دوشِ نبویؐ کے شہ سوار، شہدائے کربلاؓ کے قافلہ سالار، جوانانِ جنّت کے سردار و تاج دار، سلطنتِ روحانیت کے شہریار، حق وصداقت اور جرأت و شجاعت کے علَم بردار، نواسۂ رسولؐ، شہزادۂ کونین، خاتونِ جنّت سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے نورِعین، پیکرِ صبر و رضا، جگرگوشۂ مصطفیٰﷺ، نورِ نگاہِ مُرتضیٰؓ، سیرتِ مصطفیٰ ﷺ کے مظہرِاتم سیّدنا حسین ابنِ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نامِ نامی پوری اسلامی تاریخ میں منفرد شان اور ممتاز مقام کا حامل ہے۔
ابوعبداللہ آپؓ کی کُنیت، زکی، رشید، طیّب، وفی، سیّد، مبارک، سیّد شباب اہل الجنّۃ، ریحانۃ النّبی ﷺ آپؓ کے القاب ہیں۔5 شعبان المعظم سن4 ہجری کو مدینۃ النبی ﷺ میں آپ ؓکی ولادت ہوئی۔ ولادت کے ساتویں دن عقیقہ کیا گیا۔ سرورِ کائنات، فخرِ موجودات، امام الانبیاء، سیّدالمرسلین،خاتم الّنبیین حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ نے آپؓ کے کان میں اذان دی اور اپنا لعابِ دہن منہ میں داخل فرمایا۔ آپؓ کے حق میں دُعا فرمائی اور ’’حُسین‘‘ کے نام سے موسوم فرمایا۔
دامادِ مصطفیٰ، شیرِ خدا، فاتحِ خیبر سیّدنا علی حیدر کرم اللہ وجہہ آپؓ کے والد اور خاتونِ جنّت سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کی والدہ تھیں۔
اس لحاظ سے آپؓ کی ذاتِ گرامی قریش کا خلاصہ اور بنی ہاشم کا عطر تھی۔ آپؓ کا شجرۂ طیّبہ اس طرح ہے۔ حسین بن علیؓ بن ابی طالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبدِ مناف قرشی ہاشمی و مُطّلبی ’’دل و جاں باد فدایت چہ عجب خوش لقبی‘‘۔
رسولِ اکرم ﷺ سیّدنا حسین ابن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بے حد محبت فرماتے تھے۔ جب آپؓ بچّے تھے، تو رسالتِ مآب ﷺ کبھی آپؓ کے رخسار و لب چُومتے، کبھی گود میں کھلاتے، کبھی سینے اور پیٹھ پر بٹھاتے، بسا اوقات ایسا بھی ہوتا کہ امام الانبیاء، سرورِ کائنات حضرت محمد ﷺ سجدے میں ہوتے اور آپؓ رسول اللہ ﷺ کی پُشت مبارک پر سوار ہوجاتے، آپ ﷺ نہ صرف یہ کہ اپنے محبوب نواسے، جوانانِ جنّت کے سردار حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بیٹھنے دیتے، بلکہ اپنے نُورِ نظر کے لیے سجدے کو اورطول دیتے اور کبھی اپنے ہم راہ منبر پر بٹھاتے۔ (ابنِ کثیر/ البدایۃ والنھایۃ 33/8)
روایات کے مطابق نواسۂ رسولؐ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا چہرۂ مبارک اپنے نانا رسول اللہ ﷺ کے چہرۂ انور سے مشابہ تھا اور سیّدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جسمِ مبارک رسول اللہ ﷺ کے جسدِ اطہر کے مشابہ تھا۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ ’’ایک روز مَیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا، دیکھا کہ حسنین کریمینؓ آپ ﷺ کے سینۂ اطہر پر سوار ہیں اور کھیل رہے ہیں۔
