ہر سال کی طرح اِمسال بھی گزشتہ دنوں وفاقی اور صوبائی بجٹ پیش کیے گئے، جن پر تنقید بھی ہوئی اور تحسین بھی کی گئی۔سالانہ وفاقی سالانہ بجٹ، دراصل اُس سمت کا تعیّن کرتا ہے، جس پر پھر مُلک سال بَھر اپنے مالیاتی معاملات چلاتا ہے۔ ساتھ ہی، بجٹ یہ بھی بتا دیتا ہے کہ مُلک ترقّی کی سمت گام زن ہے یا تنزّلی کی طرف جا رہا ہے۔
اِس مرتبہ وفاقی بجٹ کو عام طور پر آئی ایم ایف کے آئندہ پروگرام کے تناظر میں دیکھا گیا، جسے حاصل کرنے کے لیے اتحادی حکومت پورا زور لگا رہی ہے۔ اِسی لیے کہا گیا کہ جو بھاری ٹیکسز عاید کیے گئے، وہ سب آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق ہیں۔ خاص طور پر تن خواہ دار طبقے پر ٹیکس اور جی ایس ٹی میں اضافے پر تو خاصی تنقید ہو رہی ہے۔
ماہرین ہی کیا، عام آدمی کا بھی یہی کہنا ہے کہ ایک طرف تو حکومت تن خواہیں بڑھانے کا اعلان کر کے یہ تاثر دیتی ہے کہ وہ محدود آمدنی کے حامل طبقے کو ریلیف دے رہی ہے، تو دوسری طرف سلیب اور فکسڈ ٹیکس لگا کر نہ صرف سب کچھ واپس لے رہی ہے، بلکہ مزید بوجھ بھی ڈال رہی ہے۔ پھر تن خواہ تو سرکاری شعبے میں بڑھائی گئی، لیکن ٹیکس نجی شعبے کے ملازمین پر بھی عاید کر دیا گیا۔
کیا ہی اچھا ہو کہ ایسے اقدامات سے قبل نجی شعبے کو بھی اعتماد میں لیا جائے اور اُنھیں بھی اپنے ملازمین کی تن خواہیں، سرکاری ملازمین کی تن خواہوں کے تناسب سے بڑھانے پر راضی کیا جائے۔اِس طرح کے اقدامات سے یہ خیال بھی پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کو نجی شعبے کی پروا ہی نہیں یا پھر وہ سمجھتی ہے کہ اِن کے مسائل کا حل اُس کی ذمّے داری نہیں۔ وزیرِ خزانہ کہتے ہیں کہ وہ نجی شعبے سے آئے ہیں، تو کیا اُنہیں معلوم نہیں کہ نجی شعبہ جات کی مشکلات کیا ہیں۔
کئی اداروں میں تو مہینوں مہینوں تن خواہیں نہیں ملتیں اور مالکان کو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں۔پھر یہ کہ توانائی، خاص طور پر بجلی اور گیس کی قیمتوں میں تو سال بَھر اضافہ ہوتا رہتا ہے اور یہ بھی آئی ایم ایف کے کھاتے میں چلا جاتا ہے۔ یعنی تن خواہ میں اضافے سے پہلے ہی بجلی اور گیس کی مد میں اس کی قیمت وصول کر لی جاتی ہے، اِسی لیے عام آدمی اگر یہ پوچھتا ہے کہ ریلیف کہاں ہے، تو اس میں حیرت کی کون سی بات ہے۔
نیز، جی ایس ٹی میں دو فی صد اضافہ ہر شہری پر بوجھ کا باعث ہے۔ کیا حکومت نے اِس اضافے سے قبل یہ سوچنے کی زحمت کی کہ عام آدمی کی آمدنی میں اِسی تناسب سے اضافہ بھی ہوا ہے کہ نہیں۔’’ ٹیکس، ٹیکس‘‘ کا شور مچا کر عام آدمی کو خوف زدہ کرنا مقصود ہے یا آئی ایم ایف کو خوش کرنا، کیوں کہ دو مہینے پہلے دُکان داروں پر ٹیکس عاید کرنے کے جو بلند بانگ دعوے کیے گئے تھے، وہ دھرے کے دھرے رہ گئے۔
