دینِ اسلام نے صاحبِ حیثیت مسلمانوں پر عیدالاضحیٰ کے موقعے پر جانوروں کی قربانی واجب قرار دی ہے۔ گرچہ یہ تہوار سُنّتِ ابراہیمیؑ کی پیروی کے طور پر منایا جاتا ہے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان، خصوصاً کراچی میں بہت سے لوگ اسے نمود و نمائش یا تفریحی میلے ہی کے طور پر مناتے ہیں۔
صاحبِ حیثیت افراد بڑے بڑے ، قوی الجثّہ جانور، جن کی قیمت لاکھوں میں ہوتی ہے، بقرعید سے کئی روز پہلے ہی خرید کر لے آتے ہیں اور ان کے لیے اپنے گھروں کے سامنے خیمے لگاتے ہیں، جو رات کے وقت بھی بقعۂ نور بنے ہوتے ہیں۔
پھر ٹینٹ ہی میں ان جانوروں کی نمائش لگتی ہے اور لوگ اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ آکر ان کا بڑے ذوق و شوق سے نظارہ کرتے ہیں۔ اکثر افراد عید سے تین، چار ہفتے قبل ہی قربانی کے جانور خرید لاتے ہیں اور پھر انہیں گلیوں، محلّوں میں گھمایا اور ٹہلایا جاتا ہے، جو لائف رِسک بھی ہے۔ اس ضمن میں یہ جواز فراہم کیا جاتا ہے کہ بچّوں کی وجہ سے جانور جلدی لانا پڑتا ہے، کیوں کہ وہ اسے محلّے میں گُھما پِھرا کر خوش ہوتے ہیں۔
درحقیقت، ایسے افراد نمود و نمائش اور بچّوں کی خوشی کو ترجیح دے کر قربانی کے اصل مقصد سے انحراف کے مرتکب ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حُکم کی تعمیل ہمارا فرض ہے، مگر بہت زیادہ قیمتی جانور خریدنے سے سب سے زیادہ فائدہ جانور پالنے اور اسے فروخت کرنے والے کو ہوتا ہے۔ اگر کوئی شخص قربانی کے لیے خطیر رقم خرچ کرنا چاہتا ہے، تو ا سے اوسط درجے کے ایک سے زائد جانور خریدنے چاہئیں، کیوں کہ اس طرح وہ زیادہ گوشت تقسیم کر سکتا ہے، جس سے مستحقین کو فائدہ ہو گا اور اُسے زیادہ ثواب ملے گا۔
ہمارے مُلک میں عیدالاضحیٰ کے موقعے پر جانور خریدنا بھی ایک مشکل مرحلہ ہے اور بہت سے لوگ خریداری کے دوران بھائو تائو نہیں کر پاتے۔ عام طور پر بیوپاری اوسط درجے کے جانور (گائے یا بیل) کے ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے طلب کرتے ہیں، لیکن سوا لاکھ میں سودا ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس سعودی عرب میں بیوپاری جانوروں کے دو سے تین ریوڑ لگاتے ہیں۔ ہر ریوڑ میں موجود جانوروں کی قیمت الگ ہوتی ہے۔
مثلاً ایک ریوڑ میں بکرا ایک ہزار ریال کا ہے، تو دوسرے ریوڑوں میں دو ہزار یا تین ہزار ریال کا ہوتا ہے اور خریدار ان ریوڑوں سے اپنی حیثیت اور پسند کے مطابق کوئی بھی جانور منتخب کرکے کسی بارگیننگ کے بغیر ریوڑ کے ریٹ کے حساب سے پیسے ادا کرتے ہیں۔ یوں ایک عام آدمی کے لیے جانور خریدنے کا عمل نہایت آسان ہو جاتا ہے۔
مزید برآں، ہم نے حج کے دوران سعودی عرب کے کسی محلّے میں یا گھر کے سامنے قربانی کا جانور بندھا نہیں دیکھا اور نہ ہی وہاں گھر کے سامنے قربانی کی اجازت ہے۔ سعودی عرب کے علاوہ بہت سے عرب ممالک میں گھر کے باہر قربانی کا جانور باندھنا اور اسے ذبح کرنا غیر قانونی عمل ہے اور اگر کوئی ایسا کرتا ہے، تو اسے حکومت کو جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔
سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک میں یا تو گھروں کے اندر قربانی کی جاتی ہے یا پھر حکومت کی طرف سے مختص کردہ قربانی سینٹرز پر۔ کراچی میں بھی ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) میں بھی کوئی شخص گھر کے سامنے جانور باندھ سکتا ہے اور نہ قربانی کر سکتا ہے اور خلاف ورزی کرنے والوں پر ڈی ایچ اے جرمانہ عائد کرتی ہے۔ نیز، یہاں بھی قربانی مخصوص قربانی سینٹرز ہی میں کی جاتی ہے۔
دوسری جانب اس حقیقت سے بھی مفر ممکن نہیں کہ عیدالاضحیٰ کے موقعے پر پورا شہرگویا گندگی کا ڈھیر بن جاتا ہے۔ گرچہ حکومت قربانی کے جانوروں کی آلائشیں اٹھانے کا مناست انتظام کرتی ہے، مگر اس کے باوجود جگہ جگہ خون دکھائی دیتا ہے ، بدبُو پھیلی ہوتی ہے۔ گلیاں خون آلود پانی سے بھری نظر آتی ہیں اور پھر اس گندگی و غلاظت کا اثر ایک عرصے تک شہر میں باقی رہتا ہے، جس سے نہ صرف ماحول بلکہ شہریوں کی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔ واضح رہے کہ دینِ اسلام نے صفائی کو’’ نصف ایمان ‘‘قرار دیا ہے۔
لہٰذا ہمیں حفظانِ صحت اور قربانی کے اصولوں کے سلسلے میں دوسرے اسلامی ممالک کی تقلید کرنی چاہیے۔ دوسری جانب ہماری حکومت سے بھی درخواست ہے کہ وہ عیدالاضحیٰ کے موقعے پر مندرجہ ذیل احکامات جاری کرے، تاکہ دیگر ممالک کی طرح ہمارے مُلک بالخصوص شہرِ کراچی میں عیدِ قرباں کو شرعی اور حفظانِ صحت کے اصولوں کے مطابق منایا جائے۔
1۔ قربانی کے لیے مخصوص مقامات کا بندوبست کیا جائے، تاکہ عید کے ایّام میں شہر صاف ستھرا رہے۔
2۔ قربانی کے جانور ٹہلانے پر پابندی عاید کی جائے۔
3۔ سرکاری سطح پر قربانی کے جانوروں کے نرخ مقرر کیے جائیں، تاکہ عام افراد کو ان کی خریداری میں آسانی ہو۔
ہمیں امید ہے کہ ان سفارشات پر عمل درآمد سے معاشرے پر مثبت اثرات مرتّب ہوں گے۔ (مضمون نگار، سابق ڈائریکٹر کے ڈی اے ہیں)