مَیں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ﷺ کیا آپﷺ اپنے اِن دونوں نواسوں سے اِس درجہ محبّت فرماتے ہیں؟ تو رسالت مآب ﷺ نے فرمایا۔ کیوں نہیں، یہ دونوں دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔‘‘ (طبرانی/معجم کبیر) روایت کے مطابق ایک بار رسول اللہ ﷺ نے سیّدنا حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے رونے کی آواز سُنی تو سیّدہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا۔ ’’کیا تمہیں نہیں معلوم کہ حسینؓ کا رونا مجھے اندوہ گیں کرتا ہے۔‘‘ (طبرانی/معجم کبیر)
حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت عبادت گزار تھے۔ نماز، روزوں اورحج کا خاص اہتمام فرماتے، آپؓ نے بیس حج پا پیادہ کیے۔ بعض روایات میں پچیس حج کا ذکر آتا ہے۔ (ابنِ کثیر/البدایۃ والنھایۃ 207/8) آپؓ کی سخاوت و فیاضی اور جُود و سخا بےکنار تھی، راہِ خدا میں انفاق اورمال خرچ کرنا آپؓ کا محبوب مشغلہ تھا۔ انتہائی متواضع تھے۔ ایک مرتبہ گھوڑے پر سوار کسی مقام سے گزر رہے تھے کہ غربا و مساکین کی ایک جماعت نظر آئی، جو زمین پربیٹھی روٹی کے ٹکڑے کھا رہی تھی۔
آپؓ نے اُنہیں سلام کیا، جواب میں انہوں نے عرض کیا، فرزندِ رسولؐ! ہمارے ساتھ کھانا تناول فرمائیے، آپؓ گھوڑے سے اُتر کر اُن کے ساتھ بیٹھ گئے اور کھانے میں شریک ہوئے، اور اس موقعے پر آپؓ نے یہ آیتِ مبارکہ تلاوت فرمائی۔(ترجمہ) ’’بےشک، اللہ تعالیٰ تکبّر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘(سورۃ النحل23/) صحابیٔ رسول حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ’’جو چاہے کہ اہلِ جنّت میں سے کسی کو دیکھے‘‘ یا آپ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا۔ ’’جو چاہے کہ جوانانِ جنّت کے سردار کو دیکھے، وہ حسین ابنِ علیؓ کو دیکھ لے۔‘‘
نواسۂ رسول، سیدنا حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ حُسن و جمالِ مصطفیٰ ﷺ کا روشن آئینہ اورسیرتِ احمدِ مجتبیٰ ﷺ کا مظہرِ اتم تھے۔ آپؓ کا خُلق، خُلقِ رسول اور کردار، کردارِ رسولؐ تھا۔ مختصر یہ کہ آپؓ کی سیرت و کردار، خصائل و شمائل اپنے نانا سیّدِ عرب و عجم حضرت محمّد ﷺ کی سیرتِ پاک کاعکسِ جمیل اور پَرتو تھا۔
آپؓ گفتگو فرماتے، تو یوں معلوم ہوتا، سرورِ کونین، امام الانبیاء حضرت محمّد مصطفیٰ ﷺ ارشاد فرما ہیں۔ آپؓ حُجرۂ بتولؓ سے باہر تشریف لاتے، تو ایسا لگتا، گویا فاران کی چوٹیوں سے سیدہ آمنہ کا چاند طلوع ہورہا ہے، آپؓ کی ذاتِ گرامی ایسا آئینۂ نور تھی، جس میں جمالِ مصطفائی کا مشاہدہ کیا جا سکے۔
غرض نواسۂ رسولؐ، جگر گوشۂ علیؓ و بتولؓ، شہیدِ کربلا حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ صُورت میں بھی خُلقِ مُجسم ﷺ کا عکسِ جمیل اور سیرت میں بھی آپ ﷺ کا جلوۂ عین بہ عین تھے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ حق و صداقت، جُرأت و شجاعت، عزم و استقامت، ایمان و عمل، سیرت و کردار، تسلیم و رضا، صبر و برداشت اور ایثار و قربانی کا مُجسّم پیکرتھے۔
