• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرانس میں قبل ازوقت الیکشن: تارکینِ وطن کے لیے ایک نئی آزمائش

فرانس کے صدر،ایمانویل میکرون نے10 جون کو ایک غیر معمولی اور حیرت انگیز قدم اُٹھاتے ہوئے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا اعلان کردیا۔ یوں وہاں 30جون کو قبل از وقت الیکشن ہوں گے، جس کا دوسرا مرحلہ 7جولائی کو اختتام پذیر ہوگا۔ گو کہ یورپی جمہوریتوں میں قبل از وقت انتخابات کوئی اچنبھے کی بات نہیں، لیکن فرانس کے یہ پارلیمانی انتخابات ٹائمنگ کے لحاظ سے بے حد اہم ہیں، کیوں کہ صدر میکرون نے یہ اعلان ایک ایسے وقت کیا، جب یورپی یونین کے انتخابات میں اُن کی مخالف جماعت، نیشنل ریلی پارٹی نے اُن کی جماعت کو شکست سے دوچار ہم کنار کیا۔ 

اِس شکست سے میکرون حکومت ایک عجیب سیاسی صُورتِ حال سے دوچار ہوگئی۔یعنی قومی طور پر تو وہ صدر میکرون کے فیصلے مانے گی، لیکن یورپی پارلیمان میں نیشنل ریلی پارٹی کی رہنما، لی پین کی بات فیصلہ کُن ہوگی، اِسی لیے صدر میکرون نے نئے انتخابات کا رِسک لینے کا فیصلہ کیا۔قوم سے خطاب میں اُن کا کہنا تھا کہ’’ یورپی پارلیمنٹ کے انتخابی نتائج نظر انداز نہیں کیے جا سکتے، یورپ میں دائیں بازو کی جماعتوں کا اثر بڑھ رہا ہے۔‘‘

فرانس میں صدارتی جمہوری نظام رائج ہے اور وہاں فیصلہ کُن اختیارات صدر ہی کے پاس ہوتے ہیں، تاہم، پارلیمان کی رائے کو بھی نظر انداز کرنا ممکن نہیں اور اس سے بِلز کی منظوری لینا ضروری ہے۔ صدر میکرون کے عُہدے یا اختیارات کو فی الحال کوئی خطرہ نہیں کہ ابھی اُن کی صدارتی مدّت میں تین برس باقی ہیں، تاہم آئینی طاقت حاصل کرنے کے لیے پارلیمان کی کمان اپنے ہاتھ میں رکھنا اُن کے لیے ضروری ہوگیا ہے، کیوں کہ اب یورپی یونین میں اُن کی بات کا وزن کم ہوجائے گا، جب کہ فرانس اِس وقت یونین کے دو سب سے طاقت وَر ممالک میں شامل ہے۔ 

جرمنی کی انجیلا مرکل کے بعد میکرون اپنے تجربے سے یورپی سیاست میں اہم ترین مقام رکھتے ہیں۔ غالباً وہ سمجھتے ہیں کہ اِس مقام کو اندرونی اور بیرونی طور پر قائم رکھنے کے لیے ایک مرتبہ پھر فرانس کے عوام سے اعتماد کا ووٹ لینا ضروری ہے۔

فرانس، یورپ ہی نہیں، دنیا بَھر میں ایک اہم مقام کا حامل مُلک ہے۔ مغربی یورپ میں موجود فرانس کا شمار ترقّی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ اس کے پاس ویٹو پاور بھی ہے۔ اس کی زمینی سرحدیں جرمنی، سوئٹزر لینڈ، اٹلی، لیکسمبرگ، اسپین اور مونا کاکو سے ملتی ہیں، جب کہ انگلش چینل کے ذریعے برطانیہ اس کا پڑوسی ہے۔ 

