گزشتہ سال مئی میں مہنگائی کی شرح تیس فیصد تھی ، اور اگرچہ رواں مئی میں یہ کم ہوکر گیارہ فیصد تک آگئی ، لیکن موجودہ مالی سال میں مہنگائی کی شرح ہنوز چوبیس فیصد ہے ۔ ہماری کمزور معاشی شرح نمو ، جو محض 2.2 فیصد ہے ، ہماری آبادی کی شرح میں اضافے ، 2.55 سے بھی کم ہے ۔ گزشتہ برس معاشی شرح نموصفر تھی ۔ اس طرح گزشتہ دو برس سے پاکستانی تین فیصد کی شرح سے غریب تر ہوگئے ہیں۔
گزشتہ دو برس سے کمر توڑ مہنگائی کی دو باہم مربوط بڑی وجوہات میں سے ایک اسٹیٹ بینک کی طرف سے بے تحاشا کرنسی نوٹ چھاپنا ، اوردوسری کرنسی کی قدر میںگراوٹ ہے ۔ بڑھتے ہوئے وفاقی خسارے کی وجہ سے کرنسی نوٹ چھاپنا پڑے ۔ 2010 کے این ایف سی ایوارڈ کی وجہ سے اس خسارے میں اضافہ ہو اہے ۔ کرنسی کی قدر میں تیزی سے گراوٹ اس لیے آئی کیوں کہ حکومت کو بھاری بیرونی قرضے ادا کرنا تھے۔ یہ قرضے ہم نے صرف تجارتی خسارہ پورا کرنے یا اپنے بھاری بھرکم درآمدی بل اور برائے نام برآمدات کے درمیان فرق کی وجہ سے ہی نہیں لیے تھے بلکہ گزشتہ کچھ برسوں سے میگامنصوبوں پر بھی یہی زرمبادلہ خرچ کیا تھا،ا ور ظاہر ہے کہ یہ منصوبے زرمبادلہ نہیں کماتے ۔ جب ان قرضہ جات کی ادائیگی کا وقت آگیا ،ا ور ہم حکومت کی غلط پالیسی غلطیوں کی وجہ سے نئے مالیاتی ذرائع تلاش کرنے میں ناکام رہے تو کرنسی کی قدر گر گئی ۔ بدقسمتی سے بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافے کی وجہ سے مہنگائی کو پر لگ گئے ۔ اب ہم جنوبی ایشیا کے زیادہ تر صارفین کو حاصل گیس اور بجلی کے بلند ترین نرخوں کا سامنا کررہے ہیں ۔ اس سے بھی بدتر یہ کہ ایشیا کی دیگر اقوام کی نسبت پاکستانی اپنی آمدنی کی شرح کا بلند ترین حصہ یوٹیلیٹی بلوں کی مد میں ادا کردیتے ہیں ۔اس کے باوجود اس شعبے کی غیر معیاری سروس، غلط پالیسیاں اور چوری کا یہ عالم ہے کہ دو عشروں تک کئی حکومتو ں کی کوششوں کے باوجود بجلی اور گیس کے شعبوں کا خسارہ ، جو زیر گردشی قرضے کی صورت میں سامنے آتا ہے ، پورا نہیں ہوسکا، اور نہ ہی حکومت کی طرف سے سبسڈی کے بغیر ان کا کام چلتا ہے ۔ مہنگائی ، جو اگرچہ ابھی بھی دوہرے ہندسوں میں ہے ، میں کمی آنے کی ایک وجہ انتہائی بلند شرح سود ہے جس نے معاشی شرح نمو کو جامد اور سرمایہ کاری کو کم کردیا ہے ۔ ہماری آبادی میں تیز اضافے کی وجہ سے کم از کم بیس لاکھ نوجوان ہر سال جاب مارکیٹ میں داخل ہوتے ہیں ، لیکن معیشت میں برائے نام شرح نمو کی وجہ سے مجموعی طور ملازمت کے مواقع پیدا نہیں ہوپاتے ۔ اس لیے مزید افراد کو روزگار نہیں ملتا۔چنانچہ سود کے بلند نرخوں نے مہنگائی کوتو کم کردیا ہے لیکن اس کی وجہ سے بے روزگاری ، غربت، میں مزید اضافہ ہوچکا ہے۔