نواسۂ رسولؐ کو جرأت و شجاعت اور حق گوئی و بےباکی اپنے نانا، امام الانبیاء، سیدالمرسلین، فخرِ دو عالم حضرت محمّد ﷺ اور اپنے والدِ گرامی شیرِ خدا، حیدرِ کرّار سیّدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ سے وَرثے میں ملی تھی۔ آپؓ کی ذاتِ گرامی اسلامی تاریخ میں صبر و استقلال اور تسلیم و رضا کی وہ روشن مثال ہے جو منفرد مقام اور تاریخ ساز اہمیت کی حامل ہے۔
مستند تاریخی روایات کے مطابق رجب 60ھ/680ء میں یزید نے اسلامی اقدار، دین کی رُوح اور مسلمہ اسلامی شعائر کے منافی ظلم و جبر اوراستبداد پرمبنی اپنے اقتدار اورحُکم رانی کا اعلان کیا۔ اس کے لیے بالجبر عام مسلمانوں کو بیعت اور اطاعت پر مجبور کیا گیا۔ مدینۃ النبیؐ میں ایک مختصر حکم نامہ ارسال کیا گیا، جس میں تحریر تھا کہ ’’حسینؓ ابن علیؓ، عبداللہ بن عمرؓ اور عبداللہ بن زبیرؓ کو بیعت اور اطاعت پر مجبور کیا جائے۔ اس معاملے میں پوری سختی سے کام لیا جائے، یہاں تک کہ یہ لوگ بیعت کرلیں۔‘‘(ابنِ اثیر/الکامل فی التاریخ 3/263)
بعدازاں، دیکھنے والوں نے مشاہدہ کیا اور تاریخ کے امینوں اور مؤرخوں نے جرأتِ اظہار، حق کی بقا، اعلیٰ انسانی اقدار کے تحفّظ، دین کی سربلندی کے لیے اُٹھنے والے ہر قدم اور جرأت و شجاعت کی تاریخ کے ہر ورق کو محفوظ کیا۔ دیکھنے والوں نے دیکھا کہ سرکارِدوجہاںﷺ کے نور نظر، شیرِخدا، حیدرِکرار سیدنا علی مرتضیٰؓ کے فرزند، سیدنا حسین ابن علیؓ اپنے جدِّ اعلیٰ حضرت ابراہیم خلیل اللہؑ اور نانا سید الانبیاء، حضرت محمّد مصطفی ﷺ کی اتباع میں سلطان جائر، یزید کے خلاف جرأتِ اظہار اور علَمِ جہاد بلند کرتے ہوئے اسوۂ پیمبری پر عمل پیرا ہوتے ہوئے جرأت و شجاعت کی بےمثال تاریخ رقم کرتے ہیں۔ حق و صداقت کا پرچم بلند رکھنے اور دین حق پر مرمٹنے کا درس دیتے ہیں۔
خلقِ خدا کو اپنے ظالمانہ قوانین کا نشانہ بنانے والی اورمحرماتِ الٰہی کو توڑنے والی حکومت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ ’’لوگو! رسول اللہ ﷺ نے فرمایاہے۔ جس نے ظالم، محرماتِ الٰہی کو حلال کرنے والے، اللہ کے عہد کو توڑنے والے، اللہ کے بندوں پر گناہ اور ظلم کے ساتھ حکومت کرنے والے بادشاہ کو دیکھا اور قولاً و عملاً اِسے بدلنے کی کوشش نہ کی تو اللہ کو حق ہے کہ اُس شخص کو اُس ظالم بادشاہ کی جگہ دوزخ میں داخل کردے۔
آگاہ ہوجاؤ، ان لوگوں نے شیطان کی حکومت قبول کرلی ہے اور رحمٰن کی اطاعت چھوڑ دی ہے، مُلک میں فساد پھیلایا ہے، حدود اللہ کو معطّل کردیا ہے اور اللہ کی حلال کی ہوئی چیزوں کو حرام کردیا ہے، اِس لیے مجھے اس کے بدلنے کا حق ہے۔‘‘(ابن اثیر/ الکامل فی التاریخ 4/40)۔