دونوں کے درمیان محض دس میل کا فاصلہ ہے اور اب زیرِ سمندر ریلوے لائن سے دونوں ممالک مزید قریب آگئے ہیں۔ فرانس کا دارالحکومت، پیرس ہے، جو ہمیشہ سے اپنے اندر ایک غیر معمولی کشش رکھتا ہے۔ فرانس کا کلچر بین الاقوامی ہے اور یہاں کا فیشن آگ کی طرح ہر سُو پھیل جاتا ہے۔ فرانس اپنے فلسفے اور آداب کی وجہ سے تہذیب و ثقافت میں بین الاقوامی ہے۔ انقلابِ فرانس آج بھی انقلابات کی ماں اور ان کا پیمانہ مانا جاتا ہے، جس نے دنیا کی سوچ بدل دی۔ 

فرد اور معاشرے کے تعلق کو ری ڈیفائن کیا۔فرانس، دوسری عالمی جنگ سے پہلے ایک بہت بڑی نوآبادیاتی قوّت اور سُپر پاور تھا۔آج بھی اس کی بہت سی نوآبادیاں موجود ہیں۔ اس کے اثرات افریقا، مشرقِ وسطیٰ سے کینیڈا تک پھیلے ہوئے ہیں۔ کیوبک میں، جو کینیڈا کا حصّہ ہے، فرانسیسی بولنے والوں کی اکثریت ہے۔ اِسی طرح دیگر بہت سے ممالک اور علاقوں میں یہ زبان بولی جاتی ہے۔ دوسری عالمی جنگ میں فرانس کا کردار مرکزی تھا۔

ہٹلر نے اس پر قبضہ کیا اور اسی کے بعد اُس کا زوال شروع ہوا، جو مشہور ڈی۔ڈے لینڈنگ پر ختم ہوا، جب اتحادی فورسز نے فرانس کے ساحل پر اپنی فوجیں اُتاریں اور جرمنی کو پے درپے شکست دے کر ہٹلر کی قوّت ختم کردی۔فرانس کی کُل آبادی سات کروڑ ہے، جس میں دس فی صد مسلمان ہیں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق الجزائر سے ہے، جو 1960 ء تک فرانس کی کالونی تھا۔ یہی وہ مسلم آبادی ہے، جس کے مسائل فرانس میں زیرِ بحث رہتے ہیں۔اِس مرتبہ اولمپک گیمز بھی پیرس میں ہو رہے ہیں، جو اِن انتخابات کے چند ہفتوں بعد ہوں گے۔

یورپ میں بڑھتی قوم پرستی پر ہم اکثر لکھتے رہے ہیں۔شاید ہی کوئی مُلک بچا ہو، جہاں اس کے اثرات نہ پہنچے ہوں۔یورپی یونین کے ہر رُکن مُلک کے انتخابات میں اِس کی گونج سُنائی دیتی ہے، بلکہ کئی ممالک میں تو قوم پرست جماعتیں، جن کا تعلق انتہائی دائیں بازو سے ہے، اب پاور میں ہیں، ان میں سے دو اٹلی اور نیدر لینڈ میں گزشتہ سال ہی طاقت میں آئیں۔ ان جماعتوں کا بنیادی بیانیہ تارکینِ وطن مخالف یا اینٹی ایمیگرینٹس پالیسی ہے۔اِس ضمن میں دو باتیں اہم ہیں، ایک تو یہ کہ مزید تارکینِ وطن کے لیے دروازہ بند کردیا جائے۔

دوسرا تارکینِ وطن کے حقوق پر قدغن لگائی جائے اور اُنہیں اِس بات کی قطعاً اجازت نہ دی جائے کہ وہ اپنی کسی بھی قسم کی علیٰحدہ شناخت قائم رکھ سکیں، چاہے وہ مذہب سے متعلق ہو یا زبان و کلچر سے۔اِس سوچ سے سب سے زیادہ متاثر مسلمان تارکینِ وطن ہو ہے ہیں۔اصل میں یہ مسئلہ شامی جنگ سے شروع ہوا، جب وہاں کے آمر بشار الاسد نے اپنی ہی آبادی پر فوج چڑھا دی، جس سے مُلک کی نصف آبادی بے گھر ہوگئی۔ شام کے قدیم زمانے سے یورپی ممالک سے تہذیبی اور ثقافتی رشتے رہے ہیں۔ بے گھر ہونے والوں میں سب سے زیادہ پناہ گزین تُرکیہ آئے، جن کی تعداد تیس لاکھ کے قریب ہے۔

