• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
فائل فوٹو
فائل فوٹو

وزیرِ اعلیٰ میر سرفراز بگٹی بلوچستان ہائی کورٹ میں پیش ہو گئے۔

بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد ہاشم کاکڑ اور جسٹس شوکت رخشانی پر مشتمل بینچ نے گندم خریداری میں مبینہ بےضابطگیوں سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

عدالت نے گندم خریداری میں مبینہ بےضابطگیوں سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔

محکمہٗ خوراک کی جانب سے محکمۂ اور ملازمین کے اخراجات سے متعلق رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی۔

وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ ایک لاکھ 50 ہزار بوری کسانوں کو دے چکے ہیں، باردانہ کی خریداری پر 4 کروڑ 20 لاکھ روپے خرچ ہوچکے ہیں، حکومت کو 1 لاکھ 50 ہزار بوری گندم کی خریداری کی اجازت دی جائے، گندم کی خریداری کے لیے مختص باقی ماندہ رقم فلاحی کاموں میں خرچ کریں گے۔

چیف جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ جو بار دانہ دے چکے اسے چھوڑ دیں زیادہ نقصان نہیں ہے، اس مد میں مختص باقی رقم بچا لیں، محکمہٗ خوراک کی جانب سے خریدی گئی گندم افغانستان اسمگل ہو جاتی ہے یا گوداموں میں سڑ جاتی ہے، محکمۂ خوراک والے اتنے ظالم ہیں کہ ایک بوری وزیرِ اعلیٰ کو بھی نہیں دیتے۔

میر سرفراز بگٹی نے کہا کہ جعفر آباد اور نصیر آباد میں گندم کی باقی ماندہ رقم سے فلاحی کام کریں گے، رقم سے نصیر آباد اور جعفر آبادمیں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ پر ٹیکنیکل کالج قائم کیا جائے گا، نصیر آباد اور جعفرآباد میں پینے کے صاف پانی کے منصوبے شروع کیے جائیں گے۔

چیف جسٹس ہاشم کاکڑ نے کہا کہ وزیرِ اعلیٰ کی تجاویز قابل تعریف ہیں،  سرکاری گاڑی کی الاٹمنٹ گریڈ پر کی جائے، ٹرانسفر پوسٹنگ تک وہی گاڑی افسران کے ساتھ رہے، مشاہدے میں آیا ہے سرکاری گاڑیوں کا غیر ضروری استعمال کیا جا رہا ہے، گندم کی نقل و حمل پر دفعہ 144 ختم کی جائے،  نصیر آباد ڈویژن میں سالانہ 1 کروڑ 20 لاکھ گندم کی پیداوار ہوتی یے، حکومت دفعہ 144 نافذ کر کے صرف 5 لاکھ بوری گندم کی خریداری کرتی ہے، 95 لاکھ بوری لوگوں کے گھروں میں پڑی خراب ہو جاتی ہے، چیف سیکریٹری بلوچستان سے متعلق بہت سی شکایات ہیں، چیف سیکریٹری کی جو کارکردگی خیبر پختونخوا میں تھی وہ یہاں نہیں رہی، وزیرِ اعلیٰ کی تجاویز اچھی ہیں لیکن فیصلے میں عدالت بھی تجاویز دے گی۔

قومی خبریں سے مزید