• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جاری سال یعنی2014ء جہاں لاکھوں کروڑوں افراد کیلئے مسرت و شادمانی کا پیغام لا رہا ہو گا۔وہاں یہ دنیا کے پس ماندہ ممالک کے ان کروڑوں بچوں کیلئے آخری سانسوں کی خبر لا رہا ہے جو دنیا کی عدم توجہی کے باعث بیماریوں اور کم غذائیت سے موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔ یونیسیف کی رپورٹ کے مطابق اگر کوئی فوری اور مثبت قدم نہ اٹھایا گیا تو2020ء میں لگ بھگ دس کروڑ بچے غفلت کی وجہ سے ہلاک ہو جائیں گے۔
عالمی سطح پر بچوں کی صورتحال سے متعلقہ ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ بیماریوں سے تحفظ کا انجکشن نہ لگائے جانے کے بعد روزانہ آٹھ سو بچے جسم میں پانی کی کمی سے روزانہ چھ ہزار اور نمونیا سے سات ہزار بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جبکہ یہ زندگیاں بچانے کے لئے صرف3.5بلین ڈالر کی ضرورت ہے (سالانہ) اگر ترقی یافتہ ممالک تیسری دنیا، پس ماندہ ممالک، ترقی پذیر ممالک یا جو بھی نام دے لیں پر قرضوں کا بوجھ ختم کر دیں اور ہتھیاروں ،جنگی جہازوں اور میزائیلوں کے اخراجات میں کمی کر دیں تو اگلے دس برسوں کے دوران کم ازکم پچاس ملین بچوں کی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔ یونیسیف کا کہنا ہے کہ اموات کے اس تخمینہ میں نصف کمی کے پروگرام پر2.4 سے2.9ملین کے درمیان سالانہ خرچ آئے گا۔ یہ رقم ترقی پذیر ممالک کی طرف سے قرضوں کے بوجھ سے نکلنے کیلئے ہر ہفتے ادا کی جاتی ہے اس رقم سے لاکھوں بچوں کی زندگی بچائی جا سکتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے کاندھوں پر قرضوں کا یہ بوجھ انہیں اس المیہ کی طرف پوری توجہ دینے کا وقت نہیں دے رہا۔ویکسی نیشن کے ذریعے لاکھوں بچوں کو مرنے سے بچایا جا سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق تیس لاکھ بچے خسرہ ٹیٹنس (تشنج) اور کالی کھانسی کے باعث ہلاک ہو رہے ہیں اگرچہ یہ مرض پوری طرح قابل علاج ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ موت کے منہ میں جانے والے ان بچوں کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ ہماری طرف سے معاشی غلطیوں کو درست کرنے اور حالات کو بہتر بنانے کا انتظار کر سکیں۔ رپورٹ میں ترقی پذیر ممالک کی سطح پر اس بات کا یقین ظاہر کیا گیا ہے کہ تحفظ کے انجکشن ، نمونیا اور سانس کی دوسری تکالیف ،خاندانی منصوبہ بندی اور بچوں کی غذا کو بہتر بنا کر بہتر نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
ترقی پذیر ممالک جن میں بدقسمتی سے کشور حسین شاد باد بھی شامل ہے مستقبل میں اس ملک کو بہتر قوم دینے کے لئے آج کے بچوں کے حقوق کی حفاظت اور ان کو بہتر و صاف ستھری فضا میں پلنے بڑھنے کے مواقع فراہم کرنا ناگزیر ہے اس ضمن میں سرفہرست اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ یونیسیف ہے جو لگ بھگ 180 ممالک میں مائوں اور بچوں کی فلاح بہبود کیلئے1950سے کام کر رہا ہے۔ یہ ادارہ بچوں کے بارے میں معلومات کو عام لوگوں تک پہنچاتا ہے۔ ریڈیو، ٹی وی ،اخبارات اور کتابچوں کی مدد سے عام لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ بچوں کے حقوق اور ان کی ضروریات کیا ہیں۔ آپ یقیناً عام لوگ نہیں ہیں پھر بھی کیا مضائقہ ہے کہ آپ بھی جان لیں۔
