’’محرّم الحرام‘‘ اسلامی تقویم کا پہلا مہینہ اور سنِ ہجری کا نقطۂ آغاز ہے۔ یہ اسلامی سالِ نوکا انتہائی متبرّک و مقدّس مہینہ ہے، یہ اُن چار اسلامی مہینوں میں سے ایک ہے، جنہیں خداوندِ قدوس نے’’اشہُرِ حُرم‘‘ اور امن کے مہینے قرار دے کر ان کے تقدّس و احترام پر مہرِ تصدیق ثبت کی۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اسلامی سال کا آغازجس ’’محرّم الحرام‘‘ سے ہوتا ہے،وہ اپنے دامن میں غم و حُزن اور رنج و الم کی داستانیں سموئے ہُوئے ہے۔ یکم محرّم الحرام، مرادِ رسولؐ،امیر المومنین سیّدنا عمر فاروقؓ کا یومِ شہادت ہے، جب کہ عاشورۂ محرّم نواسۂ رسولؐ، جگر گوشۂ علیؓ و بتولؓ سیّدنا حسین ابنِ علیؓ اور شہدائے کربلاؓکی شہادتِ عظمیٰ اور ظلم و ستم کی وہ داستان لیے ہوئے ہے، جسے تاابدفراموش نہیں کیا جاسکے گا۔
یہ جرأت و شجاعت،تسلیم و رضا اور باطل کے سامنے سینہ سپر ہونے کا وہ پیام ہے، جس کی اہمیت کبھی کم نہ ہوگی۔ نیز،یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اسلامی تقویم اور سنِ ہجری کا نقطۂ آغازدراصل واقعۂ ہجرتِ نبویؐ ہے، جو رسالت مآبﷺ اور صحابۂ کرامؓ کی زندگیوں میں مشرکینِ مکّہ کے ظلم و جبر، استبداد اور کرب و الم سے عبارت ہے۔
یہ وہ انقلابی موڑ ہے، جب ظلم و جبر کی انتہا ہُوئی اور بالٓاخر پہلے مظلوم مسلمانوں اور آخرکار امام الانبیاء، سیّدالمرسلین حضرت محمد مصطفی ﷺ کو بھی ہجرت کا حکم ملا۔ بلاشبہ، امام الانبیاء، سیّد المرسلین، خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کی ’’ہجرتِ مدینہ‘‘ اسلامی تاریخ کا اہم موڑ، اسلام کی دعوت و تبلیغ، عالم گیر نشر و اشاعت کا اہم سنگِ میل، آپ ﷺ کی دینی، سیاسی، تعلیمی و عسکری زندگی میں قابلِ ذکر اور بنیادی اہمیت کا حامل اہم مرحلہ ہے۔ ’’ہجرتِ مدینہ‘‘ کو اس کے کثیر الجہات تناظر میں دیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہجرتِ نبوی ﷺ ہی وہ اہم مرحلہ ہے، جب اسلام اور مسلمانوں کو دعوتِ دین اور اسلام کے ابلاغ و تبلیغ کے آزادانہ مواقع میسّر آئے۔
دوسری جانب ’’مواخاتِ مدینہ‘‘ جیسے اثر انگیز و انقلابی اقدام، ’’صفّہ‘‘ جیسے اہم دینی و تعلیمی ادارے کے قیام ’’میثاقِ مدینہ‘‘ کی صورت ریاستِ مدینہ کے پہلے تحریری آئینی دستور اور اس کے ذریعے نوزائیدہ اسلامی ریاست میں خارجہ و داخلہ امور پر مبنی جامع پالیسی کی بدولت، نظامِ مملکت، قانون کی حکم رانی، اقلیتوں کے حقوق کے تحفّظ، مذہبی رواداری، اسلام کی امن پسندی اور عدل کی بالادستی کا تصوّر اجاگر ہوا۔
’’غزوئہ بدر‘‘ سے اسلام کی عسکری و دفاعی قوت کا اظہار عمل میں آیا، بعد کے غزوات و سرایا نے ریاستِ مدینہ کی سرحدوں کو وسعت عطا کی، یہاں تک کہ رسول اللہ ﷺ کی فراست و دانش مندی اور سیاسی حکمتِ عملی پرمبنی اقدامات مثلاً ’’صلحِ حدیبیہ‘‘، ’’فتحِ مکّہ‘‘ اور عالمی سلاطین و فرماں رواؤں کے نام دعوتِ دین پر مشتملمکتوبات سے اسلام کی عالم گیر ترویج و اشاعت کی راہیں ہم وار ہوئیں۔ یہ تمام امور اور اس سے ملحق دیگر کئی دینی، تعلیمی، معاشرتی، معاشی، سیاسی اغراض و مقاصد اور متعدد نتائج و ثمرات درحقیقت ’’ہجرتِ مدینہ‘‘ ہی سے تعلق رکھتے ہیں اور ہجرتِ نبوی ﷺ کے بنیادی اہداف و مقاصد میں شامل رہے ہیں۔
