• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

31 مئی 1935ء کی رات، تین بج کر تین منٹ پر کہ جب کوئٹہ کے باسی دُنیا و مافیہا سے بے خبر محوِ خواب تھے، اچانک آنے والے ہول ناک زلزلے نے پورا شہر تہہ و بالا کر کے رکھ دیا تھا۔ اس قدرتی آفت کے نتیجے میں 70ہزار سے زاید افراد لقمۂ اجل بنے، جب کہ سیکڑوں زخمی ہو گئے۔ زلزلے کا مرکز، بلیلی کے قریب واقع، کوہِ تکتو تھا۔ شہر کے وسط سے گزرنے والے سٹی نالے کی دوسری جانب ایک فوجی چھاؤنی قائم تھی، جہاں زلزلے کی شدّت نسبتاً کم محسوس کی گئی۔ 

زلزلے کے بعد تمام مواصلاتی رابطے منقطع ہو گئے۔ اس دوران اسٹاف کالج کے انسٹرکٹر، جنرل کیچر نے گھر سے باہر نکل کر دیکھا، تو چہار سُو آگ لگی ہوئی تھی اور لوگ چیخ وپکار کرتے ہوئے دیوانہ وار بھاگ رہے تھے۔ جنرل کیچر نے فوراً اپنی گاڑی نکالی اور چھاؤنی میں موجود فوج کے اعلیٰ افسران کو زلزلے کی سنگینی سے متعلق بتایا۔ 

زلزلہ تین بج کر تین منٹ پر آیا تھا اور پانچ بج کر 20منٹ پر برطانوی فوج نے پورے شہر کا کنٹرول سنبھال کر آگ بجھانا شروع کردی تھی۔ فوج نے ہنگامی بنیادوں پر شہر کے مختلف علاقوں میں فیلڈ اسپتال قائم کیے اور زلزلہ زدگان کو ریسکیو کرنے کے بعد زخمیوں کو طبّی امداد فراہم کرنے کے لیے اُن اسپتالوں میں منتقل کیا، جب کہ فوری طور پر پٹریوں سے ملبہ ہٹاکر ریل گاڑیوں کی آمدروفت بحال کر دی گئی۔

1935ء کے اس ہول ناک زلزلے نے چند منٹوں میں پورے کوئٹہ شہر کو صفحۂ ہستی سے مٹا کر رکھ دیا۔ تاہم، اس انتہائی ہلاکت خیز قدرتی آفت کے بعد باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعے شہر کی از سرِ نو آباد کاری کی منصوبہ بندی کی گئی اور اس دوران عوام کی تمام تر بنیادی سہولتوں کو خصوصی طور پر پیشِ نظر رکھا گیا۔ ’’گلوبل شیلٹر کلسٹر‘‘ کی ’’ارتھ کوئیک‘انڈیا1935ء‘‘ نامی کیس اسٹڈی کے مطابق زلزلے سے تباہ شُدہ شہر کی تعمیرِ نو کے عمل کی نگرانی برطانوی حکومت کی جانب سے قائم کر دہ ’’کوئٹہ تعمیرِ نو کمیٹی‘‘ کے پاس تھی،جس میں فوجی اور سول حُکّام شامل تھے۔ 

اس موقعے پر بلوچستان کے مقامی حکومتی عُہدے داران نے مقامی فوجی اور محکمۂ صحت کے حُکّام کے ساتھ مشاورت کے ذریعے نئے شہر کی تعمیر کے لیے منصوبے تشکیل دیے اور اُنہیں مرکزی حکومت کے سامنے پیش کیا۔ اس منصوبے میں کُشادہ گلیوں اور فراہمی و نکاسیٔ آب کے مربوط نظام کی تعمیر بھی شامل تھی۔ کوئٹہ شہر کی از سرِ نو تعمیر کے منصوبے میں گلیوں کو اس انداز سے ڈیزائن کیا گیا کہ آئندہ زلزلے کی صورت میں نہ صرف شہری بہ آسانی محفوظ مقامات پر منتقل ہو سکیں، بلکہ ریسکیو ٹیمز بھی کسی دقّت کے بغیر زلزلہ متاثرین تک رسائی حاصل کر سکیں۔