کربلا کے قافلہ سالار سیدنا حسینؓ ابن علیؓ نے یزید کی بیعت نہیں کی۔ آپؓ شہادت کے آخری لمحے تک انکارِ بیعت پر مصر رہے، آپؓ اپنے جد امجد حضرت محمّد ﷺ کے شہر میں مقیم تھے، لیکن یزید کے کارندے اور اس کےعمال آپؓ کے انکارِ بیعت کو بنیادی اہمیت دے رہے تھے۔
وہ حضرت حسینؓ کے مقام اور سرکارِ دوجہاں ﷺ سے اُن کا جو رشتہ اور نسبت تھی، اُس کی عظمت و اہمیت اور دور رس اثرات سے پوری طرح آگاہ تھے، مگر اُن کی تمام تر کوششوں کے باوجود نواسۂ رسولؐ نے جُھکنا اور باطل سے ملنا گوارا نہیں کیا۔ آپؓ نے جو موقف اختیار فرمایا، وہ پوری بصیرت اور عزم و ارادے کے ساتھ اختیار فرمایا تھا۔
الغرض، ’’یوم الترویہ‘‘ ذی الحجہ سن 60 ہجری کو کاروانِ اہل بیتؓ اور شہدائے کربلاؓ کا قافلہ مکّہ سے روانہ ہوا، مقام تنعیم سے ہوتے ہوئے مقامِ صفاح پر پہنچا۔ یہاں عرب کا مشہور شاعر فرزدق ملا، امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُس سے عراق کے حالات معلوم کیے۔ اُس نے کہا، آپؓ نے ایک باخبر شخص سے حال پوچھا۔ کہا، لوگوں کے دل آپؓ کے ساتھ، لیکن تلواریں وقت کے حُکم رانوں کے ساتھ ہیں۔ قضائے الہٰی آسمان سے اُترتی ہے،اللہ جو چاہتاہے، کرتا ہے، یہ سُن کر آپؓ نے فرمایا! ’’تم نے سچ کہا، اگر خدا کا حُکم ہمارے موافق ہوا تو اُس کی نعمتوں پراُس کے شکر گزار ہوں گے۔ شُکرگزاری میں وہی مددگار ہے اور اگر خدا کا فیصلہ ہمارے خلاف ہوا، تب بھی ہماری نیّت حق اور پرہیز گاری ہے۔‘‘(ابنِ اثیر/الکامل فی التاریخ 33/4)۔
میدانِ کربلا میں نواسۂ رسول، سیدنا حسینؓ ابن علیؓ نے ایک موقعے پر اپنے جاں نثاروں کو جمع کر کے حسبِ ذیل خطبہ دیا، جس میں آپ نے فرمایا۔ ’’مَیں پروردگار کا بہترین ثناء خواں ہوں، مصیبت اورراحت، ہرحال میں اُس کا شُکر گزار ہوں۔ خدایا! مَیں تیری حمد بیان کرتا ہوں کہ تُونے ہمیں نبوّت سےسرفراز کیا، ہمیں گوشِ شنوا، دیدۂ بینا اور دل آشنا دیا، ہمیں قرآن سکھایا اور دین کا فہم عطا کی۔ اب ہمیں اپنے شُکرگزار بندوں میں شامل فرما۔ امابعد! مجھے آج کسی کے ساتھی اپنےساتھیوں سے زیادہ وفادار، کسی کے اہلِ بیت اپنے اہلِ بیت سے زیادہ نیکوکار اور صلۂ رحمی کرنے والا کوئی دوسرا گھرانہ نہیں معلوم ہوتا۔
خدا تم لوگوں کو ہماری جانب سے جزائے خیر دے، مَیں اِن دشمنوں کی وجہ سے آج کا دن، کل ہی کا دن سمجھ رہا ہوں۔ اس لیےمَیں تمہیں بخوشی واپس جانے کی اجازت دیتاہوں۔ میری طرف سے کوئی ملامت نہ ہوگی۔ رات ہوچُکی ہے، ایک ایک اونٹ لو اور اپنے اپنے شہروں اوردیہات کی جانب چلےجائو۔ یہاں تک کہ اللہ یہ مصیبت آسان فرما دے۔ یہ لوگ مجھ ہی کو تلاش کریں گے، میرے بعد کسی کی تلاش نہ ہوگی۔‘‘ اِس پر کربلا کے تمام جاں نثاروں نے یک زبان ہو کر جواب دیا کہ کیا ہم صرف اس لیے چلے جائیں کہ آپؓ کے بعد زندہ رہیں؟ خدا ہمیں یہ دن نہ دکھائے۔