قدیم و جدید سیرت نگاروں نے ’’ہجرتِ مدینہ‘‘ کے مقاصد پر جامع، مدلّل اور مربوط بحث کی ہے، جس سے ایک جانب امام الانبیاء، سیّد المرسلین، خاتم النبیین، پیغمبر آخر و اعظم حضرت محمد ﷺ کی بے مثال فراست و تدبّر، عظیم جدوجہد، تاریخ ساز اور ہمہ گیر انقلابی اقدامات، بے پناہ سیاسی حکمت و بصیرت، تو دوسری جانب آپ ﷺ کی شخصی عظمت و اہمیت کا پتا چلتا ہے۔
یہ بھی انسانی تاریخ کا حیرت انگیز واقعہ ہے کہ محسنِ انسانیت، پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد ﷺ نے اپنے وطن مکّہ معظمہ سے ہجرت فرمانے کے بعد مدینہ طیبہ میں مثالی اسلامی ریاست قائم کی اور تاریخِ انسانی میں پہلی مرتبہ ایک باقاعدہ دستورِ ریاست نافذ کیا۔ پھر دس سال کے انتہائی قلیل عرصے میں جزیرہ نمائے عرب، جنوبی فلسطین اور جنوبی عراق تک اس اسلامی ریاست کو اُس وقت دنیا کی سب سے بڑی منظّم و مستحکم مملکت بنادیا، جس کی حدود دس لاکھ مربع میل سے زیادہ رقبے پر محیط تھیں۔
اس مثالی، اسلامی مملکت ’’ریاستِ مدینہ‘‘ میں آپ ﷺ نے بے مثال دینی و تعلیمی، تہذیبی و تمدّنی، معاشرتی و قانونی انقلاب برپا کیا، جو آپ ﷺ کے مقاصدِ ہجرت میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اسی ہمہ گیر انقلاب نے ہجرتِ نبوی ﷺ کے مقاصد و اہداف کی تکمیل میں تاریخی و کلیدی کردار ادا کیا، جسے آپ ﷺ کے پیغمبرانہ مشن دعوتِ دین، اعلائے کلمۃ اللہ، دینِ مبین کے آفاقی اور عالم گیر پیغامِ ہدایت کے ابلاغ کے اہم اور مثالی دَور سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
ہجرتِ مدینہ، اسلامی تاریخ کا وہ واقعہ ہے، جسے زمانے نے لوحِ تاریخ پر ثبت کردیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ ہجرت نہ ہوتی تو انسان کفر و شرک اور ظلم و جہالت کے اندھیروں، غلامی کی اذیّتوں اور استحصالی قوّتوں کی زنجیروں سے کبھی نجات حاصل نہ کرپاتا۔ ’’ہجرتِ مدینہ‘‘ ہی وہ انقلابی موڑ ہے، جس نے اسلام کے پیغامِ امن و محبّت اور رُشد و ہدایت کو عام کرنے اور اسلام کو ایک عالم گیر اور ابدی دِین کے طور پر ہمیشہ باقی رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ہجرت ہی کی بدولت انسانیت کو عزّت و وقار، تکریم و مساوات اور اعلیٰ اَخلاقی قدریں نصیب ہُوئیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ ’’ہجرت‘‘ انقلابی تحریکوں کا مقدّر ہے۔ قریب قریب ہر پیغمبرؑ اور رسولؑ کو اپنی جائے سکونت سے ضرور ہجرت کرنا پڑی۔ روایت کے مطابق اللہ تعالیٰ کی طرف سے یثرب کی جانب ہجرت کا حکم پاتے ہی سرکارِ دوجہاں صلّی اللہ علیہِ وآلہٖ وسلّم اپنے ہم دم و جاں نثار، یارِغار و مزار، سیّدنا صدیقِ اکبرؓ کے کاشانے پر پہنچے اور انہیں بھی ہجرت کے حکم سے آگاہ فرمایا۔
