سماج پر سب سے زیادہ اثر انداز جامع مساجد ہوتی ہیں یا جامعات۔ جامع مساجد تو اپنا یہ فریضہ بہ دستور بخوبی انجام دے رہی ہیں، لیکن بد قسمتی سے جامعات سماج سے دُور ہوتی جارہی ہیں۔ جامعات میں نہایت اہم موضوعات پر کئی کئی روز تک سیمینارز جاری رہتے ہیں، لیکن بد قسمتی سے ان شہروں کے مکین ان موضوعات پر ماہرین کی آراء اور خیالات سے نابلد ہی رہتے ہیں۔
جامعہ کراچی مُلک کی سب سے بڑی یونی ورسٹی ہے اور سب سے زیادہ طالب علم اسی جامعہ میں زیرِ تعلیم ہیں۔ جامعہ کراچی میں 50سے زاید شعبہ جات اور20سے زاید تحقیقی مراکز قائم ہیں، لیکن سب سے بڑے شہر، کراچی پر اس کے اثرات اس تناسب سے مرتّب نہیں ہو رہے۔ تاہم، ایک مثبت پہلو یہ ضرور نکل سکتا ہے کہ شہر میں پھیلنے والے امراض میں جامعہ کا بنیادی کردار نہیں ہے، لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ شہر میں صحت مندانہ سرگرمیوں کے فروغ کے ضمن میں بھی جامعہ کے ہمہ گیر اثرات نظر نہیں آتے۔
گزشتہ دنوں کراچی یونی ورسٹی میں ایک سیمینار کا انعقاد ہوا، جس کا مرکزی موضوع ’’سوشل سائنسز اسٹڈیز میں اُبھرتے نت نئے رجحانات‘‘ تھا۔ یہ سیمینار اس اعتبار سے خاصا اہم اور بروقت تھا کہ نِت نئے اُبھرتے رجحانات، چاہے وہ منفی ہوں یا مثبت، ہمارے سماج کو متاثر کر رہے ہیں اور اس حوالے سے درد مند شہریوں کو تشویش لاحق رہتی ہے۔ اور اگر انہیں یہ علم ہوتا کہ اُن کی جامعہ میں اس ضمن میں پروفیسرز اور ڈاکٹرز اپنی تحقیق و مشاہدات کے تناظر میں اپنے افکار پیش کریں گے، تو وہ بھی ضرور شریک ہوتے۔
تاہم، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کل کے ’’اطلاعاتی دَور‘‘ میں بھی جامعہ کراچی شہریوں سے دُور کیوں ہے؟ چھوٹی چھوٹی تنظیموں کی مجالسں، کُتب کی رُونمائی کی تقاریب اور شعری نشستیں تو سوشل میڈیا پر دُھوم مچاتی ہیں، لیکن اتنے با مقصد سیمینارز آفیشل سیکرٹ کی طرح ’’اِن چیمبر‘‘ بلکہ ’’اِن کیمرا‘‘ سماعت تک محدود رہتے ہیں۔
دو روزہ سیمینار میں ویژوول اسٹڈیز کے حوالے سے آخری سیشن ہمارے لیے اس لیے اہمیت رکھتا تھا کہ ہماری پوتی اس شعبے میں زیرِ تعلیم ہے، مگر اُسے بھی اس سیمینار سے متعلق کچھ علم نہیں تھا۔ ہماری جامعہ کراچی کے فعال و متحرک وائس چانسلر اور منتظمین سے درخواست ہے کہ وہ اپنے میڈیا سیکشن کو ’’وہ زندہ تمنّا‘‘ دیں کہ جو طلبہ، اساتذہ اور والدین کے ’’قلب کو گر ما دے‘‘ اور ان کی ’’روح کو تڑپا دے۔‘‘