اچھی خوراک اور لباس کے علاوہ پیارو محبت بچوں کا پیدائشی حق ہے۔
بچوں سے رنگ ،نسل، جنسی، مذہب، قوم، فرقہ اور سماجی رتبہ کا امتیاز نہ برتا جائے۔ امن اور بھائی چارے کی فضا میں پرورش کا موقع فراہم کیا جائے۔
’’ایک اچھا شہری بننے کیلئے تعلیم حاصل کرنا ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔ مادری زبان سیکھنا اور تعلیم حاصل کرنا آپ کا اخلاقی فرض ہے۔
سب سے پہلے ’’بچے‘‘ کی جان بچائی جائے۔ (ہنگامی حالات میں)
معذور بچوں پر خاص توجہ دی جائے۔
ہر بچے کی پہچان کے لئے اسے نام اور شہرت کا حق حاصل ہے۔
ہر بچے کو کھیل و تفریح کے مواقع ملنے چاہئے…
بچے قدرت کا ایک ایسا انمول اور حسین تحفہ ہے جو زندگی کو خوبصورت بتاتا ہے اس کو رعنائی بخشتا ہے اسکو معنی دیتا ہے۔ بچوں کے معصوم، خوبصورت ، پیارے ، پھول اور کلیوں کی طرح کھلکھلاتے اور مسکراتے چہرے اس دنیا کو رنگین اور دلکش بنا دیتے ہیں، ان کی دل موہ لینے والی گفتگو اور آواز فضا میں ترنم اور نغمگی بکھیر دیتی ہے۔ بچوں کی معصوم اور پاکیزہ حرکتیں اور بے ضرر شرارتیں انسان کے لئے نہ صرف خوشی اور زندگی کا پیغام لاتی ہیں۔ بچوں کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں کہ جب تک یہ پھول اور کلیاں موجود ہیں ہماری زندگی کا باغ مہکتا رہے گا ۔
آج جب دنیا کے ترقی یافتہ ممالک چاند پر کمندیں ڈالنے کا دعویٰ کر رہے ہیں اور قریبی بیماریوں ،کم غذائیت اور بھکمری کو جڑ سے مٹانے کا بھی عہد کر رہے ہیں اس وقت ایسی دلخراش خبریں واقعی قابل تشویش ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ چند برسوں میں دنیا نے زندگی کے ہر میدان میں ترقی کی ہے اور وہیں یہ بات بھی اتنی ہی سچ ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں ہی غریبی، مفلسی اور غذائیت کی کمی میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے اور عالمی تنظیمیں کوششوں کے باوجود اس پر لگام لگانے میں بری طرح ناکام ہیں۔ آئی ایل او کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور نیپال میں غربت ، بھکمری اور کم غذائیت کے مارے خاندان کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
میرے حساب سے اگرچہ یہ مسئلہ عالمگیر نوعیت کا ہے تاہم ایشیائی اور افریقی ممالک میں اس ضمن میں زیادہ بری حالت ہے کیونکہ ان ممالک میں بنیادی سہولیات کا ہی فقدان ہے یہی وجہ کہ ان ممالک میں بچوں کی شرح اموات کے خلاف جنگ میں اتنی تعداد میں بچوں کا زندہ نہ بچنا ان ممالک کی دکھتی رگ بن گیا ہے۔
جیسا کہ یونیسیف کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ہم 2020تک بچوں کی بھکمری اور کم غدائیت کے خلاف محاذ پر کامیابی حاصل کر لیں گے۔ اگر ایسا نہ ہو سکا اور اس معاملے میں پیش رفت نہ کی تو بچوں کی اموات کم کرنے میں ہماری پیش رفت رک جائے گی کہ یہ ننھے فرشتے جن سے دنیا میں سچائی اور معصومیت ابھی باقی ہے ہماری زندگی کو رنگین ہی نہیں بناتے بلکہ مستقبل کے معمار بھی ہیں یہ کسی بھی ملک کا وہ قیمتی سرمایہ ہیں جو آنے والے کل میں ملک و قوم کی وقت کا تقاضا ہے کہ انہیں آنے والے وقت (دشوار) کیلئے تیاری کیا جائے اور ان کو اتنا مضبوط ،متوازن اور صحت مند بنایا جائے کہ دنیا کی کوئی بھی طاقت اور لالچ اور غیر متوازی ،انتہا پسند اور اصولوں کے راستے سے نہ ہٹا سکے۔
میں بھی کوشش کرتا ہوں آپ بھی کیجئے …
تازہ ترین