آزاد کشمیر میں بجلی چھے روپے یونٹ کردی گئی، جب کہ کراچی میں، جو ساٹھ فی صد ریونیو دیتا ہے، بجلی کا نرخ ستّر روپے فی یونٹ ہے۔ کیا یہ صرف اِس لیے ہوا کہ آزاد کشمیر کے باسیوں نے ہڑتالیں، مظاہرے کیے، جس پر حکومت جُھک گئی۔ بہتر ہوگا کہ حکومت رائے عامّہ ہم وار کرے، عوام کو ٹیکس کے عملی فوائد دِکھائے اور ہر ایک سے برابری کا سلوک کرے۔ورنہ یہ کیا بات ہوئی کہ جو ہڑتال کرے، جس کی یونین مضبوط ہو، اُس سے تو ڈر جائیں اور کم زور یا قانون پسند شہریوں کو نچوڑ لیا جائے۔
وزیرِ اعظم نے حکومت کے ایک سو دن مکمل ہونے پر قوم سے خطاب میں کہا کہ یہ آئی ایم ایف کا آخری پروگرام ہوگا۔اللہ کرے، ایسا ہی ہو۔موجودہ صُورتِ حال میں آئی ایم ایف پروگرام مُلک اور حکومت کی مجبوری بن گیا ہے کہ اِس کے بغیر ہمیں وہ سند دست یاب نہیں، جو مالیاتی اداروں اور مختلف ممالک سے قرضے دِلوا سکے۔ یہ کوئی ڈھکی چُھپی بات نہیں کہ قوم نے خُود کو ایک ایسے مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ بیرونی قرضوں کے بغیر مُلک چلانا ممکن نہیں رہا۔
اکثر کہا جاتا ہے کہ ہمارے وسائل لامحدود ہیں اور اگر انھیں بروئے کار لایا جائے، تو نہ صرف قرض ختم ہوجائیں، بلکہ مُلک بھی خود کفیل ہوجائے، مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ دعوے، ابھی تک محض دعوے ہی ہیں۔ماہرین مُلکی ترقّی کے ضمن میں مختلف نسخے پیش کرتے اور اُنہیں قوم پر آزماتے بھی رہے ہیں۔ کوئی کہتا ہے، اکانومی دستاویزی شکل میں ہونا ضروری ہے، تو کوئی ڈیجیٹلائیزیشن کا حامی ہے۔
ٹیکس نیٹ بڑھانے اور ٹیکس کم کرنے کی بھی باتیں ہوتی ہیں۔ایک رائے یہ بھی ہے کہ ہر شخص کو ٹیکس دینے پر مجبور یا راضی کیا جائے، خواہ اِس کے لیے کتنے ہی سخت طریقے کیوں نہ استعمال کرنے پڑیں۔سب اپنی اپنی جگہ درست ہیں کہ دنیا میں ایسا ہی ہو رہا ہے۔
کسی کو ٹیکس جمع کرنے سے اختلاف بھی نہیں کہ اگر حکومت کے پاس پیسے نہیں ہوں گے، تو مُلک کیسے چلائے گی، ترقّی کیسے ہوگی، نت نئے منصوبے کیسے بنیں گے اور روزگار کہاں سے آئے گا۔ لیکن سوال وہیں آکر رُک جاتا ہے کہ سب کچھ جانتے بوجھتے بھی ایسا ہو کیوں نہیں پاتا۔ کیا لوگ اپنے مُلک اور اپنے معیارِ زندگی کی بہتری نہیں چاہتے۔
