طالب ہاشمی
خُلق کے لغوی معنیٰ ہیں خُو، جب کہ عادت اورخصلت اور حُسنِ خُلق سے مراد، خوش اخلاقی، ملن ساری، مُروّت، اچھا برتاؤ، اچھا روّیہ اوراچھے اخلاق کے ہیں۔ یوں تو حُسنِ خُلق کی ترکیب اخلاق ِ حَسَنہ کے تمام پہلوؤں پرمحیط ہے، لیکن بطورِ خاص اسے ملن ساری، ہم دردی ، شیریں زبانی اورخوش مزاجی سے تعبیر کیاجاتا ہے۔
سرورِ کائنات ﷺ کی ذاتِ گرامی اخلاقِ حَسَنہ کابے مثال پیکر تھی۔ اورآپ ﷺ کاابرِ کرم مخلوق ِ خدا کے ہرطبقے پرہرآن جھوم جھوم کربرستا تھا۔ جس ذاتِ اقدس کو خطاب کرکے خود رَبِّ ذُوالجلال نے فرمایاہو، یعنی’’آپ ﷺاخلاق کے نہایت اعلیٰ درجے پر فائز ہیں۔‘‘اورجن کے اُسوۂ حَسَنہ کو تمام مسلمانوں کے لیے نمونہ قراردیاگیاہو، اُس ذات ِپاک کے شمیم اخلاق کی عطربیزیوں کا احاطہ کرناکسی انسان کے بس کی بات نہیں۔’’ لَایُمْکِنُ الثَّنَاءُ کَمَاکَانَ حَقَّہُ۔‘‘
سَیر نگاروں نے آپ ﷺ کے حسن ِ خُلق کے جو واقعات بیان کیے ہیں، اُنھیں پڑھ کر زبان بے اختیار آپ ﷺؑ کی بارگاہِ عالی میں اِس طرح زمزمہ پیراہوجاتی ہے؎ تورُوح ِ زَمن ، رنگ ِ چمن ، ابرِ بہاراں .....توحُسنِ سخن ، شانِ ادب ، جانِ قصیدہ.....تُجھ ساکوئی آیا ہے نہ آئے گا، جہاں میں .....دیتاہے گواہی یہی عَالَم کاجریدہ ۔
امام بـخاری ؒ نے ’’ادب المفرد‘‘ میں حضرت اُمُّ الدَّرْدَاء ؓ کی زبانی رحمتِ عالم ﷺ کایہ ارشاد نقل کیاہے کہ’’ میزان ِ عمل میں کوئی چیز حُسن خُلق سے بھاری نہ ہوگی۔ ‘‘اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ ، حضرت علی کرم اللہ ّ وجہہ ، حضرت انس بن مالک ؓ اور بہت سے دوسرے صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین، جو مدّتوں حضور ﷺ کی خدمت میں رہے، ان سب کامتفقہ بیان ہے کہ آپﷺ نہایت نرم مزاج، شیریں زبان ،نیک سیرت اورخندہ رُوتھے۔ لب ہائے مبارک پر ہمیشہ تبسّم رہتا، نرمی ، وقار اورمتانت سے گفتگو فرماتے تھے۔
ایک بات کو دوسری بات سے ملنے نہ دیتے ، تاکہ سُننے والے اچھی طرح سمجھ سکیں۔ حضوراکرم ﷺ کامعمول تھا کہ کسی سے ملاقات کے وقت ہمیشہ خود پہلے سلام اور مصافحہ فرماتے۔ جب تک دوسرا شخص ہاتھ نہ چھوڑدے آپ ﷺ اُس کاہاتھ نہ چھوڑتے۔ کوئی شخص جھک کرآپ ؐکے کان میں کچھ بات کہتا، تو اُس وقت تک اُس کی طرف سے رُخ نہ پھیرتے، جب تک وہ خود منہ نہ ہٹالے۔
مجلس میں تشریف فرماہوتے، توآپ ﷺ کے زانو کبھی شرکائے مجلس سے آگے نکلے ہوئے نہ ہوتے۔ مجلسِ نبوی ؐ میں جگہ کم ہوتی تھی ، جولوگ پہلے سے آکر بیٹھ جاتے تھے، ان کے بعد جگہ باقی نہیں رہتی تھی ، ایسے میں اگرکوئی آجاتا، تو آپ ﷺ خود اپنی جگہ سے سرک کراُسے اپنے پاس بٹھالیتے یا اس کے بیٹھنے کے لیے اپنی ردائے مبارک بچھا دیتے تھے۔ حضور ﷺ کوکسی کی کوئی بات ناپسند ہوتی، تومجلس میں نام لے کر اس کاذکر نہیں کرتے تھے ، بلکہ فرماتے کہ کچھ لوگ ایسا کرتے ہیں ، بعض لوگ ایساکہتے ہیں۔