وہ جو ایک معیار ہے، چڑھتے سورج کی پوجا کا، محفوظ کنارے کے ساتھ لگنے کا، طاقت وَر کی ہاں میں ہاں ملانے کا اور فائدہ دیکھ کر وفاداری بدلنے کا، یہ سب مادّی معیاراتِ فتح و شکست ہیں، جنہیں کربلا کے جاں نثاروں پر منطبق کیا ہی نہیں جاسکتا۔ یہاں تو جذبہ ہی دوسرا کارفرما تھا، جسے اہلِ دنیا نہ سمجھے ہیں، نہ سمجھیں گے کہ ؎ اے دل، تمام نفع ہے سودائے عشق میں… اِک جاں کا زیاں ہے، سو ایسا زیاں نہیں۔ ریگ زارِ کرب و بلا میں شبِ عاشور ختم ہونے کے بعد صبحِ قیامت نمودار ہوئی۔
جس میں تاریخ اسلام کا سب سے دل دوز واقعہ پیش آیا۔ بہ اختلافِ روایت جمعہ یا سنیچر کے دن، یومِ عاشور بعد نمازِ فجر، حسینی فوج ظالم و جابر قوّت کے سامنے سینہ سپر ہوئی۔ معرکۂ کارزار میں جہاد کا علم بلند ہوا، یہ کوئی لشکرِجرار نہ تھا، بلکہ بہتّرجاں نثاروں کی ایک مختصرجماعت تھی، جس میں بتیس سوار اور چالیس پیادہ تھے اور اُس کی ترتیب یہ تھی کہ میمنہ پر زہیر بن قین تھے اور میسرہ پر حبیب بن مظاہر،عباس علَم دار کے ہاتھوں میں حسینی علم تھا۔
اِدھر یہ مٹھی بھرجاں نثارتھے، دوسری جانب ہزاروں کا لشکر، کربلا کے قافلہ سالار حسینؓ ابنِ علیؓ گھوڑے پر سوار ہوئے، تو قرآن سامنےرکھا اور دونوں ہاتھ اٹھا کر بارگاہِ ایزدی میں یہ دعا کی۔ ’’خدایا! تُو ہر مصیبت میں میرا بھروسا اور ہر تکلیف میں میرا آسرا ہے، مجھ پرجو جو وقت آئے، اُن میں تو ہی میرا پشت پناہ تھا۔ بہت سے غم و اندوہ ایسے ہیں کہ جن میں دل کم زور پڑ جاتا ہے، کام یابی کی تدبیریں کم ہوجاتی ہیں اور رہائی کی صُورتیں گھٹ جاتی ہیں۔
دوست ساتھ چھوڑ دیتے اور دشمن شماتت کرتے ہیں، لیکن مَیں نےاس قسم کے تمام نازک اوقات میں سب کو چھوڑ کر تیری طرف رجوع کیا، تجھ ہی سے اس کی شکایت کی، تُونے ہی ان مصائب کے بادل چھانٹ دیے اور ان کے مقابلے میں میراسہارا بنا، تُو ہی ہر نعمت کا ولی، ہر بھلائی کا مالک اور ہر آرزو اور ہر خواہش کا منتہا ہے۔‘‘
آپؓ نے یزیدی فوج کے قریب جاکر اتمامِ حجّت کے طور پر فرمایا۔ ’’لوگو! جلدی نہ کرو، پہلے میرا کہناسُن لو، مجھ پرسمجھانےکا جوحق ہے، اُسے پورا کرلینے دواورمیرے یہاں آنے کا عذر بھی سُن لو، پھراس کےبعد تمہیں حق اور اختیار ہے، اگر میرا عذر قبول کرلوگے، میرا کہنا سچ مانو گے اور انصاف سے کام لوگے تو خُوش قسمت ہوگے اور تمہارے لیے میری مخالفت کی کوئی سبیل باقی نہ رہے گی اور اگر تم نے میرا عذر قبول نہ کیا اور انصاف سے کام نہ لیا تو پس تم اور تمہارے شریک سب مل کر اپنی ایک بات ٹھہرالو، تاکہ تمہاری بات تم میں سے کسی کے اوپر مخفی نہ رہے، تم میرے ساتھ جو کرنا چاہتے ہو، کرگزرو اورمجھے مہلت نہ دو، میرا والی اللہ ہے۔ جس نے کتاب نازل کی اور وہی صالحین کاولی ہے۔‘‘
