• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر لغاری نے مجھے ’’بابائے اسپورٹس‘‘ کا خطاب دیا

پانچ عشروں سے کھیلوں کے فروغ کیلئے سرگرم، عطاء محمد کاکڑ سے بات چیت
پانچ عشروں سے کھیلوں کے فروغ کیلئے سرگرم، عطاء محمد کاکڑ سے بات چیت

بات چیت: وحید زہیر، کوئٹہ

عکّاسی: رابرٹ جیمس

کھیل کے میدانوں سے لے کر سیاست تک اور پھر سماجی خدمات میں بھی عطاء محمد کاکڑ کا گھرانہ ہمیشہ پیش پیش رہا ہے۔ عطاء محمّد کاکڑ کا شمار’’منی اولمپکس‘‘ کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ اُن کا باکسنگ کلب گزشتہ پانچ عشروں میں عالمی اور مُلکی سطح پر کئی نام وَر باکسر متعارف کرواچُکا ہے۔اِنہی خدمات پر صدر فاروق لغاری نے ایک موقعے پر انہیں’’ بابائے کھیل‘‘ کاخطاب دیا۔

عطاء محمّد کاکڑ تمغۂ امتیاز سمیت کئی اعزازات حاصل کرچُکے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹّو کی گرفتاری اور ماورائے عدالت قتل پر احتجاج کی پاداش میں کوڑوں کی سزا بھی بُھگتی، مگر پھر سیاست سے بدظن ہوگئے۔ گزشتہ دنوں اُن کے ساتھ ایک خصوصی نشست میں ہونے والی گفتگو جنگ، ’’سنڈے میگزین ‘‘کے قارئین کی نذر ہے۔

س: اپنے خاندان، تعلیم و تربیت سے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: میرے والد عبدالصمد کاکڑ اور دادا ،دوست محمّد کاکڑ تجارت پیشہ تھے۔ تحریکِ پاکستان کے سرگرم کارکن بھی رہے۔ والد، گالف کے عالمی کھلاڑی بھی تھے۔ نانا عبدالعزیز خان ایک معروف قبائلی شخصیت تھے اور عوامی خدمات میں ہمیشہ آگے آگے رہے۔ چچا حاجی امان اللہ کاکڑ بھی ہر دل عزیز شخصیت کے مالک تھے۔ مَیں 6جون1960ء کو کوئٹہ میں پیدا ہوا۔ 

اسلامیہ ہائی اسکول اور سنڈیمن ہائی اسکول سے میٹرک اور ڈگری کالج، کوئٹہ سے بی اے کیا۔ میری پانچ بیٹیاں ہیں۔ ایک بیٹی نے بی بی اے کیا ہے، دوسری صحافت میں ماسٹرز کرنے کے بعد اِس وقت لاہور میں سی ایس ایس کی تیاری کررہی ہے، جب کہ باقی تینوں بیٹیاں ابھی اسکول میں پڑھتی ہیں۔

س: باکسنگ سے کب دل چسپی پیدا ہوئی؟

ج: میرے خالہ زاد بھائی، اکبر محی الدّین باکسر تھے، اُنہیں دیکھ کر مجھے بھی باکسنگ میں دل چسپی پیدا ہوئی اور اُنھوں نے میری خواہش پر گھر کی بیٹھک میں باکسنگ رنگ بنایا، جب کہ والد نے بھی میرے اِس شوق کو بڑھاوا دیا۔بعدازاں، مَیں نے میر احمد خان روڈ پر باکسنگ کلب کی بنیاد رکھی، جو 1975ء سے خدمات انجام دے رہا ہے۔ 

