تاریخی شہر،بیورٹن میں دوستوں سے ملاقات
بیورٹن (Beaverton)ریاست ہائے متحدہ امریکا کی ریاست، اوریگون میں واقع واشنگٹن کاؤنٹی کا ایک شہر ہے، جس کا ایک چھوٹاسا حصّہ پورٹ لینڈ سے متصل وادی Tualatin میں ہے۔ یہ نہ صرف کاؤنٹی کا اقتصادی مرکز بلکہ اوریگون کا ساتواں سب سے زیادہ آبادی والا شہرہے۔1915ء میں’’ فورڈ موٹر کمپنی‘‘ یہیں قائم کی گئی تھی، جب کہ معروف ’’بیورٹن پریمیم پکچر پروڈکشن اسٹوڈیو‘‘ نے یہاں سے تقریباً پندرہ فلمیں تیار کرکے ریلیز کیں۔ بعدازاں، اس اسٹوڈیو کو ہوائی جہاز بنانے والی کمپنی میں تبدیل کردیا گیا۔
قصبے کی پہلی لائبریری1925ء میں تعمیر کی گئی۔ ہمارے ایک دوست، نبیل احمد بھی اس تاریخی قصبے میں ایک عرصے سے اپنی فیملی کے ساتھ مقیم ہیں، انھیں ہماری امریکا آمد کی اطلاع ملی، تو بصدِ اصرار اپنے گھرمدعو کرلیا۔ دعوت قبول کرکے 15اکتوبر 2023ء کوہم دل کش و خُوب صُورت وادیوں سے گزرتے ہوئے نبیل احمد کے دولت خانے پہنچے، تو انھوں نے ہمارا، اپنی فیملی کے ساتھ گھر کے مرکزی دروازے پر پُرتپاک خیرمقدم کیا۔
نبیل کا تعلق لاہور سے ہے اور اُن کی فیملی پچھلے چودہ سال سے بیورٹن میں مقیم ہے۔ اُن کے کشادہ لاؤنج میں پاکستانی نژاد دو امریکن فیملیز پہلے ہی سے براجمان تھیں، جن میں سے سکندر صاحب کا تعلق بہاول نگر، جب کہ معید صاحب کا تعلق خانیوال سے تھا۔ دونوں ہی لمز، لاہور سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد سے امریکا میں مقیم ہیں۔ نبیل نے ظہرانے پر پاکستان کے روایتی پکوان کا خاص اہتمام کر رکھا تھا۔
دسترخوان پر کئی اقسام کے روایتی دیسی پکوان کے ساتھ مزے دار نہاری بھی موجود تھی۔ کراچی کا بندہ کہیں بھی چلا جائے، اُسے اگر نہاری مل جائے، تو اُس کی بھوک کُھل جاتی ہے۔ خُوب سیر ہوکر کھانا تناول کرنے کے بعد پرانی یادیں تازہ کرنے، مختلف موضوعات پر بات چیت کا جو طویل سلسلہ چلا، تو وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلا اور شام ہوگئی۔
بہرحال، چارو ناچار اُٹھنا ہی پڑا کہ اگلے روز ہمارے کچھ انتہائی عزیز دوست تقریباً پانچ گھنٹے کا طویل سفر طے کرکے سری سٹی (Surrey City)، برٹش کولمبیا، کینیڈا سے بطور خاص ہم سے ملنے رجفیلڈ تشریف لانے والے تھے۔ دوسرے روز حسبِ پروگرام ہمارے چاروں دوست تشریف لے آئے۔
ان دوستوں سے برسوں بعد ملاقات ہوئی، تو یادوں کے کئی دریچے وَا ہوگئے کہ ہمارے اِن دوستوں نے کراچی آرائیں برادری کی ’’تنظیمِ آرائیاں‘‘کے حوالے سے برادری کی فلاح و بہبود کے لیے بیش بہا کارہائے نمایاں انجام دیئے۔
’’ملٹنومہ آب شار‘‘ اور ’’پٹاک مینشن‘‘
سیّاحتی اعتبار سے اوریگون اسٹیٹ میں واقع ملٹنومہ آب شار اور پٹاک مینشن کی تعریف سُنی تو فوراً ہی وہاں کی سیّاحت کا پروگرام بنا کر دوسرے روز روانہ ہوگئے۔ ملٹنومہ آب شار، پورٹ لینڈ (اوریگون اسٹیٹ) کے مضافات میں واقع ہے۔ دراصل صدیوں سے انتہائی بلند عمودی پہاڑوں کے بیچ سے بہنے والی آب شار کا پانی گردونواح میں ڈھلوان بناتا ہوا نیچے پہنچ کر بہت بڑے علاقے تک پھیل جاتا ہے۔ اس کی زمین سے اونچائی 620فٹ اور پانی گرنے کی مقدار 50کیوبک فٹ فی سیکنڈ ہے۔
