• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹھنڈی راتوں کےشہر حیدر آباد میں گیس کے سلنڈر پھٹنے سے اب تک 14ہم وطن موت سے ہمکنار ہوچکے ہیں۔کوئٹہ کی کان میں دم گھٹنے سے کئی مزدور جان کی بازی ہار چکے ہیں۔کراچی میں ہر روز ڈاکوئوں کے ہاتھوں ایک ہم وطن بھری جوانی میں موت کے اندھیروں میں دھکیلا جارہا ہے۔

سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخوا، پنجاب، گلگت بلتستان، آزاد جموں و کشمیر سے ایسی ہولناک خبریں آتی رہتی ہیں۔ جو چیخ چیخ کر یہ پیغام دیتی ہیں کہ ہمارا انتظامی ڈھانچہ ناکارہ ہوچکا ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور کمشنر اپنے فرائض نیک دلی سے انجام نہیں دے رہے ہیں۔ کلیدی عہدوں پر تقرریاں وزیروں، ارکان اسمبلی کی فرمائش پر ہوتی ہیں۔ اس لیے یہ پولیس افسر، سول افسر صرف انکی خوشنودی کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ یہ سول سرونٹ(شہریوں کے خادم) نہیں ہیں بلکہ سامراجی گماشتوں کے گماشتے ہیں۔

واہگہ سے گوادر تک 24کروڑ چہرے سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں۔ ریاست اور شہریوں کے درمیان عمرانی معاہدہ آئین 1973 کی شکل میں موجود ہے۔ طاقتور لوگ اسے چند صفحات کی بے کار سی کتاب سمجھتے ہیں۔ ہر گھر میں، ہر دکان دفتر میں ایک ہی سوال ہے۔ اب کیا ہوگا، ہمارا قرضہ کیسے اترے گا، روزمرہ زندگی معمول کے مطابق کب ہوگی۔ متانت سنجیدگی کی رکی ہوئی ہوا کب چلے گی۔ یہ بھی عام تاثر ہے کہ 1985 سے باری باری حکومت کرنے والی سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں سے توقع نہیں کی جاسکتی کہ انکی حکمت عملی سے ملک مستحکم ہوسکتا ہے۔ کیونکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی بے قدری، ترقیاتی منصوبوں کی عدم تکمیل اور قرضوں کا بوجھ تو انہی ادوار میں بڑھا ہے۔ یہ بد نظمی شاخسانہ تو تین قوتوں کی نا اہلی کا ہے۔ مگر رسوائی اور بدنامی صرف ’ن لیگ‘ کے حصے میں آرہی ہے۔

امید تھی کہ 28 مئی 2024 کو 26 سال پہلے 28 مئی 1998 کو ایٹمی تجربے کی جرأت کرنے والے، تین بار اس عظیم مملکت کے چیف ایگزیکٹو رہنے والے، امریکہ یورپ سعودی عرب میں زندگی کی بہاریں دیکھنے والے۔ پارلیمانی جمہوریت، صدارتی نظام اور بادشاہتوں کا قریب سے مشاہدہ کرنے والے جب لب کھولیں گے تو آئندہ دس پندرہ سال کیلئے اپنا وژن دیں گے۔ ماضی میں آپ نے جو کچھ کیا اس کا خمیازہ تو قوم بھگت رہی ہے۔ خیال تھا کہ درد مند پرویز رشید، با بصیرت احسن اقبال، عصری شعور رکھنے والے عرفان صدیقی میاں صاحب کو 90سے نکال کراکیسویں صدی میں لے آئیں گے اور آئندہ کیلئے ایسی مدبرانہ حکمت عملی کا اظہار کروائیں گے کہ پاکستان کی اکثریت یہ کہے گی کہ 24 کروڑ کو اس بد حالی سے میاں صاحب ہی نجات دلاسکتے ہیں۔

ادھر تاریخ مشاہدہ کررہی ہے کہ اس بے کس اور 40 فی صد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارتی قوم میں پاکستان تحریک انصاف اور اسکے بانی مقبول ہورہے ہیں۔ اپریل 2022 سے ان کی مقبولیت بڑھتی ہی جارہی ہے۔ جب کسی قوم میں قیادت کا بحران ہو تو ایسا ناگزیر ہوتا ہے۔ لیکن ہر گزرتا لمحہ یہ سرگوشی بھی کررہا ہے کہ اس طرح پی ٹی آئی کے بانی اور پاکستان تحریک انصاف قوم اور بالخصوص نوجوانوں کی مقروض ہوتی جارہی ہے۔ انکی آزمائش میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ جن توقعات کے پورا نہ ہونے سے ان تین قوتوں سے مایوسی بڑھی ہے۔ اب وہی توقعات پی ٹی آئی سے وابستہ کی جارہی ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کی اس مقبولیت کا امتحان بہت جلد ہونے والا ہے۔ سائفر میں بھی سرخروئی ہوچکی ہے۔ صرف شادی کا مقدمہ رہ گیا ہے پھر عوام کی طرف سے زور بڑھے گا۔ ’’قدم بڑھائو عمران خان۔ ہم تمہارے ساتھ ہیں‘‘ پھر ہر صورت میں قدم ہی بڑھانے ہوں گے۔

