیدکا بھی برا نہیں مناتے، کامیڈین شفاعت کوسٹیج پر بلا کر اپنی نقل اتارنے کی فرمائش کر ڈالی، اور شفاعت نے بھی اس طرح ان کی نقل اتاری کہ تھوڑی دیر کو یوں لگا کہ سٹیج پر بیک وقت دو وزیر اعظم بول رہے ہیں، شاید اسی کو نقل بمطابق اصل کہتے ہیں، نقل اتارنے میں کامیڈین شفاعت نے کمال ہنر دکھایا جس سے وزیر اعظم خوب محظوظ ہوئے، شفاعت کو ہم ان کے فن کے لحاظ سے نقالوں کا وزیر اعظم کہہ سکتے ہیں، اس لئے ایک سٹیج پر دو وزیر اعظم مگر اپنے اپنے فن کے لحاظ سے جدا جدا تھے، ہمارے اصلی والے وزیراعظم دریا دل ہیں، گھل مل جاتے ہیں پھر بھی اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں، خوب کام کرتے ہیں اس لئے مخالفین کو اچھے نہیں لگتے، قارئین کو یادہوگا کہ ایک صوبے نے مطالبہ کیا تھا کہ کچھ عرصے کیلئے شہباز شریف ان کو دے دیئے جائیں تاکہ ان کے مسائل حل ہوں، یہی وجہ ہے کہ انہیں شہباز سپیڈ بھی کہا جاتا ہے۔ ہمارے کامیڈینز اپنے ہنر میں اتنے طاق ہیں کہ اگر ان میں سےکسی کو بھی حکومت دی جائے تو لوگ خالی پیٹ بھی ہنسیں گے، طنز و مزاح اور کامیڈی یہ وہ شعبے ہیں کہ آج کے دور میں بھی ان کے ماہرین روتوں کو ہنسا دیتے ہیں، ایک محفل میں ایک کامیڈین نے اتنا ہنسایا کہ اہل محفل میں سے ایک صاحب کی قبض ٹوٹ گئی گویا کامیڈین قبض کشا بھی ہے، بہرحال وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کی شخصیت ہمہ یاراں جنت ہے، ان کی خوش طبعی ہے کہ نقلی وزیر اعظم کو اپنے برابر کھڑا کرکے ان سے فرمائش کی کہ میری نقل میرے سامنے اتارو، الغرض وہ شہباز بھی ہیں اور خوشباش بھی۔
٭٭٭٭
اعتراف نیب
....O چیئرمین نیب کا بیورو کے متاثرین سے ملاقات میں ماضی کے غلط اقدامات پر معذرت کا اظہار۔
جب ایک ادارے کا چیئرمین اپنے متاثرین سے اس بات پر معافی مانگے کہ نیب نے ماضی میں غلط اقدامات کئے، تو یہ اچھی بات ہے مگر یوں لگتا ہے کہ جیسے نیب نیب کی زبانی حرفِ غلط ہے۔
....Oوزیر اعظم شہباز شریف: یقین ہے ہاکی کا کھیل دوبارہ عروج حاصل کرے گا۔
یہ تو حکومت پر ہے کہ وہ ہاکی کو کب کرکٹ کی طرح نوازتی ہے، ویسے وزیر اعظم کو بہت ’’جلدی‘‘ ہاکی کا دوبارہ عروج یاد آیا۔
....O حافظ نعیم: ملک میں مافیا کسانوں کا استحصال کر رہا ہے۔
حکومت ہی حافظ نعیم کی تشویش کا مداوا کر سکتی ہے، اور یہ کہ مافیا ایک تو نہیں مافیاز نے ملک کو جکڑا ہوا ہے۔
٭٭٭٭
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)