صدیقِ اکبرؓ، جن کی قسمت میں اس یادگار اور تاریخ ساز سفرِ ہجرتِ مدینہ میں سیّدالانبیاء و المرسلینﷺ کا رفیق و یارِ غار بن کر زندۂ جاوید ہوجانا لکھا تھا، شام ہی سے دیدہ و دل فرشِ راہ کیے ہوئے تھے۔ چناں چہ ایک سنِ ہجری بمطابق 622 عیسوی کو ایک اُونٹنی پر پیغمبرِ اعظم و آخرؐ اور دوسری پر سیّدنا صدیقِ اکبرؓ سوار ہوئے اور سفرِ ہجرت پر روانہ ہوگئے۔ اس طرح وہ جو اپنے صِدق کے باعث’’صدیقِ اکبرؓ‘‘ تھے، اُنھیں رفاقتِ غار کی بدولت ’’یارِ غار، بن کر زندۂ جاوید ہوجانے کی ابدی سعادت حاصل ہُوئی۔
مکّۂ مکرّمہ سے نکلتے ہُوئے محبوبِ ربّ العالمین، سیّدالمرسلینﷺ نے بڑے درد بَھرے دل سے اپنے ربِّ ذوالجلال کی بارگاہِ اقدس میں ان کلمات سے دامنِ دُعا پھیلایا: ’’تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں، جس نے مجھے پیدا کیا، جب کہ مَیں کوئی شے نہ تھا، اے اللہ! دنیا کی ہول ناکیوں، زمانے کی تباہ کاریوں اور شب و روز کے مصائب برداشت کرنے میں میری مدد فرما۔ اے اللہ! میرے سفر میں تُو میرا ساتھی ہو، میرے اہل و عیال میں تُو میرا قائم مقام ہو، اور جو رزق تُونے مجھے دیا ہے، اس میں میرے لیے برکت پیدا فرمادے، اور اپنے حضور مجھے عجز و نیاز کی توفیق عطا فرما اور بہترین اَخلاق پر میری تربیت فرما، اے میرے پروردگار! مجھے اپنا محبوب بنالے، اور مجھے لوگوں کے حوالے نہ فرما، تیری رضا میرے نزدیک ہر چیز سے بہتر ہے۔
میرے پاس کوئی طاقت، کوئی قدرت نہیں بجز تیرے۔‘‘ (ابنِ کثیر / السّیرۃ النّبویہ 2/234)۔8 ربیع الاوّل سن ایک ہجری کو مدینۂ منوّرہ سے تین میل دُور آپؐ قُبا میں وارد ہُوئے، اشتیاقِ دید کا یہ عالم تھا کہ اہلِ مدینہ ایک نظر دیدار کے لیے ٹُوٹے پڑرہے تھے، اُن کی خوشی و مسرّت کی انتہا نہ تھی۔ شوقِ دید اور سُرورِ دل کا یہ نظارہ چشمِ فلک نے شاید ہی پھرکبھی دیکھا ہو۔
یہ پروردگارِ عالم کی منشا اور حکمت ہے کہ ہجرتِ مدینہ کی تاریخ اور اسلامی تقویم کے نئے سال کا نیا مہینہ ’’محرّم الحرام‘‘ باہم اس طرح منطبق ہوگئے کہ اسلامیانِ عالم کے لیے اسلامی سالِ نو کا موضوع اور پیام، ہجرتِ نبویؐ بن کر رہ گئی ہے۔ہجرت کے اس تاریخ ساز واقعے سے اسلامی تاریخ کے ایک نئے اور عہد آفریں دَور کا آغاز ہُوا، جو ہر لحاظ سے فتح وکام رانی کا دَور قرار دیا جاسکتا ہے۔
سیرتِ نبویؐ کا یہ حصّہ اتنا پُر آلام، مصائب اور آزمائشوں سے عبارت ہے کہ اس سے طلوعِ سَحر کی اُمید نہیں بندھتی، مگر خداوندِ قدوس کی کرم فرمائی سے ہجرت ہی وہ اَساسی نقطہ ہے، جس سے رُشد و ہدایت اور اسلام کی عالم گیر ترویج و اشاعت کا وہ عظیم اور لافانی سلسلہ شروع ہُوا، جو آج تک جاری ہے اور اِن شاء اللہ تاقیامِ قیامت جاری رہے گا۔
سنِ ہجری کا آغاز و اجراء، پس منظر اور مختصر تاریخی جائزہ
