• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نہ جانے مجھے کیوں لگ رہا ہے کہ ظلم کی کالی رات ڈھلنے کو ہے۔استحصال کا طویل دور ختم ہونے کو ہے۔

یہ نوید سحر کہیں سے تو آرہی ہے۔ نوجوانوں کی آنکھوں کی چمک کیوں کہہ رہی ہے کہ بے بسی بے کسی کی خزاں اب آخری دموں پر ہے۔ برسوں پہلے جب پاکستان ایک تھا۔ میں افریقہ اور ایشیا کی نظمیں تلاش کرتا تھا۔ جمیل الدین عالی، شوکت صدیقی۔ افریشیائی کی ادیبوں کی تنظیموں میں سرگرمی سے حصہ لیتے تھے۔ رائٹرز گلڈ کا دفتر سندھی مسلم سوسائٹی میں نوجوان انقلابیوں کا ڈیرہ ہوتا تھا۔ علم و ادب کی پیاس بجھتی تھی۔ یہیں افریشیائی شاعروں کی نظموں کا انگریزی ترجمہ میسر آجاتا تھا۔ میں ان کے اُردو میں منظوم ترجمے کرکے ’اخبار جہاں‘ میں اشاعت کیلئے دیتا تھا۔ بڑی داد ملتی تھی۔ ویت نام کے نجات دہندہ آنجہانی ہوچی منہ کی نظمیں بھی انگریزی میں مل گئیں۔ ایک چار مصرعی نظم ملاحظہ کریں۔

جیل کی رات

جیل کی رات کہ آنکھوں میں گزر جاتی ہے

انہی راتوں نے مجھے سینکڑوں نظمیں بخشیں

شعر لکھتا ہوں سلاخوں سے نظر ڈالتا ہوں

دور تاروں بھرے آکاش پہ جو قید نہیں

مجھے یاد آتا ہے۔ علامہ اقبال کے صاحبزادے ‘جاوید اقبال‘ نے 1963 میں ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ علامہ کہتے تھے۔

Nations are born in the minds of poets they collapse in the hands of politicians.

قومیں شاعروں کے ذہنوں میں جنم لیتی ہیں پھر سیاستدانوں کے ہاتھوں میں دم توڑ دیتی ہیں۔

ویت نام کی جس قوم نے ایک شاعر کے ذہن میں جنم لیا۔ دنیا کی سب سے بڑے طاقت سے ٹکرائی اور اب وہ جنوبی اور شمالی ویت نام متحد ہیں انکے عوام خوشحال ہیں۔ معیشت مضبوط ہے۔

انہی دنوں سری لنکا کی ایک خاتون شاعرہ اندرا کمارانائیکے کی نظم نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا کہ پاکستانیوں کے دل میں اگرآگے بڑھنے کی امید پیدا کرنا ہے۔ تو مجھے اُردو میں منتقل کردو۔نظم کچھ طویل ہے۔ اسلئے چند سطور۔ عنوان ہے۔ جاگ مادر وطن۔

ڈھل گئی شب کہن/دو رنو کی سمت ہے حال اپنا گامزن/ جاگ مادر وطن / اپنا خون بہہ چکا/اب تو مسکرا اٹھے انقلاب کے چمن/ جاگ مادر وطن / سامراج، شرمسار / ہوگیا فرارسن/ نعرہ ہا ئے زن بزن/ جاگ مادروطن / جاگ فصل پک گئی / فصل جس کو دے گیا ہے/ اپنا خون بانکپن / جاگ مادر وطن / اب ہے تیرے ہاتھ میں / دَورنو کی ہر کلید/ جاگ مادر وطن / جاگ مادر وطن۔

واہگہ سے گوادر تک اہل وطن جاگ رہے ہیں۔ درد حد سے گزر رہا ہے۔ دوا ہورہا ہے۔ استحصالی اپنے آخری ہتھکنڈے آزمارہے ہیں۔ کھسیانی بلیاں کھمبے نوچ رہی ہیں۔ جاگیردار جھلاگئے ہیں۔ اونٹ کے پائوں کاٹ رہے ہیں۔ جبکہ خلقت شہر ہاتھی کا پائوں کاٹنا چاہتی ہے۔ جس کے پائوں میں سب کا پائوں آیا ہوا ہے۔

جنوبی ایشیا میں خلق خدا کا راج آیا ہی چاہتا ہے۔ مسندیں بہت بڑی بڑی ہیں۔ مگر بہت چھوٹے چھوٹے لوگ وقت نے ان پر بٹھادیے ہیں۔ آپس میں کوئی موزونیت نہیں ہے۔ مسندیں احتجاج کررہی ہیں۔ یاد کررہی ہیں کہ ان اونچی کرسیوں پر کیسے بڑے بڑے ایماندار، دیانتدار، روشن خیال، بلند حوصلہ فرزنداں وطن فیصلہ کرنے بیٹھتے تھے۔ پاکستان اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت۔ انتہائی حساس۔ اہم محل وقوع۔60فیصد اور نوجوان آبادی۔ ایسی ایسی ذہانتیں کہ یورپ مشرق وسطیٰ رشک کرے۔ ریکوڈک جیسے خوشحال مالا مال وسائل۔ مجھے تو ان سب سے ایک نوید مل رہی ہے کہ بے بسی، نا امیدی ختم ہونے کو ہے۔ لوگ بیدار ہورہے ہیں۔