مَیں نے قومی سطح پر بہت سے اعزازات حاصل کیے۔ میرے کلب سے محمّد وسیم علیزئی، رشید بلوچ، ریاض الدین، محمّد ارشد کاسی، محمّد شعیب، غنی مینگل، عبدالقدوس، عبداللہ اور محبوب جیسے باکسرز سامنے آئے۔ موجودہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، سیدال خان ناصر اور قاسم خان سوری بھی میرے شاگرد رہے ہیں۔ میرے چھوٹے بھائی، منظور کاکڑ ایشیا میں ریسلنگ کے چیمپئن رہے۔ صوبے میں کھیلوں کے فروغ کے ضمن میں اُن کا بھی اہم کردار ہے۔مَیں نے 1986ء میں کیوبا کے کوچز سے بھی باکسنگ کی تربیت لی۔

س: ’’ بابائے اسپورٹس‘‘ کے خطاب کی کیا کہانی ہے؟

ج: صدر فاروق لغاری نے1995ء میں نیشنل گیمز کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مجھے’’ بابائے اسپورٹس‘‘ کا خطاب دیا کہ مَیں نے ہی ’’مِنی اولمپکس‘‘ کی بنیاد رکھی تھی۔نیز، مَیں نے چلڈرن اسپورٹس فیسٹیولز کروائے اور ’’بلوچستان اسپورٹس ایوارڈ‘‘ کی داغ بیل ڈالی۔ پاکستان کی تاریخ میں ہمارا ریکارڈ ہے کہ ہم نے سیف گیمز میں گیارہ میں سے دس گولڈ میڈلز حاصل کیے۔ میرے کلب کی باکسر ملائکہ نے بلوچستان کی سطح پر پوزیشن لی۔

س: آپ اب تک کون کون سے اہم اعزازات اپنے نام کر چُکے ہیں؟

ج: مجھے انٹرنیشنل اولمپک ایوارڈ، نیشنل اسپورٹس ایوارڈ، ایکسی لینس ایوارڈ، پرائڈ آف پرفارمینس اور تمغۂ امتیاز ملا ہے، جب کہ ستارۂ امتیاز کا معاملہ گردش میں ہے۔

س: آپ ایک زمانے میں سیاست میں بھی تو فعال رہے ہیں؟

ج: جی جی۔ میرے بڑے بھائی حاجی شیر زمان کاکڑ اُن چھے افراد میں شامل تھے، جنہوں نے بلوچستان میں پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ میرے چچا، سائنس کالج ،طلبہ یونین کے پہلے سیکریٹری رہے۔ مَیں نے بڑے بھائی کا ساتھ دیا اور پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ مجھے این ایس ایف کا مرکزی سیکرٹری بنایا گیا۔ 

ہم نے ذوالفقار علی بھٹّو کے ماورائے عدالت قتل کے خلاف اور جمہوریت کی بحالی کے لیے احتجاج کیا، تو گرفتار کرلیے گئے۔ مجھے حیدرآباد جیل میں 15کوڑوں کی سزا سُنائی گئی۔ وہاں جسمانی تشدّد اور کوڑوں کی وجہ سے میری صحت کافی متاثر ہوئی، مگر کھیلوں سے وابستگی نے مفلوج ہونے سے بچائے رکھا۔

س: پھر سیاست کیوں چھوڑ دی؟

ج: جب مخلص رہنماؤں اور کارکنان کی قربانیاں فراموش کر دی گئیں، سیاست میں دروغ گوئی کو ناگزیر سمجھا جانے لگا، جب اس میں سرمایہ کاری ہونے لگی، نظریات پسِ پُشت ڈال دئیے گئے، رشوت، سفارش اور اقربا پروری عام ہو گئی، تو 1994ء میں، مَیں نے سیاست کو خیر باد کہہ دیا۔

س: سیاست میں آپ کس سے متاثر ہوئے؟

ج: ذوالفقار علی بھٹّو، ولی خان، میر غوث بخش بزنجو، معراج خالد اور معراج محمّد خان واقعی مُلک و قوم کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے تھے۔ مجھے ان رہنماؤں کی شخصیت اور افکار و نظریات نے بے حد متاثر کیا۔ مگر ان کی قائدانہ صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھانے کی بجائے سازشیں کی گئیں، جن سے نہ صرف مُلک دو لخت ہوا، بلکہ باقی ماندہ پاکستان کو بھی زوال کی جانب دھکیل دیا گیا۔ اگر اب بھی ماضی کی غلطیوں کا ازالہ نہ کیا گیا اور سازشی عناصر کی باقیات کو نہ روکا گیا، تو مُلک کو مزید نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔

س: کیا کھیلوں کے معاملات بھی سیاست جیسے ہیں؟

ج: ظاہر ہے، عمومی معاشرتی حالات سے تمام ادارے متاثر ہوئے اور ہو رہے ہیں۔ اب کرکٹ، ہاکی، اسکواش یا اولمپکس گیمز میں وہ کارکردگی کہاں ہے، جس پر کبھی ہم سَر اُٹھا کر چلا کرتے تھے۔ 35، 40 سال تک جنرل(ر) عارف جیسے لوگ عُہدوں سے چمٹے رہے۔ جب تک پروفیسر انور چوہدری، لالہ ایّوب، نقی بٹ اور سردار خیر محمّد جیسے مخلص لوگ متحرّک تھے، پاکستان، کھیلوں میں نیپال، مالدیپ، سری لنکا اور بھارت سمیت بہت سے ممالک سے آگے ہی رہا۔

پھر یہ کہ مختلف اداروں، کارخانہ داروں اور محکموں نے کھلاڑیوں اور اُن کی تنظیموں کی سرپرستی چھوڑ دی۔ ریلوے، پی آئی اے، اسٹیل ملز، واپڈا، مارکر فیکٹری، آرڈیننس ڈپو اور بینکس وغیرہ بھی، جو ایک زمانے میں کھیلوں اور کھلاڑیوں کی بھرپور سرپرستی کیا کرتے تھے، سیاست کی نذر ہوگئے یا پھر ان کی ترجیحات ہی بدل گئیں۔

س: بلوچستان میں کھیلوں کی کیا صُورتِ حال ہے؟

ج: یہاں بہت محدود پیمانے پر کھیلوں کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔ پاکستان اسپورٹس بورڈ کا کردار نہ ہونے جیسا ہے۔ محکمۂ کھیل سابقہ کھلاڑیوں کو سالانہ پچاس ہزار تک امداد دیتا ہے،یہ امداد ماہانہ ملنی چاہیے۔ نیز، صرف اُنہی تنظیموں کو گرانٹ دی جانی چاہیے، جو عملی طور پر کچھ کر رہی ہوں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ اب بھی بعض اضلاع میں قائم اسٹیڈیمز میں کھیلوں کی سرگرمیاں جاری ہیں۔

بے روزگار کھلاڑیوں کو ملازمتوں میں ترجیح دینی چاہیے، سیاسی جماعتوں میں اسپورٹس ونگز بنانے چاہئیں، جب کہ کھیل کی وزارت کسی کھلاڑی ہی کو دینی چاہیے۔ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ علی نواز مینگل جیسا باکسنگ کا بہترین کھلاڑی بے روزگار پِھر رہا ہے، اِسی طرح شازیب رند ہمارا فخر ہے۔ پروفیسر انور چوہدری18سال عالمی باکسنگ ایسوسی ایشن کے پریذیڈنٹ رہے، تو ہمارے کھلاڑی خواجہ فاروق کی سربراہی میں کامن ویلتھ اور ایشیئنز گیمز سے میڈلز لاتے رہے۔ 

ماضی میں ہم نے دین محمّد بروہی، محمّد اکرم، عبدالحکیم جیسے باڈی بلڈرز، تاج سینئیر، اکبر رئیسانی، قیوم چنگیزی، گل محمّد گلو، نواز بلوچ، سلطان کھوڑو، علی بخش جیسے فُٹ بال کے کھلاڑی، ریاض الدّین، ابرار حسین، اصغر چنگیزی جیسے باکسرز، منظور کاکڑ، جمعہ خان، اسماعیل بازئی اور عبدالسّلام جیسے ریسلرز دیئے۔ ہاکی میں ذیشان اشرف ہمارا فخر رہا، جب کہ اب محمّد وسیم اور شازیب کے چرچے ہیں۔ جوڈو کراٹے اور دیگر کھیلوں میں خواتین نے بھی کافی نام کمایا ہے۔

