• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
دوستو! سچی بات یہ ہے کہ عزت کمائی جاتی ہے۔ عزت نہ خریدی جاسکتی ہے اور نہ ہی کسی بڑے عہدے سے ملتی ہے۔ اگر خریدی جاسکتی تو عزت صرف دولت مندوں کی ملکیت یا لونڈی ہوتی۔ اگر عہدوں سے عزت ملتی تو صرف عہدے دار ہی معزز ہوتے۔ عزت کمائی جاتی ہے اپنے کاموں سے، خلوص سے، اخلاق سے اور اعلیٰ کردار سے...... یہی وجہ ہے کہ ہر شخص کا عزت کے ترازو میں وزن الگ الگ اوراپنا اپنا ہوتا ہے۔ بعض غریب لوگ رئیس ترین حضرات سے زیادہ باعزت ہوتے ہیں اور لوگوں کے دلوں میں امراء کی نسبت کہیں زیادہ جگہ پا جاتے ہیں۔ بعض امراء، صنعت کار، روساء اور اعلیٰ عہدے دار ایسے ہوتے ہیں جنہیں دیکھ کر خدا کی رحمت منہ موڑ لیتی ہے۔ خدا کی رحمت منہ موڑتی ہے تو خلق خدا بھی نہ صرف منہ موڑ لیتی ہے بلکہ انہیں دیکھ کر دل ہی دل میں ناپسندیدگی سے بے چین ہو جاتی ہے۔ عزت ملتی ہے خدمت سے، کردار سے، اخلاق سے اور دوسروں کی عزت کرنے سے۔ اسے میں کمائی کہتا ہوں کیونکہ خدمت خلق، اعلیٰ اخلاق، نیک سیرت انسان کی کمائی ہی ہوتی ہیں۔ مولانا ایدھی بنیادی طور پر درمیانے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن خدمت خلق یعنی اپنی کمائی سے لوگوں کے دلوں میں بستے ہیں، لاکھوں کی دعائیں لیتے ہیں اور کروڑوں سے عزت پاتے ہیں۔ ایک گائوں، محلے، ادارے یا قصبے میں ایک ہی جیسے بے شمار لوگ ہوتے ہیں لیکن ان میں کچھ زیادہ عزت والے، کچھ لوگوں کے دلوں میں بسنے والے اور کچھ نظروں سے گر جاتے ہیں کیونکہ ہر شخص کا اخلاق، کردار اور سلوک ایک جیسا نہیں ہوتا۔ ایک ہی سکول میں استاد عام طور پر ڈگریوں کے حساب سے ایک ہی جیسے پڑھے لکھے ہوتے ہیں اکثر کے گریڈ بھی یکساں ہوتے ہیں لیکن عزت کے ترازو میں کسی کا وزن دو من تو کسی کا دو سیر ہوتا ہے۔
بعض استاد طلبہ کی زندگی کا حصہ بن جاتے ہیں تو بعض کلاس بدلنے کے بعد یاد بھی نہیں رہتے۔ شخصیت کا حصہ وہ استاد بنتے ہیں جو اپنے طلبہ کی ذہنی تعمیر کرتے ہیں، کردار سازی پر توجہ دیتے ہیں اور طلبہ کے ذہنوں کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ استاد کی کمائی ہوتی ہے جو اسے شاگرد کی شخصیت کا عمر بھر کے لئے حصہ بنا دیتی ہے۔ خود میرے اندر میرے دو استاد چھپے ہوئے ہیں اور وہ پڑھتے، لکھتے، سوچتے اور بعض اوقات مجلس میں بیٹھے گفتگو کرتے میرے ذہن کی کھڑکی پر دستک دیتے رہتے ہیں ۔ استاد تو میرے سینکڑوں تھے لیکن قلب و ذہن کا حصہ صرف دو بنے۔ پھراس صف میں میں اکیلا نہیں۔ مجھ جیسے بلاشبہ ہزاروں طلبہ ہیں جو ان استادوں کو اپنے اندر چھپائے پھرتے ہیں۔ ہماری تاریخ میں سینکڑوں سیاستدانوں کا ذکر ملتا ہے لیکن جو مقام اللہ سبحانہ ٗ تعالیٰ نے محمد علی جناح قائداعظم کو عطا کیا، وہ کسی اور کا مقدر نہ بنا۔