شروع شروع میں تو مشرقِ وسطیٰ ، مغربی ممالک اور امریکا ،شامی اپوزیشن کا ساتھ دیتے رہے اور یہ اُمید تھی کہ کوئی ایسا حل نکل آئے گا کہ جس سے یہ بے گھر افراد دوبارہ اپنے مُلک میں آباد ہوجائیں گے، لیکن پھر مغرب اور بعد میں مشرقِ وسطیٰ کے ممالک نے سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے روس اور ایران کو یہاں کُھلی چُھٹی دے دی۔ اسد افواج اُن کی مدد سے جیت گئیں اور یہ بے گھر لوگ آج تک پناہ گزینی پر مجبور ہیں۔ شامی اکثریت، اسد اقلیت اور اس کے اتحادیوں کی طاقت، بندوق اور بم باری سے شکست کھا گئی۔

نتیجتاً پناہ گزینوں کے ایک سیلاب نے یورپ کا رُخ کرلیا۔کچھ عرصے تک تو یورپ نے انسانی حقوق کے نام پر ان تارکینِ وطن کو قبول کیا۔ پھر ان کے صبر اور میزبانی کا پیمانہ چَھلک گیا۔ وہاں معاشرتی مسائل پیدا ہونے لگے، تو ان کے خلاف ایک مہم شروع ہوگئی۔ اب انہیں تُرکیہ جیسے میزبان رکھنے کو تیار ہیں اور نہ ہی بحرِ روم کے پار کوئی یورپی مُلک قبول کرتا ہے۔2016 ء کے بعد سے ان پناہ گزینوں کی یورپ میں غیر قانونی آمد ایک مسئلہ بنتی چلی گئی۔

پہلے یہ انسانی مسئلہ تھا، پھر انتظامی اور اب یہ سیاسی مسئلہ بن چُکا ہے، بلکہ یہ یورپ کا سب سے بڑا سیاسی مسئلہ بنا ہوا ہے۔ سیاسی جماعتیں اسی ایشو پر جیت اور ہار رہی ہیں۔لی پین کی نیشنل ریلی پارٹی اِنہی میں سے ایک ہے۔دائیں بازو کی جماعتیں زور پکڑنے لگی ہیں، جن کا بنیادی ایجنڈا ہی غیر قانونی پناہ گزینوں کا داخلہ روکنا اور پہلے سے آباد تارکینِ وطن کو مُلکی کلچر میں ضم کرنا ہے۔

فرانس کی نیشنل ریلی پارٹی، یورپ میں دائیں بازو کی طاقت وَر ترین جماعت ہے۔ اِس کی لیڈر، لی پین خاصی مقبول ہیں، جس کا اندازہ اِس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ گزشتہ صدارتی الیکشن میں وہ صدر میکرون کی مقابل تھیں۔ یورپی یونین الیکشن نتائج کے بعد نیشنل ریلی پارٹی کے28 برس کے رہنما، جورڈن بارڈیلا نے پارلیمانی انتخابات کروانے کا مطالبہ کیا تھا۔صدر میکرون نے جواباً اعلان کردیا اور کہا کہ’’ آج فرانس کو امن اور ہم آہنگی کی ضرورت ہے، جسے وہ حاصل کریں گے۔‘‘