ہم آب شار کی طرف جانے والی کشادہ ذیلی سڑک سے آگے بڑھے، تو گاڑیوں کا ازدحام نظر آیا۔ پارکنگ کی جگہ تلاش کرنے میں ہمیں دو تین کلومیٹر کا سفر مزید طے کرنا پڑا۔ بالآخر پارکنگ ملی، تو گاڑی کھڑی کرکے تھوڑی دور پیدل چلے تو آب شار کے اُس مقام پر پہنچ گئے، جہاں سیّاحوں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ اس مقام پر کھانے پینے کی اشیاء کی دکانوں پر سیّاح قطار میں کھڑے اپنی پسند کی اشیائے خورو نوش خرید رہے تھے، تو کچھ فاصلے پر سوینیئر شاپ پر بھی ونڈو شاپنگ کرنے والے سیّاحوں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔
سڑک سے آب شار صاف نظر آرہی تھی اور سیّاح اُسے قریب سے دیکھنے کے لیے جُوق دَؔر جُوق بڑھے چلے جارہے تھے، تو ہم بھی اُن ہی کے پیچھے چل دیئے۔ اس دوران ایک مقامی سیّاح نے اس بلند ترین، عظیم الشّان آب شار سے متعلق ایک دیومالائی کہانی سنائی کہ’’صدیوں پہلے اس آب شار کی تشکیل اُس وقت ہوئی، جب ایک نوجوان عورت نے، لوگوں کو قصبے میں پھیلنے والی طاعون کی وبا سے بچانے کے لیے چٹان سے چھلانگ لگا کر خُود کو عظیم رُوح کے لیے قربان کردیا۔
اس کے بعد ملٹنومہ کے باشندوں کو اس موذی مرض سے نجات مل گئی۔ اس عورت کی موت کے بعد، پانی چٹان کے اوپر سے بہنے لگا اور اُس سے یہ آب شار بن گئی۔‘‘ ظاہر ہے، ہمیں اس افسانوی کہانی پر ذرّہ برابر بھی یقین نہ آیا، لیکن اس کا شکریہ ادا کرکے آگے بڑھ گئے۔ اوریگون کی یہ سب سے بلند آب شار، ریاست میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے سیّاحتی مقامات میں سے ایک ہے۔ ہم بھی بہت دیر تک اس مقام پر مبہوت کھڑے آب شار کے نظارے سے لُطف اندوز ہوتے رہے۔
پورٹ لینڈ، اوریگون اسٹیٹ، امریکا میں واقع، محل نما خُوب صُورت عمارت، پٹاک مینشن (Pittock Mansion) بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ عمارت، فرانسیسی طرزِ تعمیر کا ایک عظیم شاہ کار ہے، جسے لندن سے تعلق رکھنے والے اوریگونین پبلشر، ہنری پٹاک اور اُن کی اہلیہ، جارجیانا برٹن پٹاک نے اپنی ذاتی رہائش کے لیے 1914ء میں تعمیر کروایا تھا۔ جارجیانا 1918ءمیں 72سال کی عُمر میں اور ہنری 1919ء میں84سال کی عُمر میں انتقال کرگئے۔ تاہم، پٹاک خاندان 1958ءتک حویلی میں رہائش پذیر رہا۔
بعدازاں، اسے قومی ورثہ قرار دے کر سیّاحوں کے لیے کھول دیا گیا۔ گھر میں مرکزی ویکیوم سسٹم، انٹرکام، بالواسطہ روشنی کا انتظام، ایک لفٹ اور واک اِن ریفریجریٹر جیسی آسائشوں کے علاوہ عمارت کے ایک کمرے میں اُس وقت کا ائرکنڈیشننگ سسٹم بھی نصب ہے، جو موسم کے لحاظ سے اسے گرم یا سرد رکھتا ہے۔ اُس روز بھی عمارت کے اندرونی حصّے کو گرم رکھنے والا وہی پرانا سسٹم چل رہا تھا۔