س: کھیلوں میں تشدّد سے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟

ج: تشدّد پر مبنی کھیل اولمپکس کا حصّہ ہیں، تاہم میدان میں گرے یا زخمی کھلاڑی پر وار نہیں کیا جاتا اور اِس ضمن میں اولمپکس کھیلوں کے قوانین بہت سخت ہیں۔ یہ انسانوں کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے، ریچھ اور کُتوں کی لڑائی نہیں ہوتی۔ ہم اپنے باکسرز کی جہاں فزیکل تربیت کرتے ہیں، وہیں اُنہیں اخلاقیات کا بھی درس دیتے ہیں۔ طاقت وَر ہونا ایک نعمت ہے، مگر اسے دوسروں کے لیے زحمت کا باعث نہیں بننا چاہیے۔

س: کبھی بیرونِ مُلک کھیلوں کے آفیشلز میں شامل رہے؟

ج: کبھی یہ موقع نہیں دیا گیا۔ کھیل کے شعبے میں رشتے داریاں اور دوستیاں نبھانے والوں نے ہمیں مایوس کردیا ہے۔

س: کیا آپ کے کلب کو سرکاری گرانٹ ملتی ہے؟

ج: بالکل نہیں۔ ہمارے ہاں ایک سو میں سے دس کھلاڑی فیس دینے کے قابل نہیں ہوتے، یہاں تک کہ بعض کھلاڑیوں کے لیے گلوز کا بندوبست بھی ہمیں ہی کرنا پڑتا ہے۔ہم نے کلب کے لیے اپنی قیمتی جائیداد وقف کی ہے اور اپنے کاروبار سے اس کے اخراجات برداشت کرتا ہوں۔ کلب کی ایک رضاکارانہ باڈی بھی ہے، جس میں عنایت کاسی، سردار طارق دمڑ اور انجینئر زمرک شامل ہیں۔

س: خواتین کی کھیلوں میں دل چسپی کتنی ہے؟

ج: سابق سینیٹر روبینہ عرفان خواتین فُٹ بال ایسوسی ایشن کی صدر رہ چُکی ہیں۔ اُن کی بیٹی فُٹ بال کی اچھی کھلاڑی تھیں۔ موجودہ وزیرِ تعلیم راحیلہ درّانی رائفل شوٹنگ کراٹے کی کھلاڑی رہ چُکی ہیں۔ مارشل آرٹ کراٹے میں بھی بلوچستان کی بچیوں نے اعزازات حاصل کیے ہیں اور اب بھی بڑی تعداد میں بچیاں اس کھیل میں حصّہ لے رہی ہیں، تاہم اُنہیں سرپرستی اور بہترین ماحول فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ 

بعض اسکولز، کالجز اور یونی ورسٹیز کے میدان آباد ہیں، مگر سائنس کالج، ایّوب اسٹیڈیم اور ہاکی گراؤنڈ جیسے میدانوں میں سیاسی جلسے نہیں ہونے چاہئیں۔ اکثر تعلیمی اداروں میں کھیلوں کی سرگرمیاں کم ہوئی ہیں، جس کے سبب ہم مِنی اولمپکس بھی محدود پیمانے پر کروا رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ عدم سرپرستی اور سیاسی حالات بھی ہیں۔

س: یعنی صوبے میں کھیل کے میدانوں اور گرانٹس کی کمی ہے؟

ج: جی بالکل، کوئٹہ جیسے بڑے شہر کے باسیوں تک کو میدان اور پارکس نصیب نہیں۔ اِن حالات میں ہم اُن سے صحت مند سرگرمیوں کا تقاضا کیسے کرسکتے ہیں۔ یہاں کے لوگ تو اِن ڈور گیمز تک کو ترستے ہیں۔ تنگ و تاریک کمروں میں کلبز قائم ہیں، جب کہ ان کی بھاری بھر کم فیسز نوجوانوں کی خواہشات کے سامنے رکاوٹ ہیں۔