یہ اس لیے کہ کسی مخصوص شخص کی دل آزاری نہ ہو اور اس کے احساسِ غیرت کوچوٹ نہ لگے۔ ایک دفعہ ایک صاحب عرب کے دستور کے مطابق زعفران لگاکر خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے، آپ ﷺ کو یہ دستور پسند نہ تھا، لیکن آپ ﷺ نے اُن سے نہایت خندہ پیشانی سے ملاقات فرمائی۔ جب وہ اٹھ کرچلے گئے، تو لوگوں سے فرمایاکہ اُن سے کہہ دینا کہ اسے دھوڈالیں۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے باریابی کی اجازت چاہی۔
آپ ﷺ نےفرمایا۔ ’’یہ شخص اپنے قبیلے میں اچھی شہرت نہیں رکھتا، خیر آنے دو۔‘‘ جب وہ آیا، تو آپ ﷺ نے نہایت نرمی کے ساتھ اُس سے گفتگو فرمائی۔ جب وہ چلاگیا تو اُمُّ المؤمنین ِ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے تعجّب کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا، ’’یارسول اللہ ﷺ! آپ ﷺ تو اس شخص کو اچھا نہیں سمجھتے تھے، پھربھی اس رِفق ونرمی کےساتھ اس سے گفتگو فرمائی۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا، ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بُراوہ شخص ہے، جس کی بدزبانی کی وجہ سے لوگ اُس سے ملنا جُلنا چھوڑدیں۔‘‘ (صحیحین وسنن ابی داؤد)۔
حضرت جابربن عبداللہ انصاری ؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’مَیں ضرورت پڑنے پر مدینے کے ایک یہودی سے قرض لیا کرتا تھا۔ اتفاق سے ایک سال کھجوروں کی فصل خراب ہوگئی اورمَیں قرضہ واپس نہ کرسکا۔ اس پر پوراسال گزرگیا۔ بہارآئی تو اُس یہودی نے قرض کی واپسی کاتقاضا شروع کردیا۔ (بدقسمتی سے) اس سال کی فصل سے بھی بہت کم کھجوریں حاصل ہوئیں، مَیں نے یہودی سے آئندہ سال کی مہلت مانگی، مگر اس نے انکار کردیا۔
مَیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اورتمام واقعات عرض کیے۔ آپ ﷺ چند صحابہ ؓ کو ساتھ لے کر یہودی کے گھر تشریف لے گئے اور اُسے بہت سمجھایا کہ مہلت دے دو، لیکن اُس نے یہ کہہ کر صاف جواب دے دیا کہ ’’ابو القاسم! مَیں ہرگز مہلت نہیں دوں گا۔‘‘ اب حضور ﷺ نخلستان میں تشریف لے گئے اور ایک چکّر لگا کر پھر یہودی کے پاس تشریف لائے اورمہلت کے لیے اس سے دوبارہ گفتگو فرمائی، لیکن وہ اسی بات پراڑا رہا کہ میں کسی صُورت مہلت نہیں دوں گا۔
اس کا جواب سُن کر آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ اپنے مسقّف (چبوترے) پرکپڑا بچھاؤ۔ مَیں نے تعمیلِ ارشاد کی۔ آپ ﷺ نے اس کپڑے پرکچھ دیرآرام فرمایا۔ بے دارہوئے تو پھر یہودی کے پاس تشریف لے گئے۔ اور تیسری بار اس سے مہلت کے لیے بات چیت کی، لیکن وہ ظالم اب بھی نہ مانا۔ اب آپ ﷺ سیدھے نخلستان پہنچے اوردرختوں کے جُھنڈ میں کھڑے ہوکر مجھ سے فرمایا،’’جابر ! کھجوریں توڑنی شرورع کرو۔‘‘ مَیں نے کھجوریں اُتارنی شروع کردیں۔ رسول اللہ ﷺ کی برکت سے اتنی کھجوریں نکلیں کہ یہودی کاقرضہ اداکرکے بھی بچ رہیں۔ (صحیح بخاری، الَرطب التمر)۔
8ہجری میں رحمتِ عالم ﷺ غزوۂ حُنین سے واپس آرہے تھے کہ راستے میں ایک مقام پر نماز کاوقت ہوگیا۔ آپ ﷺ کے مؤذّن نے اذان دی۔ اتفاق سے وہاں مکّے کےچند شوخ نوجوان بھی موجود تھے، جو ابھی تک اسلام نہیں لائے تھے۔ اذان سُن کر وہ تمسخر کے طور پر آذان کی نقل اُتارنے لگے۔ اُن میں سے ایک سولہ سالہ نوجوان ابو محذورہ کی آواز بہت بلند اوردل کش تھی۔ حضور ﷺ نے ان نوجوانوں کو ڈانٹنے یاسزا دینے کے بجائے ابو محذورہ کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا کہ میرے سامنے اذان دو۔