آپؓ نے مزید فرمایا۔ ’’لوگو! میرے نسب پرغور کرو، مَیں کون ہوں؟ پھر اپنے گریبانوں میں منہ ڈال کراپنےآپ کو ملامت کرو، خیال کرو کہ کیا میرا قتل اور میری آبرو پامال کرنا تمھیں زیبا ہے؟ کیا مَیں تمہارے نبیؐ کی بیٹی کا فرزند اور اس کے وصی ابن عم، اللہ پرسب سے پہلے ایمان لانے والے، اس کے رسولؐ اور اس کی کتاب کی تصدیق کرنے والے کا فرزند نہیں ہوں؟ کیا سیّدالشہداء حمزہؓ میرے باپ کےبرادر اور جعفر طیار ذوالجناحین میرے چچا نہ تھے؟ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ رسول اللہ ﷺ نے میرے اور میرے بھائی کے متعلق ارشاد فرمایا تھا کہ یہ دونوں جوانانِ جنّت کے سردار ہیں… مجھے بتائو، کیا اِس فرمان میں میری خوں ریزی کے لیے کوئی روک نہیں ہے؟‘‘ لیکن، نواسۂ رسولؐ کی تمام نصیحتیں اور خطبے ظالموں پر بےاثر رہے۔
آخر وہ وقت بھی آیا کہ جب ریگ زارِ کرب و بلا میں نواسۂ رسولؐ، دوش نبویؐ کے شہہ سوار، جاں نثارانِ کربلا کے قافلہ سالار، سیدنا حسین ابن علیؓ اوران کے بہتّر پروانوں اور جاں نثاروں نے حق و صداقت کا پرچم بلندرکھتےہوئے دینِ مبین کی سربلندی، عدل و انصاف کی بالادستی، اعلیٰ انسانی اقدار اور دینی شعائر کے تحفّظ کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے یہ ثابت کردیا کہ حق کی سربلندی اور باطل کی سرکوبی کے لیے بڑی سے بڑی قربانی سے دریغ نہ کرنا، مردانِ حق کا شیوہ ہے۔
سیدنا حسینؓ اوردیگر شہدائے کربلاؓ اُن لوگوں کے لیے روشنی کا مینار ہیں، جو خدا کے دین کی خاطر انسانوں کے شرف و مجد کو قائم رکھتے اوراعلائے کلمۃ اللہ کے سفر میں نہ کانٹوں کی پروا کرتے ہیں اور نہ اُن شدائد سے ہراساں ہوتے ہیں، جواس سفر میں تاریخ کی شاہ راہ میں پیش آتے ہیں۔ زندہ وہی رہتے ہیں، جو حق کے لیےجیتے اور حق کے لیے مرتے ہیں۔ وہ کبھی زندہ نہیں رہتے، جو طاقت کے زعم، قوت و اقتدار کےغرورمیں اندھے ہوجاتے ہیں اور یمین و یسار سے بےنیاز اپنی طاقت پر بھروسا کرتے ہوئے اس غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں کہ مسندِ اقتدار دنیا کا انعام اور آخرت کا توشہ ہے۔
یہ تاریخ کی ایک روشن حقیقت ہے کہ سانحۂ کربلا کے بعد اقتدار کی مسند لپیٹ دی گئی، شاہی ایوانوں میں گرد اُڑنے لگی، ظالم و جابر فنا کے گھاٹ اتار دیے گئے، اقتدار کے ایوانوں میں سکوت طاری ہوگیا، یزید اور اس کے حواری بے نام ونشاں ہوکر مٹ گئے، لیکن واقعۂ کربلا کی یاد ختم نہیں ہوئی، یہ رہتی دنیا تک اہل حق کے دلوں میں حق پرستی کے آتشیں جذبات پیدا کرتی رہے گی۔ ؎ نہ زیاد کا وہ ستم، نہ یزید کی وہ جفا رہی… جو رہا تو نام حسینؓ کا جسے زندہ رکھتی ہے کربلا۔
شہدائے کربلاؓ کے قافلہ سالار سیدنا حسین ابن علیؓ کی شہادت 10محرم 61 ہجری بمطابق 10 اکتوبر 680ء یومِعاشور، جمعہ کے دن دریائے فرات کے کنارے کربلا میں ہوئی، جہاں آپؓ کو، آپؓ کے بہتّر جاں نثاروں کے ہم راہ انتہائی ظلم و سفّاکی کے ساتھ شہید کردیا گیا۔ یوں شہدائے کربلا کے قافلہ سالار سیّدنا حسینؓ ابنِ علیؓ اور آپ کے بے مثال جاں نثاروں نے تاریخ کے اوراق پر یہ نقش فرمادیا کہ ؎ عشقِ محبوب میں ہوجاؤ فنا یوں کیفی…عشق ہی سلسلۂ نام و نسب بن جائے۔