پھر یہ کہ ڈی سی یا کمشنر کے ناموں پر ٹورنامنٹس کروانے کی بجائے یہ ایونٹس نام وَر کھلاڑیوں کے نام کرنے چاہئیں، سڑکیں ان کے نام سے موسوم ہوں۔ ہم اے کیو راجا، ڈاکٹر محمّد علی شاہ اور ائیر مارشل نور خان جیسے لوگوں کو بھول گئے ہیں، جن کی کھیلوں کے فروغ میں شان دار خدمات رہیں۔ 

ہمارے ہاں میر غوث بخش بزنجو فُٹ بال کے کھلاڑی رہے، نواب اکبر خان بگٹی کرکٹ کے کھلاڑی تھے، نواب ذالفقار مگسی نہ صرف کھلاڑی تھے، بلکہ کھیلوں کے انعقاد اور کھلاڑیوں کے مسائل حل کرنے میں بھی پیش پیش رہتے ، فقیر حسین جیسے بہت سے افسران کھیلوں کا حصّہ رہے ہیں۔1985ء کی مجلسِ شوریٰ میں آغا لیاقت نے کھیلوں اور کھلاڑیوں کی نمائندگی کی۔

نوجوان ایم این اے، جمال رئیسانی فُٹ بال کے کھلاڑی ہیں۔ خواتین میں شائستہ لغاری، ثریا الہٰ دین، خورشید بروچہ، فزیکل اسکول کی پرنسپل محترمہ زلیخا کی خدمات کی بھی قدر کی جانی چاہیے۔ ہمارے کھلاڑیوں کے ساتھ بہت زیادتیاں ہوئی ہیں اور اب بھی ہو رہی ہیں۔ مثلاً علم دین کاکڑ پر سائوتھ ایشین گیمز، ویٹ لفٹنگ میں ہمیشہ کے لیے پابندی لگانے کے لیے پیراسٹامول کے استعمال کا الزام لگایا گیا۔

س: آپ کے کلب میں داخلے کا کیا طریقۂ کار ہے؟

ج: ہم چھے سال کے بچّوں سے داخلہ شروع کرتے ہیں۔ اکثر بچّوں کے والدین اُنہیں خود لے کر آتے ہیں۔ روزانہ تین گھنٹے پریکٹس کرواتے ہیں۔ یہ کام انتہائی نازک ہے کہ معمولی سی غفلت سے بھی بچّے ایک دوسرے کو نقصان پہنچا سکتے ہیں، اِس لیے ہم اپنی پوری توجّہ اُن پر مرکوز رکھتے ہیں۔

س: کون سی خُوش بُو پسند ہے؟

ج: کھلاڑیوں کو اپنے پسینے سے زیادہ انسیت ہوتی ہے۔ ہمارا زیادہ وقت دھوپ یا بند کلبز میں گزرتا ہے۔ درحقیقت، ہماری کارکردگی ہی ہمیں طرح طرح کی خُوش بُوؤں کا احساس دِلاتی ہے۔

س: کھیلوں کے فروغ کے ضمن میں حکومت اور اداروں سے کیا کہنا چاہیں گے؟

ج: میرٹ کی پامالی اور ناانصافیوں کے ذریعے ہم سے اسپورٹس مین اسپرٹ چھینی جا رہی ہے۔ صرف باتوں، وعدوں یا اعلانات سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، ہم میں سے ہر شخص کو کھیلوں سے اپنے اخلاص کو عملی طور پر ثابت کرنا ہوگا۔ بلوچستان کے نوجوانوں کی مایوسیاں ختم کرنے کے لیے اُنھیں تعلیمی سہولتیں فراہم کی جائیں اور اُن کی مثبت سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی یقینی بنائی جائے۔

سنڈے میگزین سے مزید