ہمارا یہ بھی دعویٰ ہے کہ قوم بہت ٹیلنٹڈ ہے، ہمارے قدرتی اور انسانی وسائل بے پناہ ہیں، ہمارے پاس کُھلی اور پوشیدہ دولت بھی ہے، عوام بھی محنت کرنے کو تیار ہیں، لیکن پھر نتائج ویسے کیوں نہیں آتے، جیسے اردگرد کے ممالک میں نظر آتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ سیاسی استحکام ہوگا، تب ہی معاشی ترقّی ہوگی۔ سوال یہ ہے کہ گزشتہ پچیس سال میں مُلک میں ایسا کون سا انقلاب آیا کہ سب کچھ تلپٹ ہو کر رہ گیا ہو۔ یہ ضرور ہے کہ سڑکوں پر مظاہرے، احتجاج ہوئے، حکومتیں کسی انقلاب، خون خرابے یا بڑے اقتصادی نقصان کے بغیر بدلتی رہیں۔
کبھی جمہوریت کا شور رہا، تو کبھی ہائبرڈ نظام کے قصّے سُنائی دیئے، لیکن اگر وسیع تر تناظر میں دیکھا جائے، تو مُلک میں نظام ڈی ریل نہیں ہوا۔اِس امر میں کوئی شک نہیں کہ کبھی ایک طبقہ شاکی رہا، تو کبھی دوسرا غیر مطمئن، لیکن یہ سب جمہوری یا نیم جمہوری نظاموں کا حصّہ ہے۔ایک اور اہم بات یہ کہ ہر آنے والی حکومت، ماہرین اور عوام اِس امر پر متفّق نظر آئے کہ مُلک و قوم کا سب سے بڑا مسئلہ اقتصادی یا معاشی ترقّی ہے اور اِس سمت میں کچھ کرنا ہوگا۔
شاید وہ کرتے بھی ہیں، خلوص بھی ہوگا، لیکن جب وہ اقتدار سے جاتے ہیں، تو لگتا ہے کہ ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔ ہم سالانہ بجٹ تو بنا لیتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح اسے بارہ ماہ کھینچ بھی لیتے ہیں، لیکن سال کے آخر میں مایوسی، اُمید میں تبدیل نہیں ہوتی۔ ہر بجٹ سے پہلے اور بعد میں عوام دانتوں تل انگلیاں دبائے انتظار کرتے ہیں کہ نہ معلوم کس مصیبت سے گزرنا پڑے۔ کچھ ملے گا بھی یا نہیں، کوئی ترقّی ہوگی یا نہیں۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ اُمید بندھے گی یا ٹوٹے گی۔ کیا ہم نے سوچا کہ یہ مایوسی کیوں ہے؟اس کا جواب بہت سادہ ہے۔ دراصل، ہمارے پاس کوئی قومی اقتصادی ویژن نہیں ہے۔کم از کم ہمیں یہ تو پتا ہونا چاہیے کہ ہم ایک سال بعد کہاں ہوں گے اور پانچ، دس یا پچاس سال بعد قوم ترقّی کی کون کون سی منازل طے کرچکی ہو گی۔عوام کا معیارِ زندگی کتنا بلند ہوگا۔
کتنے کروڑ افراد غربت کی لکیر سے بلند ہوچُکے ہوں گے۔مِڈل کلاس کس حالت میں ہوگی۔اگر ہم اپنے قومی ویژن کے تعیّن میں ناکام رہتے ہیں، تو پھر سالانہ بجٹ تو آتے رہیں گے، مگر مُلک و قوم آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔ اکانومی کی ڈاکیومینٹیشن، ڈیجیٹلائیزیشن، ٹیکنالوجی کا استعمال، تعلیم و تربیت کے لیے ہیومن ریسورسز میں بہتری اور سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کرنا یہ سب اقتصادی ویژن کو سال بہ سال آگے بڑھانے کے طریقے ہیں۔ یہ معیشت کے ٹُولز ہیں، اہداف یا منزل نہیں۔
