• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چینی، نکتہ چینی … فضل ربی راہی
دہشت گردی کے زخموں سے چور سوات کے زخم ابھی پوری طرح مندمل نہیں ہوئے ہیں کہ مدین واقعہ کی شکل میں ایک بار پھر سوات کی مقدس مٹی کو لہولہان کردیا گیا۔ سوات کی مٹی کو میں مقدس اس لئے کہتا ہوں کہ یہاں قدیم وقتوں میں کئی مذاہب نے جنم لیا، کئی تہذیبوں نے آنکھ کھولی اور اس کے پرامن اور پرسکون ماحول میں پرورش پائی جن کے قدیم آثار اب بھی سوات بھر میں اس کے تقدس کی گواہی دیتے ہیں۔ گیارہویں صدی عیسوی میں محمود غزنویؒ کی افواج باجوڑ کے راستے سوات میں داخل ہوئیں تو یہاں اسلام کی ابدی روشنی پھیل گئی اور یہاں اسلام کی آفاقی تعلیمات نے دلوں کو مسخر کردیا۔ بدقسمتی سے ریاستِ سوات کو جب 28جولائی 1969میں ایک ضلع کی حیثیت سے پاکستان میں ضم کردیا گیا ۔ اس سے قبل سوات میں مذہبی شدت پسندی کا تصور تک موجود نہیں تھا۔ اندرون ملک اور بیرون ملک سے آنے والے سیاحوں کو عزت اور احترام دینے کے علاوہ ایسا تحفظ حاصل تھا جو انھیں اپنے علاقوں اور ممالک میں بھی شاید حاصل نہ تھا۔ عام طور پر چوری چکاری اور قتل و غارت نامی چیز سے لوگ ناآشنا تھے۔ کسی خاص موقع پر علاقے میں چوری ہوجاتی تو والئی سوات کے حکم پر متعلقہ علاقے کے لوگ چور خود ڈھونڈ نکالتے اور ریاست کے حوالے کرتے۔ ریاستی دور میں بہت کم قتل ریکارڈ پر موجود ہیں لیکن ہر قتل کے مقدمے کا فیصلہ فوری طور پر کیا جاتا۔ قاتل کو سیدو شریف میں واقع ایک خاص مقام تک لے جایا جاتا اور مقتول کے لواحقین کو اختیار دیا جاتا کہ وہ قاتل کو خود گولی ماردیں۔ اس وقت ہمارا موضوع مدین میں سوات آنے والے ایک مہمان سیاح کے مشتعل ہجوم کے ہاتھوں اندوہناک قتل اور اس کے ممکنہ پسِ منظر کا ہے۔ مدین کےموجودہ واقعے پر ہمارے ایک قریبی دوست اور سوات کے مقامی صحافی فیاض ظفر نے مدین جاکر وہاں تفصیلی تحقیقی رپورٹ فائل کی ہے جس کے تحت سوات میں مشتعل ہجوم کے ہاتھوں قرآن مجید کی بے حرمتی کے الزام میں قتل ہونے والے سیال کوٹ کے سیاح کے بارے میں قرآن پاک کی بے حرمتی کا کوئی واضح ثبوت نہیں مل سکا ہے۔ ہوٹل کے مالک کے مطابق سلیمان نامی شخص نے 18جون کو اس کے ہوٹل میں کمرہ کرایہ پر لیا تھا۔ 20جون کو لوگوں کے شور پر ہوٹل کا مالک جب موقع پر پہنچا تو بعض لوگوں کے ہاتھوں میں قرآن پاک کے جلے ہوئے اوراق تھے۔ لوگ سلیمان کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹا رہے تھے مگر وہ دروازہ نہیں کھول رہا تھا۔ پولیس کے آنے پر اس نے دروازہ کھولا اور پولیس عوام کی طرف سے نامزد ملزم کو پولیس سٹیشن لے گئی۔ بعد ازاں مسجدوں میں اعلانات ہوئے اور لوگوں کا ہجوم پولیس سٹیشن پہنچ گیا۔ پولیس نے ملزم کو تحفظ دینے کی کوشش کی لیکن بپھرے ہوئے عوامی ہجوم کے سامنے ان کی ایک نہ چلی اور یوں ملزم کو حوالات سے نکال کر بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ ہمارے دوست فیاض ظفر کے مطابق یہ پہلے سے بنا بنایا کھیل تھا جس کے لئے سٹیج کئی دن قبل تیار کیا گیا تھا۔ انھوں نے اپنی تحقیقی رپورٹ میں اس کی مکمل تفصیلات درج کی ہیں۔ بہرحال وطن عزیز میں مذہب کے نام پر ہجوم کے ہاتھوں قتل ہونے والا یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے اور نہ ہی یہ کوئی آخری واقعہ ہوگا۔ پنجاب کے مختلف علاقوں میں اس طرح کے واقعات عام ہیں جو سب کو معلوم ہیں۔ البتہ سوات جیسے پُرامن وادی میں یہ پہلا واقعہ ہے اور یہ اب سوات کی مقدس سرزمین کے خوب صورت ماتھے پر ایک بدنما داغ کی طرح ہمیشہ کے لئے موجود رہے گا۔ اس ملک کے ساتھ سب سے بڑا ظلم جنرل ضیاء الحق نے کیا ہے۔ اس نے اپنے آمرانہ دور میں پاکستان میں مذہب کو ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تھا۔ اس نے ملک کے ہر ادارے اور ہر تہذیبی قدر کو زبردستی سے مذہب کا لبادہ پہنا دیا تھا۔ وہ اسلامی نظام نافذ کرنے کا داعی تھا لیکن اس نے اسلامی نظام کے نفاذ کی آڑ میں اپنے غیر قانونی، غیر آئینی اور غیر اخلاقی حکومت کو دوام بخشا۔ جہاد کے نام پر مذہبی جتھے بنائے،مدین کے واقعہ میں ملوث چند باریش لوگ سوشل میڈیا پہ وائرل اپنی ایک ویڈیو میں بڑے فخر سے کِہ رہے ہیں کہ انھوں نے حوالات سے ملزم کو کیسے نکالا، کس طرح اس کا سر کچلا یوں لگتا ہے جیسے مدین کے واقعے کی آڑ میں سوات کے لوگوں کی آزمائش مقصود تھی۔ اب بھی سوشل میڈیا پہ سوچ سمجھ کے حامل سوات کے فہمیدہ لوگ اس اندوہ ناک واقعے کی سخت مذمت کر رہے ہیں اور اسے سوات کے حوالے سے بہت بڑی بدشگونی قرار دے رہے ہیں۔ تاہم جن مخصوص قوتوں کو سوات کے لوگوں کی آزمائش مقصود تھی، وہ سوات میں مذہب کے نام پر دوبارہ دہشت گردی پیدا کرنے اور اسے فروغ دینے میں ہرگز کام یاب نہیں ہوسکیں گے۔
یورپ سے سے مزید