سانحہ9مئی کو ایک سال ہو گیا۔ اس سانحہ میں کلیدی کردار اد ا کرنے والوں کو تاحال قرار واقعی سزا نہیں دی گئی البتہ معمولی نوعیت کے جرم میں کچھ لوگوں کو ایک دن سزا تو ہوئی لیکن اگلے روز انہیں معافی بھی مل گئی ۔عام تاثر یہ ہے کہ اس سانحہ کے ’’منصوبہ سازوں‘‘ کو بھی قوم سے معافی مانگنے پر رہائی ملنے کا امکان ہے۔ فوج کے ترجمان نے بھی برملا اپنے جرائم کا اعتراف کرنے اور پوری قوم سے معافی کا تقاضا کیا تھا لیکن ’’کپتان‘‘ نے اس پیشکش کو انتہائی رعونت سے مسترد کر دیا اور کہا کہ ’’میں کیوں معافی مانگوں بلکہ مجھ سے وہ لوگ معافی مانگیں جنہوں نے مجھے ناحق جیل میں ڈال رکھا ہے۔‘‘ سانحہ 9مئی کے حوالے سے نگران حکومت نے ایک تحقیقاتی رپورٹ تیار کی ہے جو موجودہ حکومت کو پیش کر دی گئی ہے۔ یہ رپورٹ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں زیر بحث آئی لیکن اس کی تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔ البتہ اسکے کچھ حصے منظر عام پر آئے ہیں جو پرنٹ والیکٹرانک میڈیا کی زینت بنے ہیں۔ اب تک جو باتیں ’’لیک‘‘ ہوئی ہیں یا کی گئی ہیں وہ پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کے خلاف چارج شیٹ کی حیثیت رکھتی ہیں اور یہ تحقیقاتی رپورٹ سزا دلوانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ شاید بانی پی ٹی آئی اور دیگر سرکردہ لیڈروں کے خلاف مقدمہ چلانے کا وقت آ گیا ہے۔ لہٰذا اس رپورٹ کے لیک کرنے کا یہی مناسب وقت سمجھا گیا ہے۔ اگرچہ سرکاری طور پر سانحہ 9مئی کے بارے میں تحقیقاتی رپورٹ جاری نہیں کی گئی لیکن اب تک جو کچھ منظر عام پر آیا ہے اس سے سیاسی حلقوں میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ عمران خان معافی مانگنے کا جواب دے چکے، اب انہوں نے آرمی چیف کو خط لکھنے کا عندیہ دیا ہے۔ ممکن ہے جب تک یہ سطور شائع ہوں ان کے خط کے مندرجات منظر عام پر آ چکے ہوں۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ عمران خان آرمی چیف کے نام خط لکھیں اور پھر اس کے مندرجات کو خفیہ رکھیں۔ نگران حکومت کی تحقیقی رپورٹ میں کہا گیا ہے ’’یہ ایک منظم اور خطر ناک عمل تھا۔ جس کا مقصد نہ صرف افواج پاکستان پر عمران خان کے سیاسی مطالبات کی منظوری کیلئے دبائو ڈالنا تھا بلکہ فوج میں پی ٹی آئی کے حق میں بغاوت کرانے کی ایک کھلی کوشش تھی جو بوجوہ ناکام ہو گئی۔ اگر اس منصوبہ کو کامیابی حاصل ہو جاتی تو آج سیاسی منظر یکسر مختلف ہوتا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے ’’فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے کا مقصد فوج کا مورال ڈائون کرنا تھا‘‘ لیکن منصوبہ سازوں کو ہزیمت اٹھانا پڑی۔ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عمران خان نے کسی مرحلے پر 9مئی کے واقعات سے لا تعلقی کا اظہار نہیں کیا بلکہ اسے فطری رد عمل قرار دیا۔ تا حال وہ فوجی تنصیبات پر حملے کو ’’جرم‘‘ کے طور قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔ نگران حکومت کی تحقیقاتی رپورٹ میں فوجی تنصیبات پر حملوں کا مرکزی کردار عمران خان کو قرار دیا گیا ہے۔ مختلف مقامات پر پی ٹی آئی کی دوسرے درجے کی قیادت نے جو گل کھلائے سوشل میڈیا کا ریکارڈ چیخ چیخ کر اس کی گواہی دے رہا ہے، لہٰذا پی ٹی آئی کی قیادت کیلئے اب ایک ہی راستہ ہے کہ وہ قوم سے معافی مانگے۔ پی ٹی آئی جو پارلیمان میں سنی اتحاد کونسل کی چھتری تلے موجود ہے پارلیمانی کارروائی میں بھرپور حصہ لے رہی ہے۔ اس طرح اس نے عملاً موجودہ سیٹ اپ کو تسلیم کر لیا ہے 90نشستوں پر اکتفا کرنے کی بجائے 180نشستوں کا مطالبہ کر کے موجودہ حکومت کو اپنے دبائو میں رکھنا چاہتی ہے۔ اب اس نے جوڈیشل کمیشن کے قیام کا مطالبہ کر دیا ہےجس کی منظوری کا امکان کم نظر آتا ہے۔
سنی اتحاد کونسل کی چھتری تلے پی ٹی آئی ارکان پارلیمنٹ نے بظاہر پارلیمان میں اودھم مچا رکھا ہے لیکن اس کی قیادت سپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے طلب کردہ ہائوس ایڈوائزری کمیٹی کے اجلاسوں میں بھی شرکت کررہی ہےگویا عملاً اس نے پارلیمان کو تسلیم کر لیا ہے۔ البتہ اس کے ارکان ایوان میں ہنگامہ آرائی کر کے اڈیالہ جیل کے’’ مکین‘‘ کو باور کرا رہے ہیں کہ وہ انکی رہائی تک خاموش نہیں رہیں گے۔ 9مئی کے واقعات میں ملوث کچھ سرکردہ لیڈر گرفتار کر لئے گئے تھے تاہم کچھ لیڈر ابھی تک روپوش ہیں جو گرفتار نہیں ہوئے۔ فوجی عدالتوں میں سویلینز کے خلاف مقدمات کی سماعت کا معاملہ بھی تاحال زیر التوا ہے شاید یہی وجہ ہے ایک سال گزرنے کے باوجود سانحہ 9مئی کے مرکزی کرداروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکی جس سے ان کے حوصلے بڑھ گئے ہیں۔ عمران خان کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ ان کے اڈیالہ جیل میں شب و روز خاصے مشکل سے گزر رہے ہیں لیکن درپردہ ان کی رہائی کیلئے بات چیت بھی چل رہی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ بر سر عام قوم سے معافی پر معاف کرنے کیلئے تیار ہے لیکن اڈیالہ جیل کا ’’مکین‘‘ بر سر عام معافی مانگنے میں لیت و لعل سے کام لے رہا ہے، اسٹیبلشمنٹ نے دو ٹوک الفاظ میں پیغام دے دیا ہے کہ قوم سے معافی مانے بغیر بات آگے نہیں بڑھے گی۔ اگرچہ عمران خان کی مختلف مقدمات میں ضمانتیں منظور ہو رہی ہیں لیکن تین مقدمات میں سزائیں ہونے کی وجہ سے ان کی فوری رہائی کا کوئی امکان نہیں۔ قومی اسمبلی میں حکومتی اتحادی اور اپوزیشن (سنی اتحاد کونسل) کے ارکان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ اور ایک دوسرے پر سنگین الزامات عائد کرنا معمول بن گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپوزیشن (سنی اتحاد کونسل) کو آڑے ہاتھ لیا اور طنزیہ انداز میں کہا کہ اپوزیشن جانتی ہے کہ کس کے پائوں پکڑنے ہیں اس لئے سیاست دانوں سے بات نہیں کر رہی۔ 9مئی کو احتجاج نہیں بلکہ یہ فوج اور حکومت کے خلاف بغاوت تھی اگر یہ معافی مانگنے کیلئے تیار نہیں تو پھر اس کا رونا دھونا جاری رہے گا، پارلیمان میں سپیکر ڈائس کا گھیرائو اپوزیشن کا معمول بن گیا، کسی ناخوش گوار واقعےسے بچنے کیلئے دونوں اطراف کی قیادت کو صبرو تحمل اور فہم و فراست کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