یہ درست ہے کہ دس کروڑ سے زیادہ غربت کی لکیر سے نیچے چلے گئے ہیں۔ لیکن یہ غربت ہی ہے۔ جو زمانے سے ٹکرانے کا ولولۂ تازہ دیتی ہے۔ سوشل میڈیا کے دَور میں پیدا ہونے والے غریب بچے ذہنی طور پر بہت امیر ہیں۔ اسمارٹ فون انہیں اپنا ذہن استعمال کرنے میں پوری تقویت دے رہا ہے۔ اور وہ سیاسی جماعتی سربراہ جو بقول نفیس صدیقی مرحوم۔ اعلیٰ عہدوں کے امیدواروں کی فہرست میں سے اکثر نام اسی لیے کٹوادیتے تھے کہ یہ اپنا ذہن استعمال کرتا ہے۔ پچھلے چالیس برس میں ایسے لوگوں کو حتی الوسع سینیٹ میں، قومی اسمبلی صوبائی اسمبلیوں میں، کلیدی عہدوں پر جانے سے روکا گیا جو اپنا ذہن استعمال کرنے کی جسارت کرتے تھے۔ ایک جماعتی سربراہ ذہن کے استعمال اور عدم استعمال میں بھی نہیں پڑتے تھے۔ ان کا سوال صرف یہ ہوتا تھا کہ ’’ایہہ اساڈے نال ہے کہ نئیں‘‘چار دہائیاں اب چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ یہ طرز حکمرانی زوال اور پسپائی کی طرف ہی لے جاتا رہا ہے۔ یہ بھی ہوا کہ اعلیٰ عہدوں کیلئے امیدواروں کی فہرستیں اداروں کے سپرد کی جاتی تھیں۔ وہ اپنی چھلنی استعمال کرتے تھے۔

کلیدی عہدوں کیلئے ذہانت، عمدگی نہیں بلکہ دیکھا جاتا تھا کہ اسکا کلّہ کتنا مضبوط ہے۔ ان بڑے عہدوں پر جن کی تعداد 260 کے قریب بتائی جاتی ہے۔ جب منظور نظر افراد کی تقرریاں کردی گئیں تو ہر شعبے سے متعلق طاقت ور مافیائیں وجود میں آئیں۔ لینڈ مافیا، ٹرانسپورٹ مافیا، واٹر مافیا، لائسنس مافیا، ٹریول مافیا، آرزوئیں کچلی جانے لگیں ۔ خواہشیں پامال کی گئیں۔ نوجوان اپنی صلاحیتیں آزمانے کیلئےاجنبی سرزمینوں پر جانے لگے۔

اب ہر گھر کی دہلیز یہی سوال کررہی ہے کہ بہت ہوچکی۔ اب میریٹ کا راج ہونا چاہئے۔ پاکستان کے ہر فرد کے خیال اور خواب ملکی فیصلہ سازی میں شامل ہونے چاہئیں۔ اب نوجوان اپنی قیادت خود کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر حرف و دانش کے طوفان امڈ رہے ہیں۔ معاشرہ اپنی خامیاں خود شناخت کررہا ہے۔ کسی مسیحا کے انتظار کی بجائے وہ اپنے درد کے اسباب خود بیان کررہا ہے۔ زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھا جارہا ہے۔

میں تو ہر تحریر میں، اپنے فیس بک لائیو میں ایک ہی راہ نجات تجویز کررہاہوں۔ جو ہمارے بس میں ہے۔ میں اور آپ حکمرانوں کی ترجیحات بدل سکتے ہیں نہ ان کے مزاج۔ ہم اپنے آپ پر قابو پاسکتے ہیں۔ سب سے پہلے ہم اپنے گھر میں دیکھیں کوشش کریں کہ یہاں کوئی ہمارے ناپسندیدہ حکمرانوں جیسی عادتیں لے کر پیدا تو نہیں ہورہا۔ گھر کو مستحکم کریں۔ پھر اپنے محلے کو متحد کریں۔ سب سے ملیں۔ پھر اپنے شہر کو سنبھالیں۔ ملک خودبخود مستحکم ہوجائے گا۔ سیاسی کارکن کسی جماعت کے ہوں۔ قابل احترام ہیں۔ وہ حرکت میں آئیں۔ کٹھ پتلیاں نہ بنیں۔ اپنے حق اور اچھی حکمرانی کیلئےپارٹی سربراہوں پر زور دیں۔ ان کے غلام نہ بنیں۔

تازہ ترین