عوام کا مسئلہ ہے۔ غیر ملکی قرضوں کا بوجھ۔ یہ قرضے اتریں گے تو قدم آگے بڑھیں گے۔ پی ٹی آئی کے پاس خیبر پختونخوا کی باگ ڈور ہے۔ آپ یہاں تجربہ کرکے کے پی کے کو مثالی صوبہ بناسکتے ہیں۔ تیسری بار آپ کو پشاور کی راجدھانی ملی ہے۔ اپوزیشن بھی اتنی طاقت ور نہیں ہے کے پی کے میں وسائل بھی بے حساب ہیں۔ اس صوبے نے گزشتہ 38 سال میں بہت قربانیاں دی ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں یہاں کے نوجوان ڈاکٹر، نرسیں، اسپتالوں کا عملہ بے جگری سے لڑا ہے۔ یہاں کی پولیس کو، یونیورسٹیوں کو سلام۔ خاص طور پر لیڈی ریڈنگ اسپتال کو آفریں ۔ کئی یونیورسٹیاں وائس چانسلروں کو ترس رہی ہیں۔ میرٹ پر یہ عہدے پُر کریں۔ عزیز و اقارب کی قربانی دیں۔ اب کے پی کے والے پورے ملک میں ٹرانسپورٹ پر چھائے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے صوبے میں بھی ٹرانسپورٹ کو منظم کرکے سیاحت سے اربوں ڈالر کماسکتے ہیں۔ زراعت، قیمتی پتھر ہیں۔ سارے وزیروں کو اپنے اپنے محکمے میں اپنے کام پر لگائیں۔ امین گنڈا پور با ہمت ہیں، وہ اپنے صوبے کے بزرگ سیاستدانوں، پروفیسرز، علماء سے ملنے خود جائیں۔ غلام محمد بلور نے جمہوریت کی بحالی کیلئے بہت صعوبتیں برداشت کی ہیں۔ انکی خدمت میں حاضر ہوں۔

پی ٹی آئی اپنے ماہرین معیشت کو ایک بند کمرے میں بٹھادے اور وہ اس وقت اٹھیں جب آئندہ پندرہ برس کا روڈ میپ بنالیں۔ قوم کو اعتماد میں لے کر بتائیں کہ یہ ہزاروں ارب روپے کا قرضہ کیسے اترے گا، کتنے سال کا ہدف ہوگا، ہم اپنے پائوں پر کیسے کھڑے ہوں گے، ہمارے کارخانے پوری گنجائش پر کب پیداوار دیں گے، بجلی، پانی، کب میسر ہوگا۔ بجلی کی پیداواری کمپنیوں سے معاہدہ ملک کی اقتصادی استطاعت کے مطابق کب اور کیسے ہوگا۔ 60 فی صد جوان آبادی کے توانا دست و بازو ملک کی ترقی کیلئے کب استعمال ہوں گے۔ ان کیلئے ایسا سازگار ماحول کیسے میسر آئے گا کہ وہ اجنبی ملکوں میں قیام کی آرزو ترک کردیں۔ ملک میں قانون کا نفاذ اشرافیہ اور سب کیلئے کب یکساں ہوگا۔ زرعی پیداوار فی ایکڑ کب بڑھے گی، کسان کو اس کا حق کب ملے گا، جاگیرداروں اور سرداروں کا غیر قانونی، غیر اخلاقی تسلط کب ختم ہوگا۔ ہمسایہ ممالک سے برابری کے رشتے کب قائم ہوں گے۔ پاکستان ریکوڈک سمیت سارے معدنی وسائل کا پوری طرح کب استعمال کرے گا۔ نوجوانوں کے لاپتہ کیے جانے کا سلسلہ کب رکے گا۔ آئی ایم ایف سے معاہدے پورے کرکے ہم اپنی معیشت خود کب سنبھالیں گے۔

وقت یہی ہے کہ پی ٹی آئی کو یہ روڈ میپ تیار کرلینا چاہئے۔ حکومت میں آنے کے بعد اسے کئی محاذوں پر لڑنا پڑے گا۔ اقتصادی روڈ میپ پر سب اداروں سے اتفاق ضروری ہے۔ فوج، عدلیہ، انتظامیہ سب کا تعاون ہوگا تب ہی اس سڑک پر چلا جاسکے گا۔ پی ٹی آئی اب عوام کا قرض چکانے کیلئے تیاریاں شروع کرے۔

تازہ ترین