یکم فروری 1937ء کو کوئٹہ کے آخری وارڈز کو دوبارہ کھول دیا گیا اور ایک نیا مستقل بلڈنگ کوڈ نافذ کیا گیا۔ یاد رہے کہ یہ پہلا موقع تھا کہ جب کسی میونسپلٹی میں لازمی بلڈنگ کوڈ نافذ کیا گیا۔ اس موقعے پر تعمیر کی لاگت میں اضافے کے سبب املاک کے مالکان نے بلڈنگ کوڈ کے خلاف احتجاج کیا۔ تاہم، مقامی حکومت بلڈنگ کوڈ پر عمل درآمد پر مُصر رہی۔ 

ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی، بلوچستان کی ایک رپورٹ کے مطابق، برطانوی انجینئر، ہنری اوڈن ٹیلر کو شہر کی تعمیرِ نو کی ذمے داری سونپی گئی اور انہوں نے اینٹوں اور سریے کا استعمال کرتے ہوئے عمارت کی تعمیر کے نئے معیارات متعارف کروائے۔ 

ہنری اوڈن کی تعمیراتی تیکنیک کی کام یابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1941ء میں جب شہر میں ایک مرتبہ پھر شدید زلزلہ آیا، تو ان عمارات کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا۔ زلزلے کے خطرے کے پیشِ نظر کوئٹہ میں سات اقسام کے مکانات اور عمارات تعمیر کرنے کی اجازت دی گئی اور اس ضمن میں پہلے نمونے کے طور پر کچھ مکانات اور عمارتیں تعمیر کی گئیں۔ یہ مکانات اور عمارتیں شدید زلزلے کو بھی سہہ سکتی تھیں۔

انگریزوں نے سب سے پہلے کوئٹہ کے جنوب مشرق میں ٹِن کے مکانات تعمیر کیے، جس کی وجہ سے اس علاقے کو ’’ٹِن ٹاؤن‘‘ سے موسوم کیا گیا اور یہ ٹائون آج بھی کاسی روڈ پر موجود ہے۔ لکڑی اور اینگل آئرن سے ان مکانات کا ڈھانچا تیار کر کے ٹِن کی مدد سے ان کی دیواریں اور چھتیں تعمیر کی گئی تھی ،جب کہ اندرونی جانب موٹا گتّا یعنی ہارڈ بورڈ لگایا گیا۔ 

یہ مکانات کی سات اقسام میں سے پہلی قسم تھی، جب کہ اسی طرح کے کچھ مکانات ریلوے ملازمین کے لیے بھی تعمیر کیے گئے، جو آج بھی موجود ہیں۔ یہ مکانات پٹریوں کے درمیان نصب لکڑی کے سلیپرز اور لوہے کی پٹیوں کی مدد سے تیار کیے گئے، جو دو کمروں، صحن، اسٹور اور باتھ روم پر مشتمل تھے۔ ان مکانات کو کچھ اس انداز سے تعمیر کیا گیا کہ سطحِ زمین سے ایک سے دو فٹ نیچے بنیادیں ڈالی گئیں اور ان بنیادوں میں چُونے کے پتّھر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے اور سیمنٹ شامل کیا گیا۔ 

پھر ان میں 4سے 5فٹ کے فاصلے پر لکڑی کے شہتیر لمبائی کے رُخ اِستادہ کیے گئے۔ بعدازاں بنیادوں پر ریت، بجری اور سیمنٹ کی ایک ہلکی سی تہہ بچھانے کے بعد اُن کے اوپر 9انچ موٹی دیوار لکڑی کے شہتیروں کے درمیان چُن دی گئی، جب کہ شہتیروں کو دیواروں میں مضبوطی سے پیوست کرنے کے لیے ہر شہتیر کے ساتھ لوہے کی موٹی پلیٹوں کا ایک سِرا ٹھونک کر دوسرے سِرے کو اینٹوں کے درمیان چُن دیا گیا۔ 