چوں کہ وہ اذان سے پوری طرح واقف نہ تھے، اس لیے حضور ﷺ نے اُنہیں خود اذان کے کلمات بتائے۔ انہوں نے لسانِ رسالت سے جو کلمات سُنے، وہ دہرا دئیے۔ حضورﷺ نے اُن کے سرپردستِ شفقت پھیرا اور برکت کے لیے دُعا فرمائی۔ اس کے ساتھ ہی ابو محذورہ ؓ کے دل کی دُنیا بدل گئی اور وہ مُشَرّف بہ اسلام ہوگئے۔ حضور اکرم ﷺ نے انہیں ایک تھیلی مرحمت فرمائی، جس میں کچھ چاندی تھی۔ پھرآپ ﷺ نے ابومحذورہ ؓ کی خواہش پر انھیں مکّہ معظّمہ میں مسجدِ حرام کامؤذن بنادیا۔ (دار قطنی،بذل القوۃ)۔
ایک دن حضورﷺ رئیس ِ خزرج، حضرت سعد بن عبادہ ؓسے ملنے کے لیے اُن کے گھر تشریف لے گئے۔ واپس آنے لگے، توحضرت سعد ؓ نے اپناگدھا منگوایا۔ اوراس کی پُشت پر چادر بچھائی، پھر اپنے بیٹے حضرت قیس ؓ کوحُکم دیاکہ رسول اللہ ؓ کے ساتھ جاؤ اور کاشانۂ نبوی ؐ تک آپ ﷺ کے ہم رکاب رہو۔ حضور ﷺ سوار ہوئے توقیس ؓ پاپیادہ ساتھ ہولیے۔ حضورﷺ کے خُلقِ عظیم نے گوارہ نہ فرمایا کہ قیسؓ پیدل چلیں۔ ان سے فرمایا،’’میرے ساتھ سوار ہوجاؤ۔‘‘ انھیں پاسِ ادب مانع ہو اور آپ ﷺ کے ساتھ بیٹھنے کی ہمّت نہ ہوئی اوروہ واپس چلے گئے۔ (سیر انصارجلد دوم)۔
حضرت عُقبہ بن عام جُہنی ؓ بالعموم رسولِ اکرم ﷺ کی سواری کےکھینچنے (یعنی اس کی لگام یامہارپکڑکرآگے چلنے ) کی خدمت انجام دیاکرتے تھے، لیکن ایک دفعہ چشمِ فلک نے عجیب منظردیکھا۔ وہ ایک طویل سفر میں حضور ﷺ کے ساتھ تھے۔ راستے میں پہاڑ کاایک دَرّہ آیا۔ آپ ﷺ نے حضرت عُقبہ ؓ سے فرمایا،’’عقبہ! آؤ اب تم اونٹ پر سوار ہوجاؤ۔‘‘ وہ اسے بے ادبی سمجھے کہ وہ خود اونٹ پر سوار ہوں اور حضوراکرم ﷺ پیدل چل رہے ہوں۔ اس لیے انہوں نے اونٹ پرسوار ہونے میں تأمّل کیا، لیکن جب حضور اکرمﷺ نے دوبارہ زور دے کر انہیں اونٹ پرسوار ہونے کے لیے فرمایا، توانہوں نے تعمیلِ ارشاد کی۔ اب عقبہ ؓ اونٹ پر سوار تھے اور حضور اکرم ﷺ اونٹ کی مہارپکڑے پاپیادہ چل رہے تھے۔
حضرت عتبان بن مالک انصاری ؓ کے مکان اور مسجد کے درمیان ایک نشیبی جگہ (وادی ) تھی۔ بارش ہوتی تو وہاں بہت پانی جمع ہوجاتا تھا۔ حضرت عتبان ؓ کی بینائی میں فرق آگیاتھا۔ اس لیے ان کےلیے اس پانی میں سے گزر کر مسجد تک پہنچنا سخت مشکل تھا۔ انہوں نے رسول ِ اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا۔ ’’یارسول اللہ ﷺ! میں اپنے محلّے کی مسجد میں لوگوں کونماز پڑھاتا ہوں، لیکن جب بارش ہوتی ہے، تو مسجد اور میرے مکان کے درمیان گہراپانی کھڑا ہوجاتا ہے۔
نظر کی خرابی کی وجہ سے میرے لیے اُس پانی سے گزرکر مسجد تک پہنچنا سخت مشکل ہوجاتاہے، اس لیے مجبوراً گھرمیں نماز اداکرلیتا ہوں۔ اگر آپ ؐ میرے گھرمیں تشریف لاکر نماز پڑھ لیں، تومیں اسی جگہ کو نماز کے لیے مخصوص کرلوں۔‘‘
