احسن اقبال نے حکومت کے دل کی بات کر دی۔ اُن کا کہنا ہے کہ اگر ملک کو معاشی بحران سے نکالنا اور اقتصادی طور پرترقی حاصل کرنی ہے تو عمران خان کو موجودہ حکومت کے پانچ سال کے دوران جیل میں ہی گزارنا پڑیں گے۔
ڈان اخبار میں شائع ہونے والی ایک خبر کے مطابق احسن اقبال نے گزشتہ روزلاہور میں رپورٹرز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر پاکستان کو ترقی کرنی ہے تو عمران خان کو پانچ سال کیلئے جیل میں ہی رکھنا پڑے گا۔
احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان جیل سے باہر آتے ہیں تو پھر سے دھرنے اور لڑائیاں ہوں گی جس کا پاکستان،موجودہ حالات میں متحمل نہیں ہو سکتا۔
احسن اقبال نے یہ بھی کہا کہ ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ ایک طرف تحریک انصاف سے مذاکرات کیے جائیں اور دوسری طرف یہ سیاسی جماعت اداروں کے خلاف اپنا پروپیگنڈہ جاری رکھے۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اگر عمران خان حکومت سے واقعی مذاکرات چاہتے ہیں تو اُنہیں سنجیدگی دکھانا پڑے گی۔
اسی دوران وزیراعظم شہباز شریف نے عمران خان یا تحریک انصاف کا نام لیے بغیر کہا کہ شہداء اور غازیوں کی توہین کرنے والا ملک کی ترقی و خوشحالی کا دشمن ہے۔
بلاول بھٹو زرداری پہلے ہی کہہ چکے کہ عمران خان کو اپنے کیےپر معافی مانگنا پڑے گی تب ہی اُن سے مذاکرات ہو سکتے ہیں۔
فوج تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو پہلے ہی مسترد کر چکی اور9مئی کے حوالے سے معافی کا مطالبہ کیا تھاجسے تحریک انصاف نے رد کر دیا تھا۔ اگرچہ تحریک انصاف اور عمران خان حکومت میں شامل ن لیگ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے مذاکرات سے انکار کرتے رہے ہیں لیکن جو نظر آ رہا اور جو حکمراں سیاسی اتحاد اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کہا جا رہا ہے اُس پر غور کیا جائے تو ان کی طرف سے بھی مذاکرات کی کوئی خواہش نظر نہیں آ رہی۔ اگر محمود خان اچکزئی کے ذریعے مذاکرات کی کوئی بات ہوتی بھی ہے تو اس سے کچھ نہیں نکلنے والا۔ یعنی موجودہ حالات میں جیسا کہ احسن اقبال نے کھل کر کہہ بھی دیا ۔
حکمرانوں اور طاقتور حلقوں کی خواہش یہی ہے کہ عمران خان پانچ سال جیل میں ہی رہیں تاکہ حکومت کو پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کیلئے تحریک انصاف کی طرف سے کسی بڑے سیاسی احتجاج یا رکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ حکمرانوں کو یہ بات معلوم ہے کہ عمران خان اگر جیل میں رہتے ہیں تو تحریک انصاف کی موجودہ قیادت سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں اور نہ ہی بانی تحریک انصاف کی غیر موجودگی میں پی ٹی آئی کوئی بڑا احتجاج کر سکتی ہے۔
عمران خان اگر جیل سے آزاد ہوتے ہیں اور عوام کو احتجاج کیلئے باہر نکالتے ہیں تو اُس صورت میں حکومت کیلئے بڑی پریشانی کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس لیے حکومت کی یہی خواہش ہو گی کہ عمران خان جب تک ممکن ہو جیل میں ہی رہیں۔
شہباز شریف حکومت کی کوشش ہو گی کہ بغیر کسی سیاسی خطرے کے اُس کی توجہ پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے اور مہنگائی میں کمی لانے پر مرکوز رہے کیونکہ اسکے علاوہ حکومت،جسے اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہے ،کے پاس کوئی دوسرا رستہ نہیں۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)