بنیاد پر چُنی گئی دیواریں عموماً چار سے پانچ فٹ بلند تھیں۔ اس کے بعد دیواروں پر ریت، بجری اور سیمنٹ کے آمیزے کی ایک تہہ بچھائی گئی۔ شہتیروں کا وہ حصّہ، جو دیوار سے اوپر تھا، اُسے ڈھانچے پر باہر کی جانب ٹِن کی چادروں سے کیلوں کی مدد سے جوڑا گیا، جب کہ اندرونی جانب لکڑی کی آدھی انچ موٹی اور چھے انچ چوڑی پٹیاں لگائی گئیں اور ان پر مٹی کے گارے کا پلستر کر دیا گیا۔ 

بعض مکانات کی بیرونی جانب ٹِن کی چادروں کی بہ جائے لوہے کی سوراخ دار جالیاں لگا کر انہیں سیمنٹ ملی درمیانے درجے کی موٹی بجری سے بَھر دیا گیا، جو خُشک ہونے کے بعد پُختہ ہو جاتیں اور یہ مکانات بھی زلزلہ پروف ہوتے۔ ان مکانات کی بلندی بارہ فٹ سے زیادہ نہیں ہوتی تھی اور ان سب کی چھتیں ٹِن کی موٹی چادروں پر مشتمل ہوتیں ، جو لکڑی کے شہتیروں پر نٹ بولٹ کی مدد سے کَسی جاتیں۔

زلزلے کے بعد از سرِ نو آباد کیے گئے کوئٹہ شہر میں ملبوسات کی خرید و فروخت کے لیے جناح روڈ پر کپڑا مارکیٹ اور پھلوں، سبزیوں کی خرید و فروخت کے لیے میزان چوک (باچا خان چوک) پر مارکیٹ قائم کی گئی۔ نیز، یہیں پر ایک مٹن مارکیٹ بھی بنائی گئی۔ ذرایع آمد و رفت کے لیے چار عدد ٹیکسی اسٹینڈز بنائے گئے۔ 

ہر قسم کی سہولتوں سے آراستہ ایک فائر بریگیڈ قائم کیاگیا اور وسیع رقبے پر محیط سنڈیمن صوبائی اسپتال تعمیر کیا گیا، جہاں مفت علاج معالجے سمیت کھانے کی سہولت بھی دست یاب تھی۔ اسپتال میں صاحبِ حیثیت مریضوں کے لیے خصوصی کمرے اور وارڈز تعمیر کیے گئے، جن کا کرایہ مناسب تھا۔ اُس دَور میں شہر میں ڈیلائٹ سنیما، ریگل سنیما، عِصمت سنیما، پیرا ڈائز سنیما، نشاط سنیما، امداد سنیما اور غازی سینما موجود تھے، جو دوپہر تین بجے سے رات گئے تک کُھلے رہتے اور ان میں ہر جمعے کو نئی فلم ریلیز ہوتی۔

مالی باغ میں وقتاً فوقتاً فُٹ بال کے ٹورنامنٹس منعقد ہوتے اور اس موقعے پر پورے صوبے سے شائقینِ فُٹ بال میچز دیکھنے آتے۔ نو تعمیر شُدہ کوئٹہ شہر میں صفائی سُتھرائی کا نظام لائقِ تحسین تھا۔ جا بہ جا کُوڑا دان نظر آتے ، جن میں شہر بھر کا کچرا جمع کیا جاتا۔ 