اس ضمن میں پوری عمارت کے اندر ہر جگہ، یعنی کچن، واش رومز سمیت ہر کمرے میں بہترین کوالٹی کے پائپس اور متعلقہ سسٹم کے انسٹرومنٹس بچھائے گئے ہیں۔ عمارت میں کھانے اور چائے کے معیاری برتن موجود ہیں۔ فرنیچر بھی معیاری اور انتہائی دیدہ زیب ہے۔ واش رومز اور کچن میں پانی گرم کرنے کے لیے وہی پرانے زمانے کے گیزر لگے ہوئے ہیں۔
نچلی منزل میں بوائلر روم اور ایک میوزیم بھی ہے۔ چاروں طرف سے اونچے اونچے درختوں سے گِھری، بلندی پر واقع پٹاک مینشن سے نیچے دیکھنے پر پورٹ لینڈ شہر کا نظارہ انتہائی دل فریب معلوم ہوتا ہے۔
پورٹ لینڈ، جاپانی گارڈن
پورٹ لینڈ، جاپانی گارڈن کو اگر ایک بہترین سکون بخش پناہ گاہ قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ یہاں دل کش انداز سے ڈیزائن کیے گئے مناظر اس کے حُسن و جمال میں اضافہ کرتے ہیں۔ اوریگون واشنگٹن میں واقع پورٹ لینڈ کا یہ خُوب صُورت و پُرفضا مقام، مقامی اور غیر مقامی سیّاحوں کے لیے ایک پُرسکون نخلستان کی حیثیت رکھتا ہے۔1963ء میں ڈیزائن کیے گئے 12 ایکڑ رقبے پر محیط اس باغ کے آٹھ حصّے ہیں، جن میں جاپانی ٹی ہاؤس، گھومتی ہوئی ندیاں اور مائونٹ ہڈ وغیرہ شامل ہیں۔
ہم حسبِ سابق وینکوورسے ہوتے ہوئے پورٹ لینڈ گارڈن کے نزدیک پہنچے، تو ہر طرف گاڑیوں کی لمبی قطاریں نظر آئیں۔ پورٹ لینڈ کو جانے والی بڑی سڑک کے اطراف گاڑیوں کی طویل پارکنگ تھی، جب کہ گارڈن میں چاروں طرف سیّاحوں کی بھیڑ کی وجہ سے خُوب گہما گہمی تھی اور مرکزی دروازے پر ٹکٹ کے حصول کے لیے سیّاحوں کی لمبی قطار لگی ہوئی تھی۔
ہم نےچوں کہ پہلے ہی سے آن لائن بکنگ کروا رکھی تھی، اس لیے قطار کے جھنجھٹ اور لمبے انتظار سےبچ گئے اور کائونٹر پرآن لائن خریدا گیا ٹکٹ دکھا کر نوابوں کی طرح آگے بڑھ گئے۔ گارڈن کے اندر جانے اور واپس آنے والوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ تھوڑے ہی آگے سامنے سوینئر شاپ نظر آئی، تو اندر چلے گئے،اور جی بھر کے ونڈو شاپنگ کے مزے لوٹنے کے بعد مزید آگے گئے توپانی کا ایک بڑا تالاب نظر آیا، جس میں رنگ برنگی مچھلیاں تیر رہی تھیں۔
رنگ برنگے پھولوں کے پودوں اور بڑے بڑے درختوں نے تالاب کے چاروں طرف کے ماحول کو انتہائی مسحور کُن بنا رکھا تھا۔ اس مقام پر چیڑ، صنوبر اور دیودار کے درختوں کی اونچائی دو سو فٹ سے بھی زیادہ ہوگی۔ بہرحال، ہم ان باغات کی کوئی ڈیڑھ گھنٹے کے سیر کے بعد اپنی دنیا میں واپس آئے۔ پارکنگ تک مارچ کیا اور گاڑی میں بیٹھ کر واپسی کی راہ لی۔
سیر سپاٹے کے بعد عربوں کی ایک دکان سے حلال گوشت، انڈین اسٹور سے سبزیاں اور گھر کی ضرورت کی دوسری اشیاء خریدیں اور جیسے ہی گاڑی میں سامان رکھنے کے لیے اسٹور سے باہر نکلے، تو بارش سے سامنا ہوگیا۔ برسات کے سہانے موسم نے گرما گرم سموسے، پکوڑے کھانے پر مجبور کردیا۔