آپ جو بھی معاشی متبادل اپنائیں ، اس کے فوائد ہوتے ہیں ، لیکن اس کی قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے ۔ نسبتاً کم مہنگائی سے فائدہ اٹھانے کیلئے ہم نے کاروبار اور بے روزگاروں پر بھاری ٹیکس عائد کردیے ۔ تاہم وفاقی یا صوبائی حکومتوں نے اس قربانی کیلئے اپنی گردن پیش نہ کی ۔ ان کے اخراجات بلاروک ٹوک بڑھ رہے ہیں ، اورہم خسارے کا بوجھ اپنے کندھوں پر لادتے چلے جارہے ہیں ۔ گزشتہ برس سے مہنگائی ، جو اپنی چوٹی پر تھی ، میں کمی لانے کا تمام تردبائو نجی شعبے اور ٹیکس دہندگان کو برداشت کرنا پڑا ۔ اگرچہ مئی 2024 میں حالات اچھے دکھائی دیتے ہیں ، مہنگائی ابھی تک دہرے ہندسے میں ہے ،اور پھر ایک مہینے کی بنیاد پر مجموعی صورت حال کی جانچ نہیں کی جا سکتی ۔
وزیراعظم اور کچھ وزرا اس وقت چین میں چینی قیادت سے ملاقاتیں کررہے ہیں ۔ا س دوران شاید چین کی بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو واجب الادا رقوم کا مسئلہ بھی اٹھایا جائے جو کہ 470 ارب روپے (1.68 بلین ڈالر) ہیں ۔ مزید یہ کہ آئی ایم ایف اور عالمی بینک چاہتے ہیں کہ ہم چین سے بات چیت کریں کہ ان کمپنیوں کو واجب الادا رقوم کو اگلے پانچ سال کیلئے ری شیڈول کردیا جائے اور ہم انھیں اگلے دس برسوں میں ادا کریں ۔ لیکن اگر چہ ہم گزشتہ ادائیگیاں مالی بحران کی وجہ سے موخر کرچکے ہیں ، حکومت کراچی سے پشاور تک ریلوے لائن کیلئے نیا قرضہ6.8بلین ڈالر(1900 ارب روپے) ہوگا، اور تھاکوٹ سے رائے کوٹ تک ریلوے لائن کے لیے دو بلین ڈالر(560 ارب روپے)حاصل کرنے کی کوشش میں ہے ۔ اگرچہ ہمیں چین کے سابق قرضے ادا کرنے میں دشواری کا سامنا ہے ، اورہم کئی ٹرلین روپوں کے قرضے اگلے پانچ سال کے لیے ری شیڈول کرانے کی کوشش میں ہیں اور اسی طرح اور بھی زیر تعمیر منصوبوں پر قرضے لیے ہوئے ہیں ، لیکن اس دوران ہم دو نئے منصوبوں کیلئے 2460 ارب روپے مزید لینا چاہتے ۔ کیا یہ ایسے منصوبوں کیلئے مزید بیرونی قرضے لینے کا وقت ہے جن کی ہم نہ تو معاشی طور پر سکت رکھتے ہیں اور نہ ہی وہ غیر ملکی زرمبادلہ کماسکیں گے کہ ہم یہ قرض اد کردیں ؟اطلاعات ہیں کہ ہماری حکومت بجٹ میں عوام کو کچھ ’’ریلیف‘‘ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ یہ ایک اچھا اقدام لگتا ہے، لیکن دو چیزوں پر غور کرنا ضروری ہے۔ ایک، حکومت کی طرف سے عوام کو ملنے والے ’’ریلیف‘‘کی ادائیگی مزید قرض لے کر کی جاتی ہے، جس کی وجہ سے مہنگائی بڑھ جاتی ہے۔ اس طرح غریب اور محنت کش طبقے کے لوگ ریلیف کے اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ دوئم، اکثر و بیشتر، ’’ریلیف‘‘ سیاسی طور پر طاقتور کو دیا جاتا ہے نہ کہ معاشی طور پر کمزور کو۔اگر پاکستان کو کبھی اس مالی بحران سے نکلنا ہے جس میں ہم نے خود کو الجھا رکھا ہے تو ہمیں دوبارہ غور کرنا ہوگا کہ اپنے وفاقی اور صوبائی بجٹ کو کس طرح فنانس کرتے ہیں اور اپنے ٹیکس نظام میں افقی اور عمودی مساوات کس طرح لاتے ہیں۔ لیکن اگر صرف تنخواہ دار اور متوسط طبقے، مینوفیکچرنگ کے شعبے اور کاروباری افرادپر ٹیکس لگائیں گے، اور سیاسی طور پر طاقتوروں کو تحفظ دیں گے، توہم ڈگمگاتے قدموں کیساتھ سامنے گہری مالیاتی کھائی کی طرف بڑھ رہے ہوں گے ۔