قومی اسمبلی میں صدر میکرون کو اکثریت حاصل نہیں تھی، اِس لیے انہیں بِلز کی منظوری کے لیے بہت تگ ودَو کرنی پڑتی۔ اب یورپی پارلیمان میں لی پین کی پارٹی کے آنے سے ان کے اگلے تین سال بہت مشکل ہوجائیں گے۔ گو، بڑے اور اہم معاملات میں یورپی صدارتی نظام، صدر کو بہت وسیع اختیارات دیتا ہے اور وہ کسی بھی قسم کا فیصلہ کر سکتے ہیں، جیسے یوکرین جنگ میں کیے گئے فیصلے۔ ایسے میں صدر میکرون غالباً یہ چاہتے ہیں کہ تارکینِ وطن کے معاملات بھی اپنے ہاتھ میں رکھیں اور کسی قسم کی بے چینی پیدا نہ ہونے دیں۔ 

لی پین، جو اب ایک منجھی ہوئی سیاسی لیڈر ہیں، اس چال کو خُوب سمجھتی ہیں، تاہم وہ چاہتی ہیں کہ عوام میں ہلچل رہے اور وہ صدر میکرون کے مقابل کے طور پر میدان میں موجود رہیں، حالاں کہ انہیں میکرون کے مقابلے میں دو مرتبہ شکست ہوچُکی ہے۔یوکرین جنگ یا نیٹو جیسے معاملات صدراتی اختیارات کے ذریعے طے ہوں، اس پر تو فرانس کے عوام کو کوئی اعتراض نہیں۔

فرانس، خارجہ پالیسی میں امریکا کا مضبوط اتحادی ہے۔غزہ کے بحران میں بھی اس نے امریکا کا بھرپور ساتھ دیا، لیکن عوام اندرونی معاشی اور روز مرّہ کے معاملات کی پارلیمان سے منظوری چاہتے ہیں۔ عوام کی خواہش ہے کہ اِس طرح کے معاملات پر کُھلا بحث مباحثہ ہو۔ بجٹ آنے والا ہے اور صدر میکرون کی پارٹی کے پاس اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے اُسے مشکلات پیش آئیں گی۔خاص طور پر عالمی منہگائی کی وجہ سے عوام کی بے چینی کا سدّ ِباب مشکل تر ہوتا جا رہا ہے۔

میکرون حکومت کو توانائی کی بڑھتی قیمتوں کے تناظر میں بہت سے ایسے اقدامات اُٹھانے پڑیں گے، جو عوام کے لیے مشکلات بھی کھڑی کر سکتے ہیں۔یاد رہے، فرانس میں ٹریڈ یونین سسٹم بہت طاقت وَر ہے اور وہاں کی یونینز یا مزدور ہر چند ماہ بعد کسی نہ کسی مسئلے پر سڑکوں پر ہوتے ہیں، جن کے مطالبات کی منظوری حکومت کے لیے دردِ سر ہوتی ہے۔ اگر ایک ایسی حکومت ہو، جس کے پاس پارلیمان میں اکثریت نہ ہو، پھر تو معاملہ بہت ہی پیچیدہ ہوجاتا ہے۔ عموماً اِس طرح کے معاملات کو وزیرِ اعظم دیکھتا ہے۔ 

اِسی لیے ماہرین کا خیال ہے کہ صدر میکرون نے، جن کے پاس ابھی تین سال باقی ہیں، فیصلہ کیا کہ اکثریت حاصل کرنے کا رسک لے لیا جائے۔اگر وہ کام یاب ہوجاتے ہیں، تو پھر تین سال آسان، دوسری صُورت میں لی پین کو وزیرِ اعظم بننے کا موقع دیا جائے گا۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ لی پین کو اندرونی گورنینس کے مسائل سے نبردآزما ہونا پڑے گا اور یہ صُورتِ حال اُن کے لیے کسی آزمائش سے کم نہ ہوگی، کیوں کہ حکومت کے ہاتھ پیر بندھے ہوں گے۔