ہم جب گزشتہ بیس برسوں میں حیرت انگیز ترقّی کرنے والے ممالک کا ذکر کرتے ہیں، تو ہمارے سامنے اقتصادی ویژن رکھنے والے رہنما ہوتے ہیں، جو اقتصادیات کے ماہر تو نہیں ہوتے، لیکن اپنی قوم کی صلاحیتوں سے بہت اچھی طرح واقف ہوتے ہیں۔
اُنہیں یہ بھی پتا ہوتا ہے کہ ماہرین کی ٹیم اکٹھی کر کے ترقّی کے اہداف مقرّر کیے جائیں، تو اُنھیں کب اور کس طرح حاصل کیا جاسکتا ہے۔جاپان میں ایٹم بم سے ہونے والی بربادی کے بعد اس قوم کے سامنے دو راستے تھے۔انتقام کی تیاری یعنی مزید جنگ اور تباہی یا پھر اقتصادی ترقّی۔یہ ایک بے حد مشکل فیصلہ تھا کہ شکست، قوموں میں مایوسی اور انتقام کی آگ بھڑکا دیتی ہے۔
جن کے پیارے ہلاک ہو گئے ہوں، وہ کسی کو معاف کرنے پر تیار نہیں ہوتے۔غیرت کے عجیب عجیب فلسفے بیان کیے جاتے ہیں اور اس بیانیے کا سحر بھی ایسا ہوتا ہے کہ بڑے بڑوں کے پاؤں اُکھڑ جائیں، لیکن جاپانی رہنما سمجھ چُکے تھے کہ دشمنی، مزید دشمنی اور تباہی لائے گی اور اگر جاپانی قوم نے اقتصادی میدان میں دھاک بٹھا دی، تو یہی اُس کی حقیقی جیت ہوگی۔
اِس سے جاپانی قوم کا ایک نیا تشخّص سامنے آئے گا، سافٹ اور انسانی اقدار پر مبنی امیج۔ ترقی اور اعلیٰ معیارِ زندگی کا امیج۔ یہی کام ڈینگ زیاؤ پنگ نے 1980ء میں کیا۔ آزادی سے تیس برس تک چین میں صرف انقلاب ہی کا ذکر تھا اور ہر چھوٹا، بڑا کام اِسی نظر سے دیکھا جاتاتھا۔ڈینگ زیائو پنگ اقتصادی طور پر خاصے ویژنری تھے۔
اُنہیں ادراک تھا کہ قوم کو اُس بلندی تک پہنچایا جائے، جس کے لیے آزادی حاصل کی گئی۔ محض قومی نغمے گانے اور خود ستائی سے کچھ بھی نہیں ہوگا۔ اُن کی دسمبر1979ء کی تقریر اسی قومی ویژن کی عکّاس تھی ۔اُنہوں نے قوم کو کُھل کر بتایا کہ اُسے ایک بڑی طاقت بننا ہے اور اس کا راستا معاشی ترقّی ہی سے گزر کر جاتا ہے۔ دنیا میں کیا ہو رہا ہے، ہوتا رہے، ہمیں اپنی ترقّی سے غرض ہے۔کوئی بھی لیڈر یا سربراہ آئے، اُسے یہ پالیسی جاری رکھنی ہوگی۔چینی قوم نے اس ویژن کو سمجھا اور آگے بڑھ کر عمل کیا۔
مغرب جسے ’’افیون کھانے والی قوم‘‘ کہتا تھا، وہی قوم آج دنیا کی اقتصادی ترقّی کی رہنما ہے۔اُنھوں نے جنگی مقابلے کو تجارتی مقابلے میں تبدیل کردیا۔اِسی لیے اُن کے بدترین دشمن، امریکا اور بھارت بھی، اُن کے سب سے بڑے تجارتی پارٹنر ہیں۔ بھارت میں مَن موہن سنگھ معاشی گائیڈ لائنز سیٹ کر گئے اور آج بی جے پی حکومت کو پندرہ سال سے زاید ہوگئے، لیکن کیا مجال کہ اس پالیسی میں کوئی جھول آیا ہو۔ مودی جلسوں میں کانگریس کو کچھ بھی کہتے ہوں، مگر اقتصادی پالیسی کے بنیادی خدّوخال آج بھی وہی ہیں، جو کانگریس کے مَن موہن طے کر گئے تھے۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان میں ہم یہ قومی اقتصادی ویژن دینے میں کیوں ناکام ہیں، جب کہ پوری قوم اور سیاسی جماعتیں اچھی طرح جانتی بھی ہیں کہ ہماری سب سے بڑی بیماری، معاشی ضعف ہے۔ہمارے رہنما آزادیٔ رائے اور قانون کی حُکم رانی کی بہت بات کرتے ہیں، لیکن قوم کو کبھی یہ نہیں بتایا کہ وہ ترقّی کیسے کرے گی، معیشت کیسے مضبوط ہوگی اور اِس مقصد کے حصول کے لیے اُنھیں کیا کرنا پڑے گا۔آئین اور قوانین، عوام کی بہتری کے لیے ہوتے ہیں، رہنماؤں کو جیل بھیجنے یا وہاں سے نکالنے کے لیے نہیں۔
پارلیمان میں گرما گرم تقاریر تو بہت ہوتی ہیں، مگر کوئی ذرا ٹھوس انداز میں یہ بھی تو بتائے کہ ترقّی کا راستا کس طرف ہے۔بجٹ سیشن میں بجٹ پر بحث غائب اور دیگر معاملات پر بھاشن زیادہ ہوتا ہے۔ کوئی باقاعدہ اقتصادی ٹیم ہے اور نہ ہی ترقی کے طریقوں سے آگہی، وہی گِھسے پٹے آزادی اور آئین کی حفاظت کے نعرے لگا لگا کر عوام کو بے وقوف بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آئین، قانون سے کسے اختلاف ہے، کیا آپ سو سال پہلے کے دَور میں رہ رہے ہیں یا پوری قوم کو احمق سمجھتے ہیں۔
کچھ کر کے دِکھائیں ورنہ یہ لیڈری چھوڑ دیں۔کہتے ہیں’’ قوم بہت غصّے میں ہے، نوجوان بپھرے ہوئے ہیں‘‘ہاں، ایسا ہی ہے، لیکن یہ غصّہ بھی قیادت ہی پر ہے، جوعوام کے لیے کچھ نہ کر سکی اور نہ جانتی ہے کہ کرنا کیا ہے۔جمہوریت میں کسی بھی قوم کا سیاسی دھڑوں میں بٹ جانا عیب کی بات نہیں کہ ہر ایک کا منشور اور انداز الگ الگ ہوتا ہے، لیکن قومی ترقّی پر تو اختلاف نہیں ہوسکتا۔ موجودہ حکومت کی دونوں اہم جماعتوں کی پالیسیز معیشت کے گرد گھومتی ہیں۔
پی ٹی آئی کلٹ کی سیاست تو کرچُکی، اُسے اپنے دورِ حکومت میں اچھی طرح تجربہ ہوگیا ہوگا کہ اس کی راہ کی سب سے بڑی چٹان کوئی سیاسی جماعت تھی نہ لیڈر، فوج نہ اسٹیبلشمینٹ۔ اس کی اصل کم زوری، اس کی ناکام معاشی پالیسی تھی، جس نے مُلک کو بدترین بحران سے دوچار کردیا۔عمران خان کے پاس معاشی ماہرین کی ٹیم تک نہیں تھی، وہ بیانات اور سوشل میڈیا کے چکر سے باہر نہ نکل سکے۔
باقی سیاسی رہنماؤں کو بھی اُن کی ناکامی سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔وقت آگیا ہے کہ قومی اقتصادی ویژن طے کر کے سب اُس کے حصول کے لیے یک جا ہوجائیں۔ جماعتیں اور لیڈر آتے جاتے رہیں گے، ہم اپنی نسلوں کو کیا دینا چاہتے ہیں، اب اس کا واضح فیصلہ کرلینا چاہیے۔