پاکستان جن مشکل حالات سے گزر رہا ہے اور الیکشن کے باجود نہ سیاسی استحکام اور نہ معاشی استحکام کی توقع کی جا رہی ہے ایسے حالات میں جنگ جیو گروپ نے’’پاکستان کے لیے کچھ کر ڈالو‘‘ کا قوم و ملک کو سلوگن دے کر پاکستانی قوم اور ہر فرد کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ملک کی بہتری کے لیے تمام اختلافات کو پیچھے پھینک کر سیاسی جماعتوں اور تمام ریاستی اداروں کو ملک میں پیدا شدہ بحرانوں پر سوچنا ہے اور ملک کو ان سے باہر نکالنا ہے جنگ اور جیو گروپ نے ہمیشہ کی طرح ملک کی بہتری اور سوچ کو ڈیولپ کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کیا ہے جیو اور جینے دو کا بھی سلوگن دیا’’پاکستان کے لیے کر ڈالو‘‘ کے چند الفاظ میں بہت بڑا فلسفہ ہے جس پر ملک کے ہر مکتب فکر کےمثبت سوچ رکھنے والوں کے خیالات و نظریات پر روزانہ نشر یات کے ذریعےملک و قوم کو ایک دھارے میں لایا جا رہا ہے اور منفی سوچ کی نفی کی جا رہی ہے، اس سے رائے عامہ ہموار ہو رہی ہے اور سیاست دانوں تاجروں دانشوروں کی سوچ سے شعوری سوچ کو جنم دینے میں مدد مل رہی ہے۔
یہ سلوگن اپنے اندر بہت وسعت رکھتا ہے اور ہر پاکستانی کو اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ ملک نے بہت دکھ برداشت کر لیے غریب اور لاچار لوگ اپنے ملک میں رل گئے ہیں ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ۔ہم سب نے مل کر ملک کی تقدیر سنوارنی ہے اور جس طرح دنیا کے باقی ملک مثبت سوچ لیکر ترقی یافتہ بن گئے ہیں اسی طرح ہم نے بھی آگے بڑھتے ہی جانا ہے۔ ریاستی اداروں کو لڑائی جھگڑوں کو ختم کرنا ہے اور آئین کے اندر رہ کر پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
ملک کی تاریخ میں کئی بار جنرل الیکشن ہوئے حکومتیں بنیں لیکن جمہوریت مستحکم نہیں ہوئی بلکہ کمزور ہوئی کیونکہ اداروں نے مداخلت کے عمل کو نہیں چھوڑا عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کی جنگ بھی جاری رہی اور اختیارات کی اس جنگ میں ادارے کمزور ہوتے گئے اور ملک کمزور ہوا، قومی سوچ کو ہم پیچھےچھوڑتے گئے اور ملک کی ترقی کی وہ رفتار نہ رہی جو مسلسل رہنی چاہیے تھی ۔جس سے الیکشن بے سود ثابت ہوئے پارلیمان کمزور ہو ئی اور عدلیہ کو پارلیمان کے اختیارات کی تقسیم میں گھسیٹا گیا۔ جنگ اورجیو گروپ کا ’’پاکستان کے لیے کر ڈالو‘‘کا سلوگن اس پس منظر اور تناظر میں ہے جس پر روزانہ کی بنیاد پر رائے سامنے آ رہی ہے اور عوام کو بتایا جا رہا ہے کہ اتنے عرصہ سے یہ سب کچھ چلا آ رہا ہے اب ہم نے کیا کرنا ہے تو ہم نے پارلیمنٹ کی مضبوطی اور ملک کی کمزور بنیادوں کو مضبوط کر نے کے لیےاپنا اپنا حصہ ڈالنا ہے۔
’’پاکستان کے لیے کرڈالو‘‘کا مطلب یہ ہے کہ انفرادی مفادات کو قومی اور ملکی مفادات پر قربان کر دو کیونکہ انفرادی مفادات قربان کرنے کا یہ اب بہت اہم وقت ہے ایسے میں جب کے افواج پاکستان اور سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک خلیج ہے ، کسان سڑکوں پر ہے ادھر آزاد کشمیر میں بلوں اور آٹےکی گرانی کے خلاف تحریک سر اٹھائے ہو ئے ہے، جس کا بھر پور فائدہ بھارت اٹھا نے کی کوشش کر رہا ہے ۔
دوسری طرف ٹیکس کے اہداف پورے نہیں ہو رہے ہیں اور سمیں بند کر کے ٹیکس اکٹھا کرنے کی نا کام کوشش کی جا رہی ہے اصل مسئلہ ٹیکس کلچر کو پر موٹ کرنا ہے تاکہ لوگ خود بخود ٹیکس دیں اور ملک کی ضروریات ٹیکس سےپوری ہوں لیکن عوام ٹیکس دینے کی طرف اس لیے مائل نہیں ہیں کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ جو ٹیکس ہم نے حکومت کو دینا ہے وہ ہم پر خرچ نہیں ہونا ۔’’پاکستان کے لیے کر ڈالو‘‘ کا مقصد ان دلائل کی روشنی میں یہی ہے کیونکہ ملک کو بچانا ہے اور ملک کو جنت بنانا ہے تو عوام نے ہی کچھ کرنا ہے اور عوام کی سوچ نے آگے کی ترقی کے سفر کو جاری رکھنا ہے ۔جنگ اور جیو گروپ پر اس سلوگن کے ذریعہ بیانات آن آئیر ہو رہے ہیں اور قوم کو ایک پلیٹ فارم پر لایا جا رہا ہے۔ سیاست دانوںکولڑائیاں ختم کر کے متحد ہونے کی ترغیب دی جا رہی ہے ۔ دنیا بھر میں ایک طرف 78 کروڑ 30 لاکھ افراد بھوک کا شکار ہیں، جبکہ دوسری جانب عالمی سطح پر 20 فیصد خوراک ضائع ہو رہی ہے۔ا عداد وشمار کے مطابق 2022 میں 1اعشاریہ صفر1 ارب ٹن (تقریباً 19 فیصد) خوراک ریٹیلرز، گھروں سے باہر کھانے پینے کی جگہوں پر اور گھروں میں ضائع ہوئی۔مزید 13 فیصد خوراک اجناس کی کٹائی سے فروخت تک ترسیلی مراحل میں ضائع ہوئی، دنیا میں سب سے زیادہ خوراک گھروں میں ضائع ہوتی ہے جس کا سالانہ حجم 63 کروڑ 10 لاکھ ٹن ہے یہ ضائع ہونے والی مجموعی خوراک کا تقریباً 60 فیصد بنتا ہے باہر کھانے پینے کی جگہوں اور خرید و فروخت کے دوران بالترتیب 18 کروڑ اور 13 کروڑ 10 لاکھ ٹن خوراک ضائع ہوتی ہے۔ ہر فرد سالانہ اوسطاً 79 کلو خوراک ضائع کرتا ہے، یہ ایک عالمگیر المیہ ہے، خوراک ضائع ہونے کے سبب لاکھوں افراد بھوکے ہیں۔ بس پاکستان کے لیے کر ڈالو!
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)