اگر وہ عوام کو مطمئن نہ کرسکیں، تو اس کے اثرات آئندہ کے صدارتی اور پارلیمانی الیکشنز پر مرتب ہوں گے۔ دوسرے الفاظ میں یہ صدر میکرون کا ایک سوچا سمجھا فیصلہ لگتا ہے۔ لی پین کی پارٹی اِس وقت قبل از وقت انتخابات کے لیے تیار نہیں، کیوں کہ اس کا سارا زور یورپی یونین کے انتخابات پر تھا۔ریلی پارٹی اُن انتخابات سے اپنی آواز توانا کر کے دوسرے ممالک کی دائیں بازو کی جماعتوں کا حوصلہ بڑھانا چاہتی تھی۔ اُس کا ایک ہی نعرہ ہے یا آپ اسے منشور بھی کہہ لیں اور وہ ہے،’’ امیگریشن کی روک تھام۔‘‘

بہرحال، فرانس کے انتخابی معاملے میں سب سے زیادہ تشویش اُن لوگوں کو ہوگی، جن کے مسئلے پر یہ پارلیمانی انتخابات لڑے جائیں گے۔یعنی تارکینِ وطن۔ فرانس اور یورپ کی سرزمین ان کے لیے تنگ ہوتی جارہی ہے، لیکن ان کے پاس اِس صُورتِ حال سے نمٹنے کے لیے کوئی لائحۂ عمل نہیں۔ ان تارکینِ وطن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ اسلامی ممالک، جن کی تعداد عالمی پلیٹ فارم پر سب سے زیادہ، یعنی59 ہے، محض اسلامو فوبیا کی قرار داد پاس کر کے مطمئن ہوکر بیٹھ جاتے ہیں۔

ہم بتا چُکے ہیں کہ تارکینِ وطن کے مسئلے نے اصل زور کوئی دس سال پہلے شام کی جنگ کے بعد پکڑا۔ اُس وقت مسلمان آنے والے طوفان پر غور کی بجائے، اسے عرب۔ ایران برتری کی جنگ سے باہر کے تناظر میں دیکھنے کو تیار نہیں تھے۔ پھر روس اس میں کود پڑا، ایران نے اس میں فوجی اور مالی کردار ادا کیا اور باقی فریق پیچھے ہٹتے چلےگئے۔آج یہ سارے مسلم ممالک اسلامو فوبیا کا ذکر رسماً تو کرتے ہیں، لیکن اس اصل مسئلے کے حل کے لیے کوئی سوچ نہیں رکھتے۔

اسلامو فوبیا کا سامنا اُن مسلمانوں کو نہیں، جو مسلم ممالک میں آباد ہیں، بلکہ اس کا سامنا وہ مسلمان تارکینِ وطن کر رہے ہیں، جو یورپ میں آباد ہیں، جیسے فرانس میں الجزائری مسلمان، جو آزادی کے بعد نیچرلائیزیشن کے تحت یہاں کے شہری بنے۔ یورپ کی دائیں بازو کی جماعتیں ان ہی کے خلاف سیاسی اور انتخابی مہم چلا رہی ہیں۔ اگر مسلمانوں نے اِس معاملے پر سیاسی طور پر توجّہ نہ دی، تو یہ لہر برطانیہ، امریکا، کینیڈا اور دیگر ممالک تک بھی پھیل سکتی ہے، جہاں نیشنل ریلی پارٹی جیسے نظریات کی حامل جماعتیں اُٹھنے کے لیے تیار ہیں۔

آج یورپ کے باہر دیگر ممالک میں رہنے والے مسلمان تارکینِ وطن مطمئن ہیں اور خوش ہیں کہ اُنھیں اچھی زندگی گزارنے کے مواقع حاصل ہو رہے ہیں، لیکن کل جب دائیں بازو کی جماعتیں ان ممالک میں بھی مسلمانوں کو ٹارگٹ کریں گی، تب اُن کی آنکھیں کُھلیں گی، لیکن کہیں اُس وقت تک بہت دیر نہ ہو چُکی ہو، جیسے آج فرانس میں نظر آرہا ہے۔