تاریخی روایات کے مطابق ظہورِ اسلام سے قبل دنیا کی متمدّن اقوام میں مختلف سن رائج تھے، ان میں زیادہ شہرت یہودی، رومی اور ایرانی سِنین کو حاصل تھی، جب کہ عرب جاہلیت کی اندرونی زندگی اس قدر متمدّن نہیں تھی کہ حساب کتاب کے لیے کسی وسیع پیمانے کی ضرورت پیش آتی، کیوں کہ ان کے ہاں یادداشت اور حافظے ہی کا بنیادی عمل دخل تھا۔ ان کے ہاں یہ طریقہ رائج تھا کہ مختلف حالات و واقعات، موسم وغیرہ یا کوئی مشہور واقعہ لے لیا جاتا اور اُس سے وقت کا حساب اور تاریخ کا تعیّن کیا جاتا۔
دورِ جاہلیت کے سِنین میں’’واقعۂ عام الفیل‘‘ کو بنیادی اہمیت حاصل تھی۔ طویل عرصے تک یہی واقعہ عرب کے حساب کتاب میں بطور ’’سن‘‘ مستعمل و مروّج رہا، جب کہ ظہورِ اسلام کے بعد یہ اہمیت تاریخِ اسلام کے مختلف واقعات کو حاصل ہوگئی۔
صحابۂ کرامؓ کا یہ معمول تھا کہ عہدِ اسلام کے مختلف واقعات میں سے کوئی ایک اہم واقعہ دہراتے اور اسی سے حساب کا تعیّن کرتے۔ مثلاً ہجرتِ مدینہ کے بعد ’’سُورۃ الحج‘‘ کی آیتِ قتال نازل ہُوئی، جس میں قتال کی اجازت دی گئی تھی،کچھ دنوں تک یہی واقعہ بطور سن رائج رہا، وہ اسے ’’سنِ اذن‘‘ سے تعبیرکرتے اور یہ تعبیر وقت کے ایک خاص عدد کی طرح یادداشت میں کام دیتی۔
اسی طرح ’’سُورۃ البرأۃ‘‘ کے نزول کے بعد سنِ برأت بھی رائج رہا، جب کہ عہدِ نبویؐ کا آخری سن ’’سنۃ الوداع‘‘ تھا، یعنی رسالتِ مآب ﷺ کا آخری حج، جسے اسلامی تاریخ میں ’’حجۃ الوداع‘‘ کے نام سے خاص شہرت حاصل ہے۔ بعض روایات سے دیگر سِنین کا بھی پتا چلتا ہے، جن میں سے چند کے نام یہ ہیں، سنۃ المحیص، سنۃ الترفئہ، سنۃ الزّلزال، سنۃ الاستیناس وغیرہ۔
بیرونی نے’’آثار الباقیہ‘‘ میں اس طرح کے دس سنین کا ذکر کیا ہے۔اسلامی تاریخ میں سنِ ہجری کے آغاز و اجراء کے حوالے سے متعدد روایات ملتی ہیں، تاہم مورّخین کا اس امر پر اتّفاق ہے کہ ’’سنِ ہجری‘‘ کا باقاعدہ اجراء اور نفاذ دورِ فاروقی میں 30جمادی الثّانی بروز جمعرات17ہجری کو عمل میں آیا۔
سیّدنا علیِ المرتضیٰؓ کے مشورے سے اسلامی تقویم کا شمار واقعۂ ہجرتِ مدینہ سے کیا گیا، اس طرح سنِ ہجری، اسلامی تقویم کی بنیاد قرار پایا، جب کہ خلیفۂ سوم، حضرت عثمان غنیؓ کے مشورے سے’’محرّم الحرام‘‘ کو نئے اسلامی سال کا پہلا مہینہ قرار دیا گیا۔ (بحوالہ : قاضی محمد سلیمان منصور پوری / رحمۃ للّعالمینؐ 392/2 )۔
اس کا مختصر تاریخی پس منظر کچھ یُوں ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر ؓ کے عہدِ خلافت میں اُن کے سامنے ایک سرکاری دستاویز پیش کی گئی، جس پر شعبان کا مہینہ درج تھا۔ یہ دیکھتے ہُوئے حضرت عمرؓ نے فرمایا’’شعبان سے کون سا شعبان مراد ہے؟ اس برس کا یا آئندہ سال کا؟،، پھر آپ نے کبارِ صحابہ ؓ کو جمع کیا اور مشاورت کے لیے ان کے سامنے یہ مسئلہ پیش کیا کہ ریاست کے مالی اور انتظامی معاملات بہت بڑھ گئے ہیں، لہٰذا ضروری ہے کہ حساب کتاب کے لیے ایسا طریقۂ کار وضع کیا جائے، جس سے اوقات اور تاریخ کا درست تعیّن ہوسکے۔
