• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی کانگریس میں قرارداد انتخابات سے قبل پیش ہوئی، 7 ماہ میں پاکستانی سفارتی کارکردگی سوالیہ نشان

نیویارک (تجزیہ: عظیم ایم میاں)امریکی کانگریس میں پاکستان سے متعلق قرارداد انتخابات سے قبل پیش ہوئی ،7ماہ کے دوران سفارتی کارکردگی سوالیہ نشان ہے

 امریکی قرارداد کی منظوری کے بعد یورپی ہیڈ کوارٹرز جنیوا سے انسانی حقوق بارے ایک ورکنگ گروپ کی 17صفحات پر مشتمل یکطرفہ موقف پر مبنی اورپاکستانی حکومت کے موقف سے خالی رپورٹ بھی منظر عام پر آگئی ۔ 

ورکنگ گروپ کا دعویٰ ہے کہ اس رپورٹ کی تیاری کے دوران حکومت پاکستان کے موقف کیلئے پوچھا گیا لیکن کوئی جواب نہیں ملا، حکومتی رہنماوں اور ترجمان کا جوابی قرارداد کی منظوری پر اکتفا، ورکنگ گروپ کی رپورٹ مسترد کرنا خود فریبی ہے

 پی ٹی آئی کو سوچنا ہوگا کہ اگر اس مہم کے نتیجے میں وہ بھی برسر اقتدار آگئی تو اس کیلئے بھی ان دودستاویزات کےمنفی اثرات سے ملک کو بچانا ممکن نہیں ہوگا ۔ 

قرارداد کی حمایت میں بھارتی اور اسرائیلی لابی کے حامی اراکین کی بڑی اکثریت شامل ہے۔ ابھی امریکی ایوان نمائندگان کی واضح اکثریت سے منظور کردہ پاکستان کے بارے میں قرارداد کے متن اور دیگر چقائق بارے امریکا اور پاکستان کے سرکاری ترجمانوں کے تبصرے اور ردعمل کا سلسلہ بھی مکمل نہیں ہو تھا کہ اقوام متحدہ کے یورپی ہیڈ کوارٹرز جنیوا سے انسانی حقوق بارے ایک ورکنگ گروپ کی 17صفحات پر مشتمل یکطرفہ موقف پر مبنی اورپاکستانی حکومت کے موقف سے خالی رپورٹ بھی منظر عام پر آگئی ۔ 

ورکنگ گروپ کا دعویٰ ہے کہ اس رپورٹ کی تیاری کے دوران حکومت پاکستان کے موقف کیلئے پوچھا گیا لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔ 

ورکنگ گروپ کی یہ رپورٹ شروع سے آخر تک بانی پی ٹی آئی کی گرفتاری اور پی ٹی آئی کے یکطرفہ موقف کی نہ صرف عکاسی کرتی ہے بلکہ پی ٹی آئی کی جانب سے ورکنگ گروپ سے رجوع کرنے والے ’’ذرائع ‘‘ کی معلومات کی کسی تحقیق کے بغیر ہی تائید بھی کیا ہے اور اسی طرح 435اراکین امریکی ایوان نمائندگان پر مشتمل ایوان سے 368اراکین کی حمایت اور دستخطوں سے منظور کردہ ’’نان بائنڈنگ‘‘ قرار داد کے عملی حقائق پر بھی نظر ڈالنے سے ہے کہ واشنگٹن میں بھی پاکستان کے سرکاری ترجمان اور قومی مفادات کی نمائندگی اور ترجمانی کرنے والوں نے بھی اس بارے میں روک تھام یا متبادل موقف آگے بڑھانے کیلئے کارکردگی نہیں دکھائی۔ 

اب اسلام آباد میں حکومتی رہنما اور ترجمان امریکی قرارداد کو ’’نان بائنڈنگ‘‘ اور پی ٹی آئی کی ملک دشمنی قراردیکر پارلیمنٹ سے جوابی قرارداد کی منظوری پر اکتفا کررہے ہیں اور اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کی17صفات کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ اس گروپ کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ حکومتی حلقوں کی یہ خود فریبی مناسب نہیں۔

 ان دونوں رپورٹس کے بارے میں عملی حقائق، پس پردہ متحرک عناصر اور ان کے عملی مقاصد اور عالمی سطح پر پاکستان بارے اس تازہ منفی ماحول کا سنجیدہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ پاکستان کی یہ داخلی سیاسی اور معاشی صورتحال پاکستان کے لئے عالمی مشکلات کو جنم دینے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ 

حکومتی رہنماؤں اور ترجمانوں نے تو امریکی ایوان نمائندگان کی قرارداد اور اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ کی رپورٹ میں واضح طور پر نظر آنے والے حقائق کا تجزیہ کرنے کی بجائے اس پرنظر ڈالنے کی زحمت کئے بغیر ہی انہیں مسترد کرنے کے جذباتی اور غیر عملی بیانات جاری کردیئے۔

 حقیقت ہے کہ امریکی ایوان نمائندگان میں قرارداد کا مسودہ پاکستان کی فروری 2024 میں منعقدہ انتخابات سے بہت قبل 30نومبر 2023 میں ایوان میں پیش کیا گیا اور متعدد کانگریس مینوں کے اس مسودہ قرارداد کی حمایت میں دستخط نومبر 2023 میں بھی پاکستانی انتخابات سے پہلے کئے گئے اور یہ حقائق منظور شدہ قرارداد 901کے آغاز اور آخر میں دیکھے جاسکتے ہیں (2)اسی طرح یہ حقیقت کہ یہ مسودہ قرارداد غزہ کی اسرائیلی جنگ کے اکتوبر میں آغاز کے بعد ٹیبل کیا گیا.

(3) بانی پی ٹی آئی کا یہ تازہ موقف درست ہے کہ اتنی بڑی اکثریت سے قرارداد کی حمایت اور منظوری اہم ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس قرارداد کی حمایت میں بھارتی لابی اور اسرائیلی لابی کے حامی ری پبلکن اور ڈیموکریٹ اراکین کانگریس کی کتنی بڑی اکثریت شامل ہے۔

 30نومبر 2023سے 25جون 2024تک زیر بحث قرارداد کو آگے بڑھانے میں کس کس حلقے اور افراد نے کیا رول ادا کیا؟

اہم خبریں سے مزید