حضورﷺ نے اُن کی درخواست بخوشی منظور فرمالی اور دوسرے ہی دن حضرت ابوبکر صدیق ؓ کو ساتھ لے کر حضرت عتبان ؓ کے گھر تشریف لے گئے ۔ اہلِ محلّہ کوخبرہوئی، تو وہ بھی حضرت عتبان ؓ کے گھر آگئے۔ حضور ﷺ نے حضرت عتبان ؓ سے پوچھا، ’’کہاں نماز پڑھوں؟‘‘ انہوں نے جگہ بتائی، توآپ ﷺ نےوہاں تکبیر کہہ کر دو رکعت نماز اداکی۔ نماز کے بعد لوگوں نے کھانے کے لیے اصرار کیا۔
آپ ﷺ نے اُن کی دعوت قبول کرلی اورکچھ دیر کے لیے ٹھہرگئے۔ خزیرہ (ایک کھانا جو قیمے پر آٹا چھڑک کر تیارکیا جاتا ہے) دسترخوان پر رکھا گیا۔ محلّے کے تمام لوگ کھانے میں آپ ﷺ کے ساتھ شریک ہوئے۔ حاضرین میں سے کسی نے کہا، ’’مالک بن دُخشم نہیں آیا، وہ منافق ہے۔‘‘ حضوراکرم ﷺ نے پوچھا، ’’کیا وہ نماز نہیں پڑھتا؟‘‘ لوگوں نے کہا، ’’پڑھتا ہے، لیکن اس کا میلان منافقوں کی طرف ہے۔‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا، ’’یہ وہ لوگ ہیں، جن کے بارے میں اللہ نے مجھے بدگمانی سے منع فرمایاہے، کیوں کہ اُن کے اعمال اُن کے حُسنِ اعتقاد کی شہادت دیتے ہیں۔ جوشخص اللہ کی مرضی کے لیے کلمہ ٔتوحید پڑھتا ہے، اللہ اُس پرآگ حرام کردیتا ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، اُسد الغابہ)۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ’’ ایک دفعہ کچھ یہودی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھوں نے (ازراہِ شرارت السلام علیکم کی بجائے) ’’السام علیکم‘‘ (یعنی تم کو موت آئے) کہا۔ مَیں(حضرت عائشہ ؓ ) نے (غضب ناک ہوکر )جواب دیا، تم ہی کو(موت) آئے اور تم پر اللہ کی لعنت اور اس کا غضب ہو۔
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا، ’’اے عائشہؓ!(ایسا سخت جواب کیوں دے رہی ہو) اپنی زبان کو روکو، نرمی کا رویّہ اختیار کرو اور سختی اور درشت زبانی سے خود کو بچائو۔‘‘(صحیح بخاری)۔ حضرت عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ’’ مومن بندہ نہ زبان سے حملہ کرنے والا ہوتا ہے، نہ لعنت کرنے والا اور نہ بدگو اور نہ گالی بکنے والا۔‘‘(جامع ترمذی)۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ ہی سے مروی ایک اورحدیث میں رسول اکرم ﷺ کایہ ارشاد نقل ہواہےکہ دوزخ کی آگ ہر ایسے شخص پرحرام ہے، جو تیز مزاج نہ ہو، نرم ہو، لوگوں سے قریب ہونےوالا (ملن سار ) اور نرم خُو ہو۔ (جامع ترمذی، سنن ابوداؤد)۔
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ’’ تم میں سے کوئی نیکی کی کسی صُورت اور کسی قسم کوبھی حقیر مت سمجھے اوراس کی ایک صُورت یہ بھی ہے کہ تم اپنے بھائی سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملواوریہ بھی نیکیوں میں سے ایک نیکی ہے کہ تم اپنے ڈول سے اپنے بھائی کے برتن میں پانی ڈال دو۔‘‘ (جامع ترمذی) ۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ’’اچھی اورمیٹھی بات بھی ایک صدقہ ہے۔‘‘ (یعنی نیکی کی ایک قسم ہے جس پر ثواب ملتا ہے )۔ (صحیح بخاری)۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ’’ مسلمان اپنے حُسنِ خُلق کی وجہ سے قائم اللّیل اورصائم النّہار کادرجہ حاصل کرلیتا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف )۔ حضرت علی ابنِ ابی طالب ؓ سے روایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ’’ بدخُلقی اعمال کو ایسا ہی خراب کردیتی ہے، جیسے سرکہ، شہد کو خراب کردیتا ہے ۔‘‘ ( کنز العمال)۔
حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے سوال کیا گیا کہ ’’یا رسول اللہﷺ! وہ کیا چیز ہے، جس کی مداومت لوگوں کوجنّت میں داخل کرے گی۔‘‘ آپﷺ نے فرمایا، ’’اللہ کاڈراورخوش خلقی۔‘‘ (ترمذی شریف)۔
حضرت حارثہ بن وہب ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ’’کیا مَیں تمہیں بتاؤں کہ جنّتی کون ہے؟ ہروہ شخص، جس کا رویّہ (معاملے اور برتاؤ میں اکھڑ اورسخت نہ ہو، بلکہ) عاجزوں، کم زوروں کا سا ہو اوراس وجہ سے لوگ اسے کم زور سمجھتے ہوں۔ (اور اللہ کےساتھ اس کا تعلّق ایسا ہوکہ) اگر وہ اللہ پر قسم کھائے، تو اللہ اس کی قسم پوری کر دکھائے، اور کیا میں تمھیں بتاؤں کہ دوزخی کون ہے؟ ہراکھڑ، بَدخُو اورمغرور شخص۔ (صحیح بخاری وصحیح مسلم)۔
حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’رسول اللہ ﷺ صبح کی نماز پڑھا کر باہر نکلتے، تو مدینہ والوں کے خُدّام اپنے اپنے برتن لے کر آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے، برتنوں میں پانی ہوتا تھا۔ سخت سرد موسم میں بھی آپ ﷺ پانی میں اپنے دستِ مبارک ڈال کربرتن انھیں واپس کردیتے ۔‘‘ (اہلِ مدینہ اس پانی کو متبرک سمجھتے تھے)۔ (صحیح مسلم)۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ نرم مزاجی اورخوش خلقی اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم ﷺ کی فطرتِ پاک ہی میں ودیعت کی تھی۔ سورۂ آل ِ عمران میں آپ ﷺ کو مخاطب کرکے یوں فرمایا گیا ہے ۔’’(اے پیغمبرﷺ)یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اُن لوگوں کےلیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو، ورنہ اگر کہیں تم تُندخُو اورسنگ دل ہوتے، تو یہ سب تمہارے گردوپیش سے چَھٹ جاتے۔‘‘
اس ارشادِ ربّانی سے ثابت ہوتاہے کہ اہلِ عرب کودین ِ حق کی طرف راغب کرنے میں رحمتِ عالم ﷺ کی نرم مزاجی (خوش خُلقی، شیریں کلامی) نے بنیادی کردار ادا کیا۔ حضورﷺ نے عامۃ المسلمین کوبھی نہ صرف خوش خلقی کی تلقین اورتاکید فرمائی، بلکہ انھیں ایسی تمام باتوں سے بھی منع فرمایا، جو باہمی تعلقات پر بُرا اثر ڈالتی ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف نفرت پیدا کرتی ہیں۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، ’’تم دوسروں کے بارے میں بدگمانی سے بچو، کیوں کہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے۔ تم کسی کی کم زوریوں کی ٹوہ میں نہ رہا کرو، اور نہ جاسوسوں کی طرح کسی کے عیب ڈھونڈنے کی کوشش کیاکرو، نہ ایک دوسرے پر بڑھنے کی بے جاہوس کرو۔ نہ ایک دوسرے سے حسد کرو، نہ ایک دوسرے سے بغض وکینہ رکھواورنہ ایک دوسرے سے منہ پھیرو، بلکہ اے اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن کررہو۔ ‘‘(جامع ترمذی ، سنن ابوداؤد)۔