اس پر بعض صحابہؓ کی رائے یہ تھی کہ اس سلسلے میں ایرانیوں سے مشورہ کرنا چاہیے کہ اُن کے یہاں اس حوالے سے کیا طریقے رائج ہیں؟ چناں چہ حضرت عمر ؓ نے ہرمزان کو بُلایا، اس نے کہا، اس کے لیے ہمارے ہاں ایک حساب مروّج ہے، جسے ’’ماہ روز‘‘ کہا جاتا ہے۔ اسی ’’ماہ روز‘‘ کو عربی میں مورّخہ بنالیا گیا۔
بعدازاں، یہ سوال پیدا ہُوا کہ اسلامی تقویم اور تاریخ کے تعیّن کے لیے جو سن اختیارکیا جائے، اُس کا آغازکب سے ہو؟ سیّدنا علیِ المرتضیٰؓ کی رائے سے اتّفاق کرتے ہُوئے سب نے یہی رائے دی کہ سنِ ہجری، نئے اسلامی سال کا آغاز، واقعۂ ہجرتِ نبویؐ سے کیا جائے، چناں چہ اس کے بعد سے’’سنِ ہجری‘‘ کا نفاذ عمل میں آیا۔
ابو ہلال عسکری نے’’کتاب الاوائل‘‘ میں اور علّامہ مقریزی نے اپنی تاریخ میں نام ور تابعی اور عظیم محدّث، حضرت سعید بن مسیّبؒ کے حوالے سے روایت ذکر کی ہے کہ سنِ ہجری حضرت علی کرم اللہ وجہہٗ کی ذاتی رائے اور مشاورت کے نتیجے میں رائج ہُوا۔ (ابوالکلام آزاد / رسولِ رحمتؐ۔ص 198)۔معروف سیرت نگار، قاضی محمد سلیمان منصور پوری’’سنِ ہجری‘‘ کے امتیاز اور خصوصیات کے حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’سنِ ہجری‘‘ میں ایک خصوصیت اور فضیلت یہ پائی جاتی ہے کہ یہ شروع سے موجودہ دَور تک اپنی مجوّزہ صورت پر چلا آرہا ہے، یہ وہ خصوصیت ہے، جو دنیا بھر کے مروّجہ سِنین میں سے غالباً کسی سن میں نہیں پائی جاتی۔ دوسری عجیب خصوصیت اور امتیاز یہ ہے کہ بہ لحاظِ نفاذ اور استعمال بھی سنِ ہجری دنیا کے اکثر مروّجہ سِنین سے قدیم سن ہے، اگرچہ وہ اپنے اعداد کے لحاظ سے سنِ ہجری سے زیادہ قدیم معلوم ہوتے ہیں، مثلاً یکم محرّم سن ایک ہجری،16جولائی سن 5335جولین کے مطابق، جولین پیریڈ کا سن بظاہر سن ہجری سے 5334سال قدیم معلوم ہوتا ہے، جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سنِ ہجری سے989سال بعد 1582ء میں وضع ہُوا۔ (قاضی محمد سلیمان منصور پوری / رحمۃ للّعالمینؐ۔ 392/2)۔
بعدازاں، قاضی سلیمان منصور پوری نے سنِ ہجری کی دنیا کے تمام مروّجہ سِنین پر تاریخی فوقیت ظاہر کرتے ہُوئے جولین پیریڈ، سنِ عبرانی، سنِ نوح، سنِ طوفان، کل جُگ، سنِ ابراہیمی، بختِ نصری، سنِ سکندری، بکرمی بروشٹہ، بکرمی قمری شمسی سال، سنِ عیسوی قدیم، سنِ عیسوی جدید، سنِ قبطی جدید، جلوسِ نوشیروانی، سنِ عام الفیل وغیرہ پر اسلامی سال کی عظمت و خصوصیات اور امتیازات کا احاطہ کرتے ہُوئے تقابلی جائزہ پیش کیا ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ سنِ ہجری دنیا کے تمام مروّجہ سِنین میں امتیازی مقام کا حامل اور منفرد شان رکھتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کم ازکم اسلامی ممالک ’’سنِ ہجری‘‘ کو رواج دیں اور اسلامی تقویم ہی پر اپنا سالانہ کیلنڈر ترتیب دیں کہ ؎ ’’خاص ہے ترکیب میں قومِ رسُولِ ہاشمیؐ۔