انڈین کیفے میں اِردگرد نظر دوڑائی، تو سب ہی کھانے پینے کی کسی نہ کسی چیز پر ٹوٹے پڑے تھے اور برسات کے موسم کو خوب انجوائے کر رہے تھے۔ امریکا آنے کے بعد اُس روز پہلی بار انڈین کیفے کے ویٹر سے پنجابی میں بات کی ، تو دل جیسے باغ باغ ہوگیا۔
بحری جہاز کا سہانا سفر
26 نومبر 2023ء بروز اتوارہمارے امریکا میں گھومنے پھرنے کا آخری دن تھا۔ اُس روز ہمارا اوریگون اسٹیٹ میں ’’پورٹ لینڈ اسپرٹ کروز‘‘ (بحری جہاز)کے سفر سے لُطف اندوز ہونے کا پروگرام تھا۔ جھنجھٹ سے بچنے کے لیے حسبِ عادت ہم نے پہلے ہی سے آن لائن بکنگ کروالی تھی۔ اپنی گاڑی کمرشل پارکنگ میں کھڑی کر کے کروز پر پہنچے، تو اندر داخل ہوتے ہی سب سے پہلے ہمیں ایک ہال میں پہنچادیا گیا، جہاں برنچ (ناشتے اور ظہرانے کا مشترکہ کھانا) کا خاص اہتمام تھا،لوگ انواع و اقسام کے لذیذ لوازمات سے مستفید ہورہے تھے، ہم بھی اُن میں شامل ہوگئے۔
برنچ کے بعد اپنی نشستیں سنبھالی ہی تھیں کہ ٹھیک دو بجے دوپہراسپرٹ کروزنے دریائے کولمبیا میں اپنے سفر کا آغاز کردیا۔ دو منزلہ کروز پر کُل ایک سونشستیں تھیں اور سب ہی پُر تھیں۔ کروز، پانی پر دھیرے دھیرے تیر رہا تھا، دریا کے کنارے دُور تک متموّل امریکیوں کے ترتیب سے بنے خُوب صُورت، شان دار مکانات بہت بھلے لگ رہے تھے۔
گھروں کے سامنے اُن کی چھوٹی بڑی کشتیاں بھی کناروں کے ساتھ کھڑی تھیں۔ پورٹ لینڈ کے درمیان سے دریائے کولمبیا سانپ کی طرح خم کھاتا ہوا دو، تین مقامات سے گزرتا ہے اور ہر مقام پر دو دو تین تین منزلہ پُل پر دوڑتی گاڑیاں انتہائی دل کش نظارہ پیش کرتی ہیں۔ اُن دنوں واشنگٹن کا درجۂ حرارت منفی تین تک پہنچا ہوا تھا، تاہم، اس وقت دھوپ نکلی ہوئی تھی، جس کی وجہ سے عظیم دریا، کولمبیا پرکروز کا سفر کافی سہانا ہوگیا۔
امریکا سے واپسی..... پورا دن کہاں گیا؟
آخرکار ڈھائی ماہ پر محیط امریکا کا طویل سفر اختتام کو پہنچا اور ہماری واپسی کی تاریخ آگئی۔ یکم دسمبر 2023ء کو دوپہر 12بج کر30منٹ پر رجفیلڈ، وینکوور سٹی سے سیاٹل ائرپورٹ کے لیے روانہ ہوئے۔ ائرپورٹ پہنچتے ہی ترکش ائرلائن کے کاؤنٹر پر سامان بُک کروانے کے بعد بورڈنگ پاس لے کرلائونج میں بیٹھ گئے۔
شام 6 بجے طیارے نے استنبول، ترکیہ کے لیے اُڑان بھری۔ سیاٹل سے استنبول کی پرواز12گھنٹے پر محیط تھی، جس کی وجہ سے کافی تھکن ہوگئی۔12گھنٹے کی پرواز کے بعد استنبول ائرپورٹ پر اترے، تو اُس وقت بھی شام کے 6ہی بج رہے تھے۔ ہماری بیگم کے مطابق، صبح کے6 بجنے چاہیے تھے۔ ہم نے بتایا کہ صبح کے نہیں، شام ہی کے چھے بج رہے ہیں، تو وہ ماننے کو تیار ہی نہ تھیں کہ شام کے6بجے ہیں۔
اُن کا یہی اصرار تھا کہ اگر اِس وقت بھی شام کے چھے بج رہے ہیں، تو پورا دن کہاں گیا؟ استنبول ائرپورٹ پر ہمیں مزید چار گھنٹے قیام کرنا تھا، استنبول تا کراچی کی پرواز ایک گھنٹہ لیٹ ہوگئی۔ اس لیے ہم ایک بجے جہاز پر سوار ہوئے اور 5گھنٹے کی پرواز کے بعد6بجے کراچی ائرپورٹ پر بخیر و عافیت اُترگئے، جہاں اہلِ خانہ، دوست احباب ہمیں ہاتھوں ہاتھ لینے کو منتظر کھڑے تھے۔ (ختم شد)