شہر میں برف باری کے مناظر دیکھنے کے لیے مُلک بَھر سے لوگ آتے۔ تب کوئٹہ واقعی ’’لٹل پیرس‘‘ تھا۔ تاہم، اب کوئٹہ کی پُرانی یادگاریں آہستہ آہستہ معدوم ہوتی جا رہی ہیں۔ اب وہ سنیما گھر باقی نہیں رہے کہ جن کی وجہ سے رات گئے تک شہر میں رونق رہتی تھی۔ اسی طرح شہر کے مشہور ہوٹلز بھی اب نہیں رہے، جو سیاسی و سماجی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتے تھے۔ اکثر کُوڑا دانوں پر قبضہ مافیا نے دُکانیں اور مکانات تعمیر کر لیے ہیں۔ کوئٹہ میں لیاقت پارک، شملہ پہاڑی ٹائون ہال پارک اور کمیٹی پارک میں شہری تفریح کے لیے آتے تھے اور اب یہ پارک بھی تقریباً ختم ہو چُکے ہیں۔ 

ٹاؤن ہال پاک میں عام افراد کا داخلہ ممنوع ہے، جب کہ کمیٹی باغ، جہاں ہزاروں کی تعداد میں درخت، پُھول اور کیاریاں تھیں، سکیورٹی اداروں کے زیرِ تصرّف ہے۔ کسی دَور میں فُٹ بال اور فُٹ بالرز کے اعتبار سے کوئٹہ مُلک گیر شُہرت کا حامل شہر تھا، لیکن اب یہاں بڑے بڑے فُٹ بال ٹورنامنٹس کا انعقاد نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے اور تانگوں کی جگہ موٹر سائیکلوں، رکشوں اور دیگر گاڑیوں نے لے لی ہے۔ نتیجتاً ماضی کا پُر فضا اور خُوب صُورت شہر رفتہ رفتہ آلودگی اور مسائل کا گڑھ بنتا جا رہا ہے۔

مذکورہ بالا مسائل سے زیادہ تشویش ناک اَمر یہ ہے کہ کوئٹہ میں ایک مرتبہ پھر زلزلے کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ ماہرینِ ارضیات کے مطابق 89سال بعد، کوئٹہ فالٹ لائن پر دوبارہ 1935ء جیسے زلزلے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں۔ یاد رہے کہ اس طرح کے ہول ناک زلزلے ہر سو سال بعد دوبارہ آتے ہیں۔ دوسری جانب1935ء سے لے کر اب تک ہر سال 8ملی میٹر کی رفتار سے زمین فالٹ لائن کے ساتھ سِرک رہی ہے اور کوئٹہ کے آس پاس واقع پہاڑ زمین سے نکلنے والی توانائی کا ذخیرہ کر رہے ہیں۔ 

ماہرینِ ارضیات کا ماننا ہے کہ بالائی سطح پر زمین کا سرکنا تو نظر آرہا ہے لیکن زیرِ زمین سرکنے کا عمل اُس وقت تک رُکا رہے گا کہ جب تک زلزلہ نہیں آجاتا اور زلزلے ہی سے مدافعتی قوّتوں کا اثر کم ہوگا۔ آج کوئٹہ میں 1935ء کی نسبت صورتِ حال انتہائی خطرناک ہے۔ ہر چند کہ کچھ عمارتیں بلڈنگ کوڈ کے مطابق تعمیر کی جا رہی ہیں، لیکن انہیں بھی خطرات درپیش ہیں، کیوں کہ اکثر مکانات فالٹ لائن کے بہت قریب ہیں۔ 

نیز، گلیاں اور سڑکیں بھی سُکڑ گئی ہیں۔ ایسے میں زلزلے کی صورت میں گیس پائپ لائنز میں آگ لگنے اور پانی کی قلّت کا خدشہ پیدا ہوجائے گا۔ اگر خاطر خواہ اقدامات نہ کیےگئے، تو خاکم بہ دہن شہر کی موجودہ صورتِ حال کے پیشِ نظر زلزلے کے نتیجے میں ناقابلِ تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