• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میرے والدِ محترم، پروفیسر ڈاکٹر سید وسیم الدین

مرتب: محمّد ہمایوں ظفر

میرے والد،پروفیسر ڈاکٹر سیّد وسیم الدین، وفاقی اُردو یونی ورسٹی، کراچی میں بحیثیت استاد (سابق صدر شعبہ بین الاقوامی تعلقات) 32سال تک درس و تدریس کی خدمات انجام دیتے رہے۔ ایک درجن سے زائد طلبہ نے اُن کی نگرانی میں جامعہ اُردو اور جامعہ کراچی سے پی ایچ ڈی کیا۔ دو درجن کے قریب تصانیف اُن کی علمیت و قابلیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں، جن میں بین الاقوامی تعلقات، مطالعہ پاکستان، سیاسیات، اردو زبان و ادب اور دینی ادبیات وغیرہ شامل ہیں۔ 

اُردو زبان و ادب سےاُنھیں خصوصی شغف و لگائو ہے اور اس کی ترقی و ترویج میں ہمہ وقت مصروفِ عمل رہتے ہیں۔ اُن کا موقف ہے کہ جس طرح آج امریکا، برطانیہ چین، فرانس، روس، جرمنی، بھارت، کوریا، ملائیشیا اور ایران کی ترقی کا راز اُن کی قومی زبان میں تعلیم و تحقیق کی نشرو اشاعت ہے، اسی طرح اردو کو بھی اس کا مقام ملنا چاہیے۔ میرے والد کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں، وہ ایک بہترین استاد ہونے کے ساتھ محقّق، ادیب، شاعر، مقرّر اور نعت خواں بھی ہیں۔ وہ محسنِ انسانیت، سرورِ کائنات، حضوراکرمﷺ سے خصوصی لگاؤ اور بے پناہ عقیدت رکھتے ہیں اور انھیں سیکڑوں نعتیں ازبر ہیں۔ 

اس خداداد صلاحیت کے پس منظر میں ان کے علمی و ادبی، دینی اور تحقیقی خانوادے کا بھی عمل دخل ہے کہ ہمارے دادا، سیّد یوسف الدین علی، حیدرآباد دکن میں روزنامہ ’’تنظیم‘‘ کے نائب مدیر تھے اور ان کے گھر اکثر نام وَر شعرائے کرام تشریف لایا کرتے، جن میں جوش ملیح آبادی، حفیظ جالندھری، تابش دہلوی، ماہر القادری اور جگر مراد آبادی سمیت دیگر شعراء شامل تھے۔ میرے والد، سیّد وسیم الدین نے تدریس کے پیشے کو اس لیے اپنایا کہ یہ پیغمبری پیشہ ہے اور اس عمل سے جو روحانی آسودگی حاصل ہوتی ہے، اس کا کوئی نعم البدل نہیں۔

آج پاکستان سمیت دنیا کے طول و عرض میں پھیلے اُن کے ہزاروں شاگرد اُن کے علمی، تحقیقی و تدریسی ورثے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ اور اُن کا ایک نمایاں وصف یہ بھی ہے کہ انہوں نے زندگی بھر اپنے والدین کی خدمت اور اساتذہ سے محبّت و عقیدت کا اظہار کیا اور شاید یہی امر ان کی ترقی، کام یابی و کام رانی کا خصوصی راز ہے۔ انھیں مرزا غالب اور شاعرِ مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے سیکڑوں اشعار بھی ازبر ہیں۔ 

وہ ہمیں بلندئ کردار کی تلقین کرتے ہوئے اکثر کہتے ہیں کہ ’’اگر انسان اعلیٰ کردار کا مالک نہ ہو، تو وہ زندگی کے ہر شعبے میں شکست سے دوچار ہوتا ہے۔ سو، انسان کو گفتار کا غازی ہونے کے ساتھ ساتھ کردار کا بھی غازی ہونا چاہیے۔‘‘ اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ اُن کا سایہ صحت و سلامتی کے ساتھ تادیر ہم پر قائم رہے، آمین۔ (سیّد بختیار الدین،کراچی)

سنڈے میگزین سے مزید