• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

رشتے مضبوط ہوں یا کم زور، انسان کو تکمیل کے مراحل تک پہنچاتے ہیں۔ یہ درحقیقت احساسات سے منسلک ہوتے ہیں اور انسانی رشتوں کے یہ کردار ہی جینے کی راہ دکھاتے ہیں۔ ماں، باپ، بہن، بھائی، میاں بیوی اور بچّوں کو ایک دوسرے کے ساتھ اپنا کردار نبھاتے وقت یہ احساس نہیں ہوپاتا کہ کبھی اُن سے جدا بھی ہونا ہے، لیکن موت بہرحال برحق ہے، جوہرذی رُوح کو آنی ہے۔ یہ ایک ایسی اٹل حقیقت ہے، جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتاکہ سب ہی کو ایک دن اپنے ربّ کے حضور پیش ہونا ہے۔ 

انسانی رشتوں کے ان ہی کرداروں میں ایک خُوب صُورت رشتہ، میری اہلیہ، میری رفیقۂ حیات، سیرت النساء کا بھی تھا، جو گزشتہ برس یکم اکتوبر کو ہمیں داغِ مفارقت دے گئیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں4بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا۔ میری اہلیہ پنج وقتہ نماز کی پابند ہونے کے ساتھ ساتھ باقاعدگی سے قرآنِ مجید کی تلاوت کرتیں اور روزہ توکسی بھی حالت میں نہیں چھوڑتی تھیں۔ صبر اور شکر اُن میں کُوٹ کُوٹ کر بھرا تھا، کبھی بے جا فرمائش یا کسی چیز کے لیے ضد نہ کرتیں، میں اگر بازار سے کوئی چیز لے کر آجاتا، تو کہتیں ’’آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ آج میرا دل یہ کھانے کو چاہ رہا تھا۔‘‘

میں نے اپنی نیک دل اہلیہ کے منہ سے کبھی کسی کے لیے کوئی برائی یا غیبت نہیں سُنی۔ ہر ایک سے اخلاق، محبت اور خلوص سے پیش آتیں، گھر کی فکر کو ہمیشہ مقدم رکھتیں، اسراف سے بچتیں، اگر کسی بات پر کوئی ناراض ہوجاتا، تو فوراً معذرت کرتیں۔ میرے بھائی یا بھابیوں میں سے کوئی اگر کچھ کہہ دیتا، تو قطعاً برا نہیں مناتیں۔ میری اہلیہ نے کبھی کوئی فرمائش نہیں کی۔ 

سرکاری اسکول میں ٹیچر ہونے کے باوجود تن خواہ کے لیے کبھی بینک نہیں گئیں۔ تبادلے کے سلسلے میں ایک بار اسکول ہیڈ آفس جانا ہوا، جہاں خاتون آفیسر سے ملاقات ہوئی۔ اسی دوران ان خاتون افسر سے ملاقات کی غرض سے اچانک چند حضرات آفس آگئے، تو فوراً کمرے سے باہر نکل آئیں اور مجھے دفتر سے باہر بلاکر بولیں، ’’مَیں سروس چھوڑ دوں گی، آئندہ ایسے دفتر نہیں جائوں گی، جہاں یوں اچانک غیر محرم آجائیں۔‘‘

میری رفیقۂ حیات نے میری بے لوث خدمت میں بھی کبھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ بچّوں کی تعلیم و تربیت پر کوئی سمجھوتا نہ کرتیں۔ سادگی کی ایسی پیکر کہ کبھی میک اَپ نہیں کیا، اپنے بال آئینے کے بغیر سنوارلیتیں، جو پہن لیتیں، ان پر سج جاتا۔ وہ غریب پرور، رحم دل اور سخی تھیں، اپنے اسکول کے بچّوں کو اسکول ٹائم کے بعد گھر بُلاتیں اور بغیر فیس کے پڑھاتیں۔ مرحومہ کی وفات پر کئی خواتین نے آہ و زاری کرتے ہوئے کہا کہ ’’آج ہم یتیم ہوگئی ہیں۔‘‘ 

وہ ایک عرصے سے معدے کی عارضے میں مبتلا تھیں، تکلیف کی صورت میں ہم انھیں پنڈی کے اسپتال لے جاتے، جہاں دوائوں اور ڈرپس وغیرہ سے طبیعت سنبھل جاتی، تو گھر لے آتے۔ پھر جب تکلیف حد سے بڑھی، تو پمز اسپتال، اسلام آباد لے گئے، جہاں مختلف ٹیسٹس کروانے کے بعد ڈاکٹرز نے انکشاف کیا کہ انھیں معدے کا سرکان ہے۔ سرطان کی تشخیص کے بعد ڈھائی برس تک نوری اسپتال، اسلام آباد سے علاج جاری رہا۔دورانِ علاج بھی نماز سے غافل نہ رہیں، ہر وقت اللہ کا شکر اور درود شریف کا ورد ان کی زبان پر رہتا۔ 

دورانِ علالت وصیت تحریر کروائی کہ ’’میرے انتقال کا اعلان نہیں کروانا، رات کے اندھیرے میں جنازہ گھر سے نکالنا، کوئی غیر محرم جنازہ نہ دیکھے اور رات کے اندھیرے ہی میں نمازِ جنازہ پڑھانا۔‘‘ لہٰذا ایسا ہی کیا گیا، انتقال کے بعد ان کا جسدِ خاکی خاموشی کے ساتھ گھر لے آئے اور رات سات بجے نماز ہ جنازہ پڑھوایا گیا۔ یہ اس علاقے کا پہلا جنازہ تھا، جو رات کے اندھیرے میں پڑھایا گیا۔ اللہ تعالیٰ انہیں غریقِ رحمت کرے اور جنّت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔(آمین) (خواجہ محمد ارشد ہجیرہ،ضلع پونچھ)