گزشتہ دو صدیوں نے سینکڑوں شاعر پیدا کئے لیکن جو مقام غالب و اقبال کو نصیب ہوا وہ کسی اور کے حصے میں نہ آیا۔ اقبال رحمت اللہ علیہ ہیں لیکن غالب نہیں۔ بھلا کیوں؟ اس لئے کہ غالب صرف بہت بڑا شاعر تھا جبکہ اقبال شاعر ہونے کے علاوہ قومی شاعر بھی تھا، مفسر قرآن بھی تھا، قوم کو بیدار کرنے اور منزل کا سراغ لگا کر راہنمائی کرنے والا بھی تھا۔ اس کو میں کمائی کہتا ہوں جو صرف فن اور قابلیت سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ خدمت، مشن، کردار اور کارہائے نمایاں سے حاصل ہوتی ہے۔ زندگی اور تاریخ ان کو عزت بخشتی ہے جو اس کے مستحق ہوتے ہیں ورنہ بڑے بڑے عہدوں پر متمکن، بڑے بڑے امراء و روساء، بڑے بڑے فن کار وقتی شہرت اور سستی عزت حاصل کر کے وقت کے بہتے دریا میں یوں بہہ جاتے ہیں جیسے تنکا پانی کی سطح پر بہتا اور پھر ہمیشہ کے لئے غائب ہو جاتا ہے۔ اسے میں وقتی یا لمحاتی عزت کہتا ہوں کیونکہ یہ سطحی، جعلی بناوٹی اور دکھاوے کی عزت ہوتی ہے۔ جو عزت کمائی جائے وہ ہمیشہ قائم رہتی ہے چاہے اس کا حلقہ چھوٹا ہوں یا نہایت وسیع، مقامی، ملکی ہو یا قومی ہو یا پھر بین الاقوامی، حکیم سعید کے قتل پر میں نے ایک شخص کو یونیسیکو (پیرس) میں روتے دیکھا جبکہ یہاں ہر روز قتل ہوتے ہیں جن پر ان کے محلے دار بھی مغموم نہیں ہوتے اور ہاں یاد رکھیئے! عزت اور خوف میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ ایس پی، ڈی سی، وزیر، کسی دولت مند یا رئیس کو دیکھ کر لوگ راستے سے ہٹ جاتے ہیں۔ یہ عزت نہیں، خوف ہوتا ہے۔ اللہ کے بندے کے ہاتھ چومنے کے لئے لوگ بے چین کھڑے ہوتے ہیں لیکن وہ چھپتا پھرتا ہے۔ یہ عزت یا احترام یا عقیدت ہوتی ہے نہ کہ خوف ..... حرم شریف مکہ معظمہ میں میں نے ایک شخص کو بیٹھے دیکھا جس کے چہرے سے نور برس رہا تھا۔ فوراً دل میں خیال آیا کہ ہوسکتا ہے کہ یہ شخص میر ےآقا ﷺ کے خاندان سے ہو کیونکہ یہ اندازہ کرنا مشکل نہ تھا کہ ان کا تعلق مکہ معظمہ سے ہے۔ ایک مقناطیسی قوت نے مجھے ان کی طرف کھینچا اور میں نے بلا سوچے سمجھے نصف لمحے میں ان سے ہاتھ ملا کر ان کا ہاتھ چومنا چاہا تو انہوں نے ہاتھ پیچھے کھینچ لیا۔ اسے عقیدت اور نسبت کہتے ہیں نہ کہ دکھاوے کا احترام، جعلی عکس اور خوف ..... مجھے فوراً خیال آیا کہ میں جب بھی اپنے مرشد کے ہاں حاضری دیتا انہوں نے کبھی ہاتھ چومنے نہ دیا۔ ان کا وصال 1994ء میں ہوا۔ میں بے شمار بار حاضر ہوا صرف ایک بار اتنی جرات ہوئی کہ ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے قلب کی جانب لے گیا۔ جو اب ملا تمہاری امانت ہے۔ ان کی بے شمار خاموش کرامات دیکھیں لیکن کبھی پوچھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ قبرستان کی ایک ٹوٹی پھوٹی مسجد میں قیام، کل دو جوڑے کپڑوں کا اثاثہ، جوتے کبھی پہنے نہیں، دن بھر آنے والوں کو چائے اور کھانا، نہ کوئی مرید نہ کوئی پیر نہ کوئی ظاہری بیعت۔ اپنے آپ کو یوں چھپا رکھا تھا کہ نہایت محدود تعداد کے علاوہ ان کا کسی کو علم ہی نہیں تھا۔ رعب و دبدبہ اس قدر کبھی کسی وزیر، وزیراعلیٰ، وزیراعظم یا صدر کے دفتر میں دیکھا نہ محسوس ہوا بلکہ اکثر ان اعلیٰ ایوانوں سے نکلنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی قدرت اور مقدر کی داد دی کہ سارا کھیل ہی مقدر کا نظر آیا۔ حکمرانوں کے درباروں میں عزت جعلی، دبدبہ نقلی جبکہ فقیرکے دربار میں عقیدت دل کی گہرائیوں سے پھوٹتی ہے اور دبدبہ آسمانوں سے نازل ہوتا ہے۔ میں نے دیکھا کہ مرشد کے ہاں حاضری دینے والے محدود سے لوگ جو کچھ نذرانہ دیتے یا پیش کرتے وہ بیوائوں، غریبوں اور لاچاروں کے گھروں میں پہنچ جاتا جبکہ حکمران کو ہمیشہ اپنی دولت میں اضافے کے لئے ترکیبیں سوچتے پایا۔ ہوس سے بھرپور دل عزت نہیں کما سکتا، عزت ہوس سے خالی دل کے حصے میں آتی ہے۔ قلب کو ہوس سے خالی کرنا پہاڑوں، ملکوں اور سلطنتوں کے فتح کرنے سے بھی زیاہ مشکل کام ہے اور جو اس چوٹی کو سر کرلے وہ دونوں جہانوں میں اصلی عزت کماتا ہے۔ فقیر کے پاس اپنے عقیدت مندوں کو دینے کے لئے امانتیں ہوتی ہیں اور یہ امانتیں اللہ پاک کی دین ہوتی ہیں جبکہ حکمرانوں کے پاس دینے کو عہدے، دولت اور مادی انعامات ہوتے ہیں۔ امانتیں ملیں تو باطن روشن اور قلب منور ہوتا ہے جبکہ عہدے دولت اور مادی انعامات ملیں توغرور، نخوت اور ہوس میں اضافہ ہوتا ہے، شہرت ملتی ہے اور جعلی احترام قدم چومنے لگتا ہے کیونکہ دنیا جعل پسند ہے اور ظاہر پرست ہے۔ دنیاوی عزت کو فنا ہے لیکن قلبی عقیدت کو فنا نہیں۔
دوستو! بات بہت دور نکل گئی۔ کہنا فقط یہ چاہتا تھا کہ عزت کمائی جاتی ہے، خریدی نہیں جاسکتی۔ اصلی اور حقیقی عزت کو فنا نہیں جبکہ جعلی اور وقتی عزت وقت کے دریا میں بہہ کر اپنا وجود کھو بیٹھتی ہے۔
تازہ ترین