سیمینار کے دوران ہم نے جس نشست سے خطاب کیا، اُس کا موضوع تھا، ’’تاریخ و ادبی مطالعات میں نئے رُجحانات۔‘‘ گرچہ یہ خاصا وسیع موضوع ہے اور اس پر بہت سے سیر حاصل مقالات پڑھے گئے، مگر ہم جس ڈیجیٹل دَور میں سانس لے رہے ہیں، وہاں نئے رُجحانات بہت جلد پرانے ہوجاتے ہیں۔ تاہم، یہ اچّھی بات ہے کہ موضوع میں مطالعات کو کسی ایک زبان تک محدود نہیں کیا گیا۔ چُوں کہ اُردو ہماری قومی زبان ہے، اس لیے زیادہ تر گفتگو اس زبان میں ہونا ایک فطری اَمر تھا۔
تاہم، باعثِ تسکین بات یہ ہے کہ سندھی ادب میں نئے رُجحانات کا ڈاکٹر شیر مہرانی نے بہت دِل نشیں انداز میں جائزہ لیا۔ ہر چند کہ سندھی، پنجابی، بلوچی، پشتو، براہوی، سرائیکی، بلتی، شینا اور ہندکو زبانوں کو علاقائی زبانیں کہا جاتا ہے، لیکن ہم انہیں بھی’’ قومی زبانیں ‘‘کہنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے اور ہمارے خیال میں ایسا کہنے سے قومی سلامتی کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا، کیوں کہ اُردو پاکستان کے تمام شہریوں کے درمیان رابطے کی زبان ہے ،جب کہ دُور دراز علاقوں میں بھی مختلف صوبوں کے لوگ ایک دوسرے سے اُردو ہی میں بات کرتے ہیں۔؎سندھی، پنجابی، بلوچی ہو کہ پشتو خوش بُو…سب کو آپس میں ملاتی ہے مہکتی اُردو۔
ہر زبان اپنی کئی صدیاں رکھتی ہے۔ ان صدیوں کے ثقافتی اُتار چڑھائو، روحانی مراقبے اور صوفیاء کی مزاحمت ان زبانوں کے شعری و افسانوی اثاثوں کو گراں قدر بناتی ہے۔ انگریزی، اُردو اور دیگر پاکستانی زبانیں تاریخی و ادبی مطالعات سے مالا مال ہیں اور ہم اس وقت اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ ان میں نئے رُجحانات موجود ہیں یا نہیں؟
نیز، ان رُجحانات نے سماج کو منفی طور پر متاثر کیا ہے یا مثبت انداز میں؟ سوشل سائنسز کا مطالعہ تو اب صرف سرکاری جامعات ہی تک محدود ہوتا جا رہا ہے، جب کہ نجی جامعات کاروباری مراکز بن چُکی ہیں، جہاں صرف کاروبار ہی کو ترجیح دی جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں ہمارا پورا سماج ’’بازاری‘‘ ہوتا جارہا ہے۔گرچہ پہلے لفظ، ’’بازاری‘‘ سے کچھ گریز کیا جاتا تھا، لیکن اب اس سے ہماری وابستگی اور اس کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔
اس موضوع پر سیمینار کی اہمیت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ آج پاکستان میں ضابطے بکھر اور سسٹم زمیں بوس ہو رہے ہیں۔ مُغلیہ دَور کے آخری برسوں کی سی کیفیت ہے۔ جب بادشاہ حُکم رانی کی بہ جائے غزل گوئی کرتے تھے اورتب انگریز آہستہ آہستہ اپنا اثرو رسوخ بڑھا رہا تھا۔ دِلّی والے صبح بیدار ہوتے، تو اُنہیں علم نہیں ہوتا تھا کہ آج کس کی بادشاہت ہے اور اختیار کس کے پاس ہے۔
اُن دنوں کا ادب اور تاریخ بھی نئے رُجحانات سے ہم کنار ہو رہے تھے۔ پھر جب دوسری جنگِ عظیم کے بعد سام راجی اپنی غلام بستیوں کو آزاد کرنے پر مجبور ہوئے، تو اُس دَور کے ادب و تاریخ میں بھی نئے رُجحانات نظر آتے ہیں اور آج بھی انتشار اور افراتفری کی وہی کیفیت ہے۔ ایسے میں اعلیٰ ادب تخلیق ہوتا ہے اور اس کے مطالعے سے آپ کو اُن دنوں کے سماج کے نئے رُجحانات سے آگہی حاصل ہوتی ہے۔
یقیناً نئے رُجحانات نمو پارہے ہیں اور تاریخ کے پہیے کو آگے کی جانب دھکیل رہے ہیں۔ بہ قول بُلّھے شاہ؎ اُلٹے ہور زمانے آئے…اپنیاں دے وچ الفت ناہیں…کیا چاچے کیا تائے…اُلٹے ہور زمانے آئے…پیو، پُتراں اتفاق نہ کائی…دِھیاں نال نہ مائے…اُلٹے ہور زمانے آئے…سچیاں نوں پَئے مِلدے دھکّے…جھوٹے کول بہائے…اُلٹے ہور زمانے آئے…اگلے جا بنگاہ لے بیٹھے…پچھلیاں فرش وچھائے…اُلٹے ہور زمانے آئے…بُھوریاں والے راجے کیتے…راجیاں بھیکھ منگائے…اُلٹے ہور زمانے آئے…بُلّھا حُکم حضُوروں آیا…تِس نُوں کون ہٹائے۔
آج کے مُلک گیر ہی نہیں بلکہ عالمی سطح کے آشوب میں بھی امید کی ایک ہی کرن ہے کہ ایک ایک ذی نفس کو عِلم ہے کہ اصل اتھارٹی کس کے پاس ہے اور زوال کا ذمّے دار کون ہے۔ اقبال نے نوید دی تھی کہ ’’گراں خواب چینی سنبھلنے لگے‘‘ لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ؎حقیقت خرافات میں کھوگئی…یہ اُمّت روایات میں کھو گئی۔ تاریخ کے ہر فیصلہ کُن موڑ پر ایسے زمانے آتے ہیں اور ایسے میں جامعات سے یہ توقّع کی جاتی ہے کہ وہ اس آشوب، انحطاط اور زوال کے اسباب کی نشان دہی کے ساتھ ان سے نجات کی راہیں بھی تجویز کریں۔
ہم تو اس بات کے قائل ہیں کہ صرف جامعات ہی رہ نمائی کا فریضہ انجام دے سکتی ہیں۔ ہم گزشتہ کئی دہائیوں سے صحرائوں میں بھٹک رہے ہیں اور اندھیروں میں آگے بڑھنے کی ناکام کوششیں کررہے ہیں، تو ایسے میں جامعات ہی قندیل روشن کر سکتی ہیں۔؎اندھیری شب ہے، جدا اپنے قافلے سے ہے تو…تِرے لیے ہے مِرا شعلۂ نوا قندیل۔
امریکی جامعات اس وقت انسانیت کے وقار کی سر بلندی کے لیے روشنی کے مینار بنی ہوئی ہیں۔ کولمبیا یونی ورسٹی کے طلبہ انسانیت سوز اسرائیلی مظالم کے خلاف احتجاج میں پیش پیش ہیں۔ یاد رہے کہ امریکیوں نے جب 25مئی 1754ء کو کولمبیا یونی ورسٹی کا آغاز کیا، تو اُن دنوں ہمارے ہاں قلعے اور تاج محل تعمیر کیے جا رہے تھے۔
تاریخی و ادبی مطالعات میں نئے رُجحانات کا جائزہ لینے کے لیے عربی، فارسی، ہندی، انگریزی، فرانسیسی، رُوسی اور دیگر زبانوں کے تراجم بھی ناگریز ہیں اور اسی طرح سندھی، پنجابی، بلوچی، پشتو اور سرائیکی زبان سے بھی شاعری اور فکشن کو اُردو میں منتقل کیا جانا چاہیے۔ ہمارے ہاں اُردو، سندھی، سرائیکی، بلوچی اور پنجابی ناولز میں نئے رُجحانات خاص طور پر نظر آرہے ہیں۔
نئے ہزاریے میں ہر زبان میں ایسے اعلیٰ پائے کے ناولز تخلیق کیے گئے ہیں کہ جنہیں آفاقی اہمیت کی تخلیقات کہا جاسکتا ہے اور ان میں ہمارا سماج اور اُس کی جبلتیں بہت پُر اثر انداز میں سامنے آتی ہیں۔ اوکسفرڈ سمیت دوسری عالمی شُہرت یافتہ جامعات کی طرح ہماری جامعات کو بھی اپنی کُتب کی اشاعت بحال کرنی چاہیے۔
یاد رہے کہ اب بڑے بڑے چھاپے خانے قائم کرنے کی ضرورت نہیں رہی کہ اب ڈیجیٹل پرنٹنگ کے لیے پرنٹرز آگئے ہیں۔ علاوہ ازیں، سوشل میڈیا پر اپنے سیمینارز، مذاکروں اور تحقیقی مقالوں کے مندرجات آویزاں کرنے چاہئیں۔
ہماری جامعات میں بہت کام ہورہا ہے، لیکن معاشرے یا عام آدمی سے ان کا ربط نہیں ہے۔ مغرب میں جامعات کے اپنے اخبارات کے علاوہ ریڈیو، ٹی وی اور یو ٹیوب چینلز ہیں، جن کے ذریعے وہ سماج سے جُڑی رہتی ہیں۔ وہ اپنے اساتذہ اور طلبہ کے خیالات ان ذرایع ابلاغ کے ذریعے عام شہریوں تک پہنچاتی ہیں۔ علاوہ ازیں، کالجز اور جامعات کے جرائد کی شان دار روایت بھی ڈیجیٹل انداز میں بحال ہونی چاہیے۔
آج کے زر پرست اور کمرشل ازم کے زیرِ اثر ماحول کو ادب و علم دوست ماحول میں بدلنا مُلک کی سلامتی اور وقارِ انسانیت کی بلندی کے لیے ناگزیر ہے۔ نیز، حرف و دانش پرنٹ میڈیا کی بھی ضرورت ہیں اور سوشل میڈیا کی بھی۔ آج مُلک سے دانش کا انخلا ہورہا ہے اور سرکاری ایوانوں میں ذہن کا استعمال اور ذہانت کا اطلاق شاذ شاذ ہی ہوتا ہے، جب کہ جامعات پارلیمان کی بھی رہنمائی کرسکتی ہیں اور ایسے سیمینارز کے انعقاد سے سماج میں تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں۔
بشرطیکہ ان میں طے کیے گئے اہم نکات اور تجاویز عام لوگوں اور اداروں تک پہنچائی جائیں۔ اس ضمن میں جامعات کی انتظامیہ، اساتذہ کے ساتھ طلبہ کو بھی یہ موقع فراہم کرے کہ وہ سیمینارزمیں جو کچھ سُنتے ہیں، اُنہیں اپنے الفاظ میں مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر آویزاں کریں۔ جامعات کی انتظامیہ کو تو قدرتی طور پر یہ فوقیت حاصل ہے کہ ہزاروں نوجوانوں کا ان سے روزانہ رابطہ رہتا ہے اور ان کے ذریعے وہ اپنی حکمتِ عملی کو گلی محلّوں اور گھروں میں بہ آسانی اور بروقت پہنچا سکتی ہیں۔
امریکا میں تھنک ٹینکس کو Universities without Students کہا جاتا ہے، جب کہ ہم پاکستانی جامعات کو Think Tanks with Hundred Thousands of Students قرار دیتے ہیں۔ تو کیا ہائر ایجوکیشن کمیشن سرکاری اور متموّل نجی جامعات کا ایک کنسورشیم بنا کر اپنا ایک بڑا میڈیا ہائوس نہیں بنا سکتا۔ جس کا اپنا اخبار، ریڈیو، ٹی وی اور یوٹیوب چینل ہو، جہاں سے تاریخ اور ادب کے مطالعات کی روشنی میں مختلف پروگرامز نشر کیے جائیں تاکہ اس سے جامعہ اور جمہور آپس میں جُڑ جائیں۔
تمام طبقات اور مکاتبِ فکرکے لیے قابلِ قبول درسی نصاب
ہر ذمّے دار، باشعور اور اپنے استحکام کے لیے فکر مند قوم درس گاہوں میں پڑھائی جانے والی کُتب کے مندرجات بڑی احتیاط اور بھرپور توجّہ سے مرتّب کرتی ہے ، اسے ٹیکسٹ بُک بورڈز یا چند پیشہ ور مصنّفین کے حوالے کر کے مطمئن نہیں ہو جاتی۔ پہلی سے بارہویں جماعت تک کے عرصے کے دوران ہی کسی قوم کے مستقبل کی تشکیل ہوتی ہے، کیوں کہ آگے چل کر پائلٹ، استاد، عالمِ دین، سرکاری افسر، سائنس داں، تاجر، صنعت کار، فوجی، سیاسی رہنما، انجینئر، آرٹسٹ، محنت کَش، صحافی اور کاشت کار وغیرہ یعنی قومی مشینری کے مختلف پُرزے بن کر اسے رواں دواں رکھنے والے طلبہ کے اذہان کی تعمیر انہی ابتدائی برسوں میں ہوتی ہے۔
اس مقصد کے لیے سازگار ماحول اور اپنے دین، روایات، تاریخ اور جغرافیے سے آگہی کی فراہمی مملکت کی ذّمے داری ہوتی ہے اور ان بنیادی ضروریات کی اہمیت سے کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا۔ کسی بھی دوسرے مُلک کی طرح بیش تر پاکستانی والدین کی بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اُن کے بچّے جب عملی زندگی میں قدم رکھیں، تو ایک ذمّے دار اور باشعور شہری کے ذہنی رویّوں اور رُجحانات سے سرشار ہوں۔
ہمارا آئین ہمیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی شناخت دیتا ہے۔ اس لیے نصابِ تعلیم میں اسلام، جمہوریت اور پاکستان سے متعلق تمام بنیادی معلومات شامل ہونی چاہئیں۔ چُوں کہ درس گاہوں میںہر طبقۂ فکر کے بچّے پڑھتے ہیں، اس لیے نصابِ تعلیم اتفاقِ رائے سے مرتّب ہونا چاہیے کہ اتفاقِ رائے کا عُنصر ہی نصابِ تعلیم کو’’ مملکت‘‘ کا منصب عطا کرتا ہے۔
یاد رہے کہ حکومت کے اقدامات پر تو اختلافات ہوتے ہیں، لیکن مملکت کے فیصلوں پر سب کو اتفاق ہوتا ہے۔ اس لیے نصابِ تعلیم کی تصنیف، تدوین اور ترتیب ایسے افراد اور اداروں کے ذریعے ہونی چاہیے کہ جو ہر مکتبۂ فکر کے لیے قابلِ قبول ہوں۔واضح رہے کہ پاکستان واحد کثیر اللّسانی، کثیر النّسلی، کثیر المسلکی، مختلف الخیال افراد اور اقلیتوں کا حامل مُلک نہیں ہے، بلکہ دُنیا کے کئی دیگر ممالک میں بھی اسی طرح کا تنوّع پایا جاتا ہے اور ان ریاستوں نے ایسے نصاب مرتّب کیے ہیں کہ جو سب کے لیے قابلِ قبول ہیں۔
ان ممالک میں طلبہ کی شرح بھی پاکستان سے زیادہ ہے اور وہاں استحکام بھی ہے۔ علاوہ ازیں، ان معاشروں میں دینی شعائر اور روایات کو خطرات بھی لاحق نہیں ہیں۔ نیز، صنعتی ترقّی میں بھی وہ کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