آئی ایم ایف کے پاس جانے کا سبب یہ ہوتا ہے کہ ایک ملک اپنی معیشت چلانے کی استعداد میں کمی کا شکار ہو گیا ہے ۔آئی ایم ایف ہمیشہ اپنی شرائط پر قرضے دیتا ہے کیونکہ ایک قرض دینے والے ادارے کی حیثیت سے اسے اپنی رقم کی واپسی کی ضمانت درکار ہوتی ہے جبکہ اصلاحات اور معاشی ڈسپلن کی سختی قرض لینے والے ملک کے بھی مفاد میں ہوتی ہے ۔ پاکستان کی معیشت کا کل حجم بڑھنے کی بجائے 2سال میں مزید سکڑکر 341ارب ڈالرز کی سطح پر آگیا ہے ، بنگلادیش کی معیشت کا سائز 460ارب ڈالرز جبکہ بھارت کا 3400ارب ڈالرز تک پہنچ گیا ۔ معیشت سکڑنے کے باعث روزگار بھی کم ہوگیا، 10کروڑ افراد خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، صنعتکاروں کا کہنا ہے کہ مہنگی بجلی اور اونچی شرح سود کی وجہ سے کاروبار ٹھنڈے پڑے ہیںکاروباری لاگت کم ہو گی تو خوشحالی آئےگی ۔ پاکستان ایک شاندار ثقافتی ورثے اور متنوع آبادی والا ملک ہے بد قسمتی سے گزشتہ برسوں سے مسلسل اقتصادی چیلنجوں سے نبردآزما ہے ۔ اپنی صلاحیت اور دستیاب وسائل کے باوجود پاکستانی معیشت کو بہت بڑے مسائل کا سامنا ہے ۔ سیاسی عدم استحکام بھی معاشی ترقی کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے ۔ قیادت میں متواتر تبدیلیاں ،بد عنوانی کے اسکینڈ لز اور طویل مدتی پالیسی کے تسلسل کی کمی نے اقتصادی منصوبہ بندی کو شدید نقصان پہنچایا ہے ۔ مختلف حکومتوں میں متضاد اقتصادی پالیسیوں نے کاروبار اور سرمایہ کاروں کیلئے غیر یقینی صورتحال پیدا کر دی ہے ۔ سڑکوں، بندرگاہوں اور توانائی کی عدم فراہمی سمیت ناکافی انفر اسڑکچر نے صنعتی ترقی اوربر آمدی صلاحیت کو روکا ہے ۔ وسیع پیمانے پر ٹیکس چوری اورایک بڑی غیر رسمی معیشت نے حکومتی محصولات کو محدود کر دیا ہے ۔ کم قومی آمدنی کے باعث معیشت قرضوں پر چل رہی ہے اور اب تک اس کا حجم 64ہزار ارب روپے سے متجاوز ہو چکا ہے ۔ قصہ مختصر ہر بار نئے قرضوں کیلئے حکومت کو آئی ایم ایف کی کڑی سے کڑی شرائط کا سامناکرنا پڑتا ہے اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ عام آدمی معاشی مسائل میں گھرا ہو ا ہے حکومت کو بجلی پیٹرول اور گیس کی قیمتیں آئے روز بڑھاناپڑرہی ہیں ۔ آئی ایم ایف کی طرف سے حالیہ دنوں میں نیا قرضہ دینے کیلئے گیس بجلی کی قیمتوں میں بڑا اضافہ ہونے والا ہے ۔
عالمی بینک کے مطابق رواں مالی سال شرح مہنگائی 26فیصد رہنے کا امکان ہے ۔ بینک کے مطابق اگلے تین سال پاکستان کی شرح نمو تین فیصد سے کم رہنے کا امکان ہے جبکہ رواں مالی سال کیلئے شرح نمو 1.8فیصد کا امکان ظاہر کیا گیاہے ۔ پاکستان میں آئی ایم ایف کے تمام جائز ناجائز مطالبات ماننے کے نتیجے میں افراط زر بڑھ رہا ہے اور شرح نمو میں کمی ہورہی ہے ۔ اس وقت ملک میںپہلے ہی افراتفری اور انتشار کی کیفیت ہے جس کے ملکی معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں غریب عوام انتہائی نازک دور سے گز ر رہے ہیں ۔ ان کیلئے روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا ازحد دشوار ہو چکا ہے ۔ انکی آمدن تو وہی ہے تاہم اخراجات بے پنا ہ بڑھ چکے ہیں ۔ مہنگائی کا بد ترین طوفان ان کیلئے سوہان روح ثابت ہوا ہے ۔ آٹا، چاول ، چینی ، گھی، تیل،پتی ہر شے کے دام کئی سو گنا بڑھ چکے ہیں ۔ اسکے علاوہ بنیادی سہولتوں (بجلی ،گیس ،ایندھن)کے دام بھی اس دور ان تاریخ کی بلند ترین سطح پرپہنچ چکے ہیں۔ لوگوں کیلئے اپنے بچوں کو علم کی روشنی سے منور کرنا آسان نہیں رہا ۔ کتنے ہی گھرانے ملک کے طول وعرض میں ایسے ہیں جہاں آئے روز فاقے راج کرتے ہیں بچے بھوک سے بلکتے ہیں ماں باپ ان کا پیٹ بھرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔
وفاقی بجٹ 2025-2024ء میں توقع کی جارہی تھی کہ عام عوام کے ساتھ اشرافیہ بھی بوجھ اُٹھائے گی مگر تاریخ نے اپنے آپکو پھر دہرا یا ۔ حکمران طبقہ اور اشرافیہ نے سارا بوجھ غریب اور تنخواہ دار عوام پر ڈال دیا ہے۔ 30کھرب کے اضافی ٹیکس لگائے گئے ہیں ۔یہ 8500ارب روپے کے خسارے کا بجٹ ہے ۔ملک میں سرکاری افسران کے پاس لاکھوں کی تعداد میں گاڑیاں ہیں ۔ جن پر پیٹرول اور مرمت کی مد میں اربوں خرچ ہوتے ہیں ۔ فری بجلی ،گیس ،سرکاری اقامت گاہوںپر کھربوں روپے خرچ ہوتے ہیں ۔ جسکی مثال امریکہ سمیت کسی ملک میں نہیں ہے ۔بد عنوانی اور رشوت تو عام سی بات ہے غریب کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہے ۔بجٹ کاخسارہ پورا کرنے کیلئے غریب کی بجائے اسکا رخ امیر کی طرف ہونا چاہیے اور آئی ایم ایف کی طرف جانے سے بچنا چاہیے ۔ آگے بڑھنے کا راستہ صرف اور صرف قانون کی حکمرانی اور عوام کے فیصلے، جو اُس نے 8فروری کو ووٹ کی صورت میں دیا اُس کے آگے سر تسلیم خم